اخلاص کے نتائج و ثمرات بھی بڑے عجیب و غریب ہوتے ہیں، ایک بزرگ تھے۔ انہوں نے اللہ سے عہد کیا کہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاؤں گا ۔ ایک دِن بھوکے تھے، ایک باغ کی طرف گئے اور پھل کی طرف ہاتھ بڑھایا، لیکن جلدی سے ہاتھ روک دیا کہ مالک کی اجازت نہیں ہے۔ اس باغ میں چوروں کی کمین گاہ بھی تھی۔ پولیس آئی ، کوئی اور تو پکڑا نہیں گیا، بزرگ صاحب پکڑے گئے۔ اور فیصلہ ہوا کہ دونوں ہاتھ کاٹے جائیں، جب ایک ہاتھ کاٹا گیا اور دوسرا ہاتھ کٹنے والا ہی تھا کہ ایک آدمی گھوڑے پر سوار چیختا چلاتا آیا اور کہا یہ چور نہیں، بلکہ فلاں نام کے اللہ کے ولی ہیں ۔لوگوں نے معافی طلب کی، انہوں نے کہا کہ غلطی میری ہے۔ میں نے ایک ہاتھ پھل کی طرف بڑھایا تھا،وہ کٹ گیا اور وہ اس کٹے ہوئے ہاتھ پر کپڑا باندھے رکھتے تھے ،لیکن ان کو خوشی تھی اور شکر ادا کرتے تھے کہ اس ہاتھ کے کٹ جانے سے لوگ مجھے چور سمجھیں گے، بزرگ نہیں سمجھیں گے تو مخلوق سے جان چھوٹے گی ۔
یہ ٹوکریوں کا کام کرتے تھے اورٹوکریاں دونوں ہاتھ سے بنتی ہیں ۔ اور ان کا ایک ہاتھ نہیں تھا۔ تو اللہ کی قدرت اور شان کہ جب یہ بزرگ ٹوکریاں بناتے تو ہاتھ بالکل ٹھیک ہوجاتا اور بعد میں کٹا ہوا بن جاتا۔ ایک آدمی کو تجسس ہواکہ یہ کس طرح ٹوکریاں بناتے ہیں؟ خلوت کے وقت گھر میں جا گھسا ، دیکھا کہ ہاتھ صحیح ہے، اس نے مشہور کردیا کہ یہ تو عجیب بندہ ہے!اندر اس کا ہاتھ صحیح ہوتا ہے، یہ بزرگ بڑے پریشان ہوئے ۔ اور الله سے شکایت کی ۔ الہام ہوا کہ مجھے پسند نہیں تھا کہ لوگ میرے خالص بندے کو چور سمجھیں۔ قاری”عبد الرحمن “پانی پتی رحمہ الله تعالیٰ ایک بزرگ تھے، 1857ء کی جنگ آزادی لڑی جارہی تھی۔ لوگوں کو احکامات کا علم نہیں تھا اور وہ انگریزوں کے بچوں اور عورتوں کو بھی قتل کرتے تھے۔ انگریزوں کے بچے اور عورتیں آئیں اور قاری صاحب کے ہاں پناہ گزیں ہوگئیں ۔ جب حالات سازگار ہوئے وہ عورتیں اور بچے چلے گئے۔ اس کے بعد قاری صاحب کے نام کمشنر کاخط آیا … کہ آپ کے نام سالانہ ایک لاکھ کی جائیداد کا فیصلہ ہوا ہے۔ آپ آکر کاغذات لے جائیں ۔ لیکن حضرت قاری صاحب رحمہ الله تعالیٰ نہیں گئے ،پھر وہ کمشنر خود آیا تو قاری صاحب نے پوچھا کہ یہ انعام کیوں دیا جارہا ہے؟ اس کمشنر نے کہا کہ آپ نے ہماری عورتوں اور بچوں کی حفاظت کی ہے۔ قاری صاحب رحمہ الله تعالیٰ نے فرمایا:کہ میں نے تو اللہ کے لیے شریعت کے حکم پر عمل کیا ہے انعام پانے کے جذبہ سے یہ عمل نہیں کیا ،مجھے اس جائیداد کی کوئی ضرورت نہیں ۔یہ بھی اخلاص کا ایک نمونہ ہے۔اخلاص پیدا ہوتا ہے بزرگوں اور صالحین کی صحبت سے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں:﴿مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہِ ﴾
(صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم)اللہ کے رسول ہیں، یہ دعویٰ ہے، اس دعوی پر دلیل یہ ہے :(سورة الفتح آیت: 29)
جن ہستیوں کو آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی صحبت اور معیّت نصیب ہوئی ہے وہ کفر کے مقابلہ میں سخت ہیں ۔﴿رُحَمَاء ُ بَیْنَہُمْ﴾
آپس میں مہربان ہیں۔﴿تَرَاھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا﴾
آپ ان کو رکوع سجدے میں مصروف پائیں گے۔ پھر فرمایا:﴿یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَانًا﴾
وہ الله کے فضل اور اس کی رضا کے متلاشی ہیں۔ بتانا یہی تھا کہ ان میں اخلاص تھا، یہ اخلاص صحبت اور معیت ہی کا نتیجہ تھا ۔ یہ خبر اللہ نے دی ہے۔ جس کی خبر میں غلطی کا احتمال نہیں۔