امام ابوحنیفہ رحمة الله علیہ کے بارے میں امام شافعی رحمة الله علیہ کا یہ عطر بیز شعر صدیوں سے چمنستان علم کو مہکاتا آرہا ہے کہ #
أعد ذکر نعمان لنا أن ذکرہ
ھو المسک کلما یتکرر یتضوع
”نعمان(امام ابوحنیفہ) کا ذکر ہمارے سامنے بار بار کیا کریں کیوں کہ ان کا ذکر مشک کی طرح ہے، جتنا اس کو دوہرایا جائے گا، اتنی ہی خوش بو پھیلے گی۔“ الله تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو لوگ الله سے محبت کریں گے، الله تعالیٰ زمین وآسمان میں ان کے لیے محبت پھیلا دیں گے۔ ایسے لوگوں کو الله تعالیٰ اپنے فضل سے وہ شان محبوبیت عطا فرماتے ہیں کہ ان کا وجود ہزاروں لاکھوں انسانوں کی عقیدتوں کا مرجع او رمحبتوں کا منبع بن جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو بظاہر فقیر منش نظر آرہے ہوتے ہیں، لیکن در حقیقت لاکھوں دلوں کی سلطنت پر ان کا راج ہوتا ہے، وہ دنیا میں رہتے ہیں تو ان کے ساتھ رنگ ونور کا ایک جہاں آباد ہوتا ہے او رجب وہ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں تو ان کی یادیں اور باتیں ایک عرصے تک محفلوں کی روح او رجان بن کر زندہ رہتی ہیں۔ ان کا ذکر ہوتا ہے تو احساس وخیال کی دنیا مہک اٹھتی ہے۔
ایسے ہی خو ش نصیب لوگوں میں ہمارے والد ماجد حضرت مولانا افتخار احمد اعظمی رحمہ الله بھی تھے، جن کی زندگی کے ایک ایک لمحے میں اکابر علمائے دیوبند کی سادگی ومتانت، حق گوئی وراست بازی، ہمت وشجاعت، استغنا، توکل اور شیریں سخنی ومعجزبیانی کے کمالات کی ایک ایک جھلک بطریق اتم موجود تھی او رجن کو دیکھ کر ایمان تازہ ہو جایا کرتا تھا۔ ان کو دیکھنے والا یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا تھا کہ #
نازم بچشم خُود کہ جمال تو دیدہ است
افتم بپائے خود کہ بکویت رسیدہ است
حضرت والد ماجد کی وفات حسرت آیات پر بہت سے حضرات نے سوشل میڈیا او رمختلف جرائد میں لکھا اور ان سے عقیدت ومحبت کا اظہار کیا۔ حضرت والد صاحب کو ایک استاذ، ایک مربی او رایک منتظم کی حیثیت سے ہزاروں لوگوں نے دیکھا، ان سے استفادہ کیا اور ان کی یادوں سے اپنا دامن بھرا، ہم بہن بھائیوں او راہل خاندان کے لیے وہ ان سب نسبتوں کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی شفیق، مہربان او رمحبت کرنے والے باپ بھی تھے اوران کا وجود ہمارے لیے ایک سائبان کی طرح تھا، جس کے سائے میں ہم آلام زمانہ کی دھوپ سے محفوظ تھے۔ اب یہ سائبان نہیں رہا ہے تو ہمار ے احساسات کچھ اس طرح کے ہیں کہ #
بیٹھے تھے گھنی چھاؤں میں، پر اس کی خبر نہ تھی
بڑھے گی دھوپ اور یہ سایہ نہ رہے گا
بہرحال ہم اپنے والد ماجد ہی کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے ہر حال میں الله کے ہر حکم پر راضی ہیں ”إن لله ما أخذ، ولہ ما اعطیٰ، وکل شیءٍ عندہ بأجل مسمیٰ․“
آغازِ تعلیم
والد صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبہ اعظم گڑھ(یوپی انڈیا) میں حاصل کی او رپھر 1955 میں 13 سال کی عمر میں ہجرت کرکے پاکستان تشریف لائے او رابتدائی دوسال1957ء تا1958ء مخزن العلوم میں تعلیم حاصل کی او رایک سال جامعہ نعیمیہ لاہور میں شرح جامی اوردیگر فنون کی کتابیں پڑھیں، پھر درس نظامی کی تکمیل کے لیے جامعہ دارالعلوم کراچی تشریف لائے اور سن 1963ء میں جامعہ سے سند فراغت حاصل کی۔
درس وتدریس
درس نظامی کی تکمیل کے بعد آٹھ سال(1964ء تا1971ء) تک جامعہ دارالعلوم کراچی میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ اورساتھ ساتھ حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب کے حکم سے کورنگی کریک فضائیہ ایئر بیس میں امامت وخطابت کا سلسلہ بھی جاری رہا، اسی دوران دارالعلوم کراچی کے بزرگ استاد رئیس المفسرین حضرت مولانا مفتی محمد عاشق الہٰی صاحب نے آپ کا رشتہ ہمارے نانا جان (حضرت مولانا عبدالواحد صاحب ) کے یہاں طے کروا دیا، شادی کے بعد بھی کچھ عرصہ دارالعلوم کراچی میں آپ کا تدریسی مشغلہ اور ایئر فورس کی امامت وخطابت کا سلسلہ چلتا رہا، لیکن حضرت مولانا عبدالواحد صاحب نے شاہ فیصل کالونی میں اپنے مدرسے کی بنیاد رکھی تھی، انہیں اپنے کسی معاون کی ضرورت تھی جو ان کا دست باز وبن سکے، حضرت والد صاحب نے ان کی اس ضرورت کو محسوس کیا ،اپنی ایئر فورس کی سرکاری ملازمت کو چھوڑا اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب نوّرالله مرقدہ سے اجازت لے کر جامعہ حمادیہ شاہ فیصل کالونی تشریف لے گئے، جہاں نانا جان پیر طریقت حضرت اقدس مولانا عبدالواحد صاحب رحمة الله علیہ کے زیر سایہ اٹھارہ سال (سن1989ء) تک تدریس ونظامت کی گراں قدر خدمات بڑی جاں فشانی او رعرق ریزی سے انجام دیں اور جامعہ حمادیہ کی تعلیمی وروحانی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا اوراپنی جوانی کی بھرپور صلاحیتیں اس ادارہ کے لیے وقف کیں، جامعہ حمادیہ کی تعمیر وترقی کو اپنی زندگی کا محور بنایا۔
یہاں آپ نے درس نظامی کی تمام کتابیں دورہٴ حدیث تک پڑھائیں او راس زمانہ کے آپ کے شاگرد پوری دنیا میں بڑے بڑے اداروں میں اہم دینی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
آپ جامعہ حمادیہ کی مسجد میں خود امامت وخطابت بھی فرماتے تھے، الله تعالیٰ نے آپ کو فصاحت وبلاغت اور فی البدیہہ خطابت کا جو ملکہ عطا فرمایا تھا وہ کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔
سن 1989ء میں دوبارہ دارالعلوم کراچی واپس تشریف لا کر تدریسی وانتظامی فرائض کی انجام دہی میں ایسے منہمک ہوئے کہ اپنی ذا ت پس پشت چلی گئی او رمادر علمی کے احسانات کا قرض چکاتے چکاتے اس کی گود میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سو گئے۔
جامعہ دارالعلوم کراچی میں حضرت والد ماجد کی مفوضہ انتظامی ذمہ داریوں میں شعبہ دارالتربیت، شعبہ تحفیظ القرآن، شعبہ مطبخ ومطعم ومہمان خانہ اور اجتماعی قربانی بیت المکرم مسجد گلشن اقبال ( شاخ جامعہ دارالعلوم کراچی) کا نظم قابل ذکر ہے۔
حضرت والد ماجد کا قرآن کریم سے والہانہ عشق
حضرت والد ماجد کا قرآن کریم سے عشق کا جو تعلق تھا وہ تعلق وہبی تھا، کسبی نہ تھا، الله تعالیٰ کی طرف سے آپ کو خاص ودیعت کیا گیا تھا، آپ کے قرآن کریم کے حفظ اور اُس کی تکمیل کا واقعہ انتہائی قابل رشک ہے اور ہم جیسوں کے لیے قابل ِ تقلید بھی، زمانہ طالب علمی میں سابعہ اوردورہ حدیث کے مشکل اسباق اور تعلیمی مصروفیات کے ساتھ ساتھ صرف عصر تا مغرب اور دوپہر کے آرام کے وقفہ کے دوران قرآن کریم حفظ کرنا شروع کیا اورروزانہ جامعہ کے شعبہ تحفیظ کے قدیم اُستاذ حضرت قاری سیف الدین صاحب کو سبق منزل وغیرہ سناتے اور یہ عمل اس قدر راز داری کے ساتھ چلتا رہا کہ آپ کے والدبزرگوار، بلکہ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب کو بھی اس کا علم نہ تھا، یہاں تک کہ دورہ حدیث کے آخر میں جب درس نظامی کی تکمیل ہو رہی تھی وہیں آپ تکمیل حفظ قرآن کریم کی سعادت سے بھی بہر ور ہو رہے تھے، اُس وقت حضرت مفتی صاحب رحمة الله علیہ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت! میرا قرآن کریم ختم ہو گیا ہے، یہ سن کر حضرت مفتی صاحب کو بڑا تعجب ہوا اور استفسار فرمایا کہ کس استاد سے پڑھا ہے؟ کیا آپ کے والد کو اس کی خبر ہے؟ تو جواب نفی میں دیا۔ اس خبر سے حضرت مفتی شفیع صاحب رحمة الله علیہ کو اس قدر خوشی ہوئی کہ حضرت مفتی صاحب نے فوراً حضرت کے والد ماجد کو خبر او رمبارک باد دی۔ حضرت مفتی صاحب کی خوشی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ حضرت مفتی صاحب نے اپنی جیب خاص سے ختم قرآن کی تقریب اور دعوت کا اہتمام فرمایا۔ یہ واقعہ قرآن کریم پڑھنے والے طالب علموں کے لیے نصیحت اور ان کے ذوق وشوق کو بڑھانے کے لیے کافی ہے کہ ہمارے بڑوں کو قرآن کریم کے ساتھ کتنا سچا عشق تھا، انہوں نے صحیح معنوں میں قرآن کریم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا تھا، یہ قرآن کے ساتھ عشق نہیں تو اور کیاہے کہ دورہٴ حدیث کے مشکل اسباق او رایک سال کی قلیل مدت میں حفظ قرآن کریم کی تکمیل کی۔(ذٰلک فضل الله یؤتیہ من یشاء) یقینا اس سے حضرت کی غیر معمولی ذہانت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ دو تین عمروں کے سفر میں حضرت والد ماجد نے زینت القراء، فخر القراء ولی کامل حضرت مولانا قار ی فتح محمد صاحب پانی پتی کو اپنا پورا قرآن کریم کئی مرتبہ سنایا، حضرت قاری فتح محمد صاحب کو پورا قرآن سنا کر نہ صرف اپنی نادانستہ غلطیوں کی اصلاح کی ،بلکہ قرآن کریم کی پختگی میں مزید اضافہ کیا،حضرت قاری صاحب جب دارالعلوم نانک واڑہ میں تدریس فرماتے تھے تو والد صاحب کا معمول تھا کہ رمضان کے آخری عشرے میں کورنگی سے نانک واڑہ جاکرحضرت قاری صاحب کے شبینے میں شریک ہوتے او رپوری رات قیام اللیل میں شامل ہو کر فجر کے بعد دارالعلوم کورنگی واپس تشریف لاتے، قاری صاحب کی اس صحبت نے بھی قرآن کریم سے والہانہ تعلق میں او راضافہ کیا، چناں چہ سفر وحضر میں زبان قرآن کریم کی تلاوت سے تر رہتی تھی۔ ایک دفعہ اسلام آباد سے کراچی آنا تھا، جہاز کا ٹکٹ دست یاب نہ ہونے کے باعث بذریعہ بس کراچی آنا پڑا، کراچی پہنچ کر فرمایا الحمدلله اٹھارہ پارے کی تلاوت ہو چکی ہے، قرآن کریم کے ساتھ حضرت کا یہ رشتہ بیماری کے ایام میں بھی برقرار رہا، تقریباً چھ، سات ماہ بیمار رہے، لیکن اس دوران کبھی نماز وتلاوت کی قضا نہیں ہوئی، آخر ایام میں جب نقاہت بہت زیادہ بڑھ گئی، نماز بھی لیٹ کر اشارے سے پڑھنے لگے، لیکن قرآن کریم کی تلاوت اس وقت بھی نہیں چھوٹی۔
آپ کی سرپرستی میں قائم ادارے
حضرت کا قرآن سے عشق کا ہی نتیجہ تھاکہ قرآن کی تعلیم کو عام کرنے کے لیے حضرت نے نہ صرف دیگر مکاتب قرآنیہ کی سرپرستی فرمائی، بلکہ اپنی نگرانی میں دو ادارے”دارالعلوم محمدیہ کورنگی نمبر1 اوردارالعلم فاؤنڈیشن“ بھی قائم فرمائے۔
بیعت وتصوف
حضرت والد صاحب ابتدا میں مولانا اسعد صاحب ہالیجوی کے ہاتھ پر بیعت ہوئے، ان کے انتقال کے بعد مسیح الامت حضرت مولانا مسیح الله خان صاحب سے بیعت ہوئے، ان کے انتقال کے بعد سحبان الامت حضرت مولانا سحبان محمود صاحب سے اصلاحی تعلق قائم کیا او ران کی وفات کے بعد تادم آخر شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ سے اصلاحی تعلق قائم کیے رکھا۔ حضرت شیخ الاسلام صاحب ادام الله ظلہم سے تعلق صرف استاذ شاگرد یا پیر ومرید کا نہیں تھا، بلکہ عقیدت ومحبت او رادب واحترام کا تھا اور وہ بھی اس درجہ کا کہ ان کے رگ وریشہ میں اپنے شیخ کی محبت جاگزیں تھی او رجب کبھی ان کے سامنے شیخ کا تذکرہ آتا تو غلبہ محبت سے گریہ طاری ہو جاتا۔ حضرت کی کوئی تصنیف یا تحریرمنظر عام پر آتی تو سب سے پہلے اہتمام سے اول تا آخر اس کا مطالعہ فرماتے۔ آخری ایام میں بھی حضرت کی آسان تفسیر زیر ِ مطالعہ تھی ہمہ وقت اپنے شیخ کی حفاظت کے لیے دعا فرماتے رہتے ،یوں اپنے شیخ کی محبت میں فنا تھے اور دوسری طرف حضرت شیخ الاسلام صاحب مدظلہم کا قلبی او رمحبتوں کا تعلق حضرت والد صاحب کے ساتھ جو تھا وہ بھی قابل دید وقابل رشک تھا ،حضرت والدصاحب کی وفات پر غم، صدمہ اور بے چینی کی جو کیفیت حضرت شیخ الاسلام مدظلہ پر رہی وہ قابل رحم تھی، مختلف مواقع پر حضرت کی اس کیفیت کا ظہور ہوتا رہا۔
وفات کے بعد حضرت شیخ الاسلام صاحب گھر تشریف لائے اورفرمایا میں نے دو باتیں مولانا میں قابل رشک دیکھیں، ہماری او ران کی رفاقت تقریباً45 سال رہی او ردارالعلوم میں کئی اہم شعبوں کی ذمہ دار ی بھی ہم نے انہیں دے رکھی تھی، لیکن آج تک کبھی میں نے ان کی زبان سے کسی کی غیبت نہیں سنی، کبھی نہیں سنی، کبھی نہیں سنی ( متعدد بار حضرت اس جملہ کو دہراتے رہے ) اور کبھی انہوں نے کسی آدمی کی آج تک میرے سامنے کوئی شکایت نہیں کی۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ انہوں نے اپنے استحقاق کے باوجود نئے اور کشادہ گھر پر میرے پڑوس میں پرانے مکان میں رہنے کو ترجیح دی۔
الله تعالیٰ شیخ الاسلام صاحب کا سایہ جامعہ او را س کے متعلقین بالخصوص، ہم سب پر او رامت مسلمہ پر بالعموم تادیر عافیت وسلامتی کے ساتھ دراز فرمائے ۔آمین ثم آمین
حضرت والد صاحب کے معمولات
حضرت والد صاحب دروس حدیث کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی تلاوت ونوافل اور ذکر واذکار کا بھی پابندی کے ساتھ اہتمام فرماتے تھے، فرائض کے بعد سنن مؤکدات، تہجد،اشراق اورا وابین کی پابندی قابل ِ رشک تھی، دورہٴ حدیث کے طلباء بخوبی واقف ہیں کہ عموماً مغرب کی نماز کے بعد دورہٴ حدیث میں سبق پڑھاتے تھے ،طلباء نماز ِ مغرب کی ادائیگی کے بعد کھانا کھا کر درس گاہ میں جایا کرتے تھے اور والد صاحب نماز مغرب کے بعد اوابین کی ادائیگی کمال خشوع وخضوع کے ساتھ کرکے اس میں دو پارے پڑھ کر یا سنا کر درس گاہ تشریف لے جاتے تھے، حضرت والد صاحب جامعہ دارالعلوم کراچی کی جامع مسجد میں پہلے داخل ہونے والے اور آخر میں نکلنے والے نمازی تھے، دوران ِ نماز حضرت کے خشوع وخضوع کو دیکھ کر خیر القرون کی یاد تازہ ہو جاتی تھی، حضرت کی نماز فنائیت کی عملی تصویر ہوتی تھی۔
بقول شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم حضرت دارالعلوم کی مسجد کی صف اول کے نمازی تھے، سب سے آخر میں مسجد سے نکلتے تھے، ہماری در س گاہوں کی رونق او رہماری مسجد کی زینت تھے انہوں نے اپنے ذکر واذکار، تلاوت اور نوافل سے جامعہ کو معطر کرکے رکھا ہوا تھا۔ اللھم اغفرلھم وارحمھم وعافھم واعف عنھم․
نماز عصر تا مغرب قرآن کریم سنانے کا معمول تھا ،اس کے لیے باقاعدہ ایک طالب علم مقرر تھا، جو روزانہ حضرت کی منزل سنتا تھا، انہی طالب علم سے منقول ہے کہ استاد جی اپنی منزل سنانے کے بعد میری منزل بھی سنتے تھے ،اس برکت سے میری منزل بھی پکی ہو گئی۔ الحمدلله۔
رمضان المبارک میں قرآن کریم پڑھنے میں زیادہ وقت صرف کرتے تھے، روزانہ ایک قرآن کریم پڑھنے کا معمول تھا او ررات کو مصلیٰ سنانابھی حضرت کے معمولات میں شامل تھا ،اس میں الحمدلله کبھی ناغہ نہیں ہوا، برسوں سے نماز تراویح میں کم از کم تین قرآن کریم ختم کرنے کا معمول تھا اور نوافل میں اہتمام اس کے علاوہ تھا اور رمضان المبارک میں قرآن کریم سننے، سنانے کا آپ کا شغف قابل دید وقابل رشک ہوتا۔
حضرت والد صاحب کا انداز تدریس
حضرت باغ وبہار شخصیت کے مالک تھے، ایک کامل انسان اورسچے مسلمان کی تمام خوبیاں ان کی شخصیت میں جمع تھیں، من جملہ خوبیوں میں سے ایک خوبی حضرت کا منفرد انداز تدریس بھی تھا، مشکل سے مشکل مباحث کو ایسے عام فہم انداز میں پیش فرماتے تھے کہ ہر کس وناکس کی سمجھ میں بات آجاتی تھی، آپ کا نداز بیاں دل فریب، شگفتہ اور مدلل ہوتا تھا، سبق مسلسل ہوتا، تقریر مربوط ہوتی تھی، لطیفوں اور لطافتوں کی جھلمل طلباء میں اکتاہٹ ختم کرکے نشاط پیدا کرتی تھی، سبق میں بوریت کا احساس نہ ہوتا تھا، مسلم شریف، طحاوی شریف اورمشکوٰة المصابیح، تفسیر بیضاوی، آپ کے معروف اسباق میں سے تھے۔
حضرت کی پوری زندگی سنت رسول صلی الله علیہ وسلم سے عبارت تھی، ہر کام سنت رسول صلی الله علیہ وسلم کے مطابق کیا کرتے تھے، اپنے تمام بیانات ومواعظ میں اتباع سنت پر بہت زور دیتے تھے، پوری زندگی سنت پر کار بند رہے او راپنے متبعین وشاگردوں کو بھی سنت کے اہتمام کی ترغیب فرماتے رہتے، جو کوئی کام سنت کے خلاف دیکھتے ناگواری کا اظہار فرماتے تھے اور جو سنت کے مطابق دیکھتے تھے مسرت کا اظہار فرماتے تھے۔
علم وعرفان کا یہ گوہر نایاب بالآخر23 دسمبر2021ء شب جمعرات اس دارِ فانی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملا۔ الله تعالیٰ حضرت والد صاحب کی تمام مساعی حسنہ وجمیلہ کو اپنی بارگاہِ ایزدی میں قبول فرما کر انہیں اس کا بہتر سے بہتر بدلہ عطا فرمائیں اور شاگردوں اور اولاد ِ صالحہ کو ان کے لیے ذخیرہ آخرت بنائیں او رجن اداروں کے بیج لگا کر دنیا سے تشریف لے گئے ہیں اُنہیں تن آور او رثمر آور درخت بنا کر اُن کا سایہ عطا فرمائیں اور ان پودوں کی حفاظت فرمائیں اور ہم سب آل واولاد کو اُن کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق خاص عطا فرمائیں۔
لو کانت الدنیا تدوم لواحد
لکان رسول الله فیھا مخلدا
جہاں تک پہنچے میری یہ صدا
وہ کرے حضرت کے لیے دعا
کہ یا رب! کر تو ان کی مغفرت
کہ کی انہوں نے تیرے دین سے وفا