پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات صرف مسلمانوں کے ایمان ہی کا مرکز نہیں ہیں؛ بلکہ مسلمانوں کی محبت اور تعظیم وتوقیر کا بھی مرجع ہیں، اگر کسی مسلمان کے ماں باپ کو گالی دے دی جائے تو اس کا دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا عشر عشیر بھی زخمی نہیں ہوتا، مسلمان دینی اعتبار سے کس قدر بھی گیا گزرا ہو، بے نمازی ہو، شراب نوشی اور سود خوری میں مبتلا ہو اور کوئی بڑا سے بڑا گناہ کرتا ہو، غیرت ایمانی اس کو ان بڑے بڑے گناہوں سے روک نہیں پاتی، تب بھی حضور کی شان میں گستاخی اس کو تڑپا دیتی ہے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر اپنی عزیز ترین جان، اپنے محترم ماں باپ اور اپنی متاع زندگی اولاد کو قربان کرنے کو تیار ہو جاتا ہے، اس محبت وعظمت کی مذاہب کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے حضرت موسی علیہ السلام کو رُو در رُو کہہ دیا تھا کہ تم جاؤ، تمہارے رب جائیں اور دشمن سے مقابلہ کریں، ہم تو اس میں شریک نہیں ہوسکتے:﴿اذھب انت وربک فقاتلا إنا ھٰھنا قاعدون﴾․ (المائدہ)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بائبل کے بیان اور عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق سرِ عام پھانسی دے دی گئی؛ لیکن امت عیسوی کا کوئی فرد اُن کو بچانے کے لیے آگے نہیں بڑھا؛ مگر امت محمدیہ کی تاریخ اس سے بالکل مختلف ہے۔اس محبت کا منظر دیکھنا ہو تو آئیے اصحاب رسول کی مجلس میں، یہ حضرت سعد بن ربیع ہیں، زخم سے چور ہیں، ایک دو نہیں، بارہ بارہ تیر نے جسم کو چھلنی کر دیاہے، اسی حالت میں میدان اُحد کے کسی کونے میں پڑے ہوئے ہیں، نظر پڑی حضرت ابی ابن کعب پر، زندگی کی اس آخری سانس میں اپنے بیوی بچوں کے لیے کوئی پیغام نہیں دیا؛ بلکہ فرمایا:جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچنا تو میرا سلام پہنچانا اور میری کیفیت بتا دینا اورہاں، میری قوم سے کہہ دینا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جان چلی جائے اور قوم کا ایک فرد بھی زندہ بچا ہوا ہو تو اللہ کے سامنے کوئی معذرت قبول نہیں ہوگی:”وأخبر قومک إنہ لا عذر لھم عند اللہ إن قتل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وواحد منھم حي“․ّ (موطا مالک، کتاب الجہاد)
لوگوں کی بھیڑ جمع ہے، اس میں چھوٹے بھی ہیں اور بڑے بھی، تیاری ہے حضرت زید بن دثنہ کے قتل کی، غزوہ بدر کے بعض قریش مہلوکین کا بدلہ لینے کے لیے قتل کی تیاری میں ہیں، اتنے میں ایک پوچھنے والے نے پوچھا:اے زید! میں تم کو اللہ کا حوالہ دیتا ہوں، کیا تم کو اس وقت یہ بات پسند نہیں ہے کہ تم ابھی اپنے گھر والوں کے درمیان ہوتے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہاری جگہ میرے پاس ہوتے اور ہم ان کا سر قلم کر دیتے، حضرت زید نے بلا تامل اور برجستہ فرمایا:ہر گز نہیں، خدا کی قسم! مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی کانٹا چبھ جائے، جس سے ان کو تکلیف ہو اور میں اپنے اہل وعیال کے درمیان بیٹھا رہوں، ابو سفیان اس مجمع میں موجود تھے، جو اہل مکہ کے قائد تھے اور اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے، وہ کہنے لگے:خدا کی قسم!(محمد صلی اللہ علیہ وسلم )کے رفقاء آپ سے جس قدر محبت کرتے ہیں، میں نے کسی قوم کو کسی سے اس درجہ محبت کرتے ہوئے نہیں دیکھا:”ما رأیت من الناس أحدا یحب کحب أصحاب محمد محمدا صلی اللہ علیہ وسلم(طبقات ابن سعد)۔قبیلہ بنو دینار کی ایک خاتون غزوہ احد میں بڑی مصیبت سے گزریں، یکے بعدیگرے ان کے شوہر، ان کے بھائی اور ان کے والد کی شہادت کی اطلاع دی گئی، وہ إنا للہ پڑھتیں، اس صدمہ پر جو فطری غم ہوتا ہے، اس کا اظہار کرتیں؛ لیکن دریافت کرتیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ لوگ کہتے: اللہ کا شکر ہے کہ تمہاری چاہت اور خواہش کے مطابق وہ بخیر ہیں، کہنے لگیں: مجھے ایک نظر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھا دو، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کر کے انہیں دکھایا گیا تو بے ساختہ بول اٹھیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر مصیبت ہیچ ہے:”کل مصیبة بعدک جلل یا رسول اللہ“ (سیرت ابن کثیر )۔ اسی غزوہ احد میں ایک خاتون اپنے بیٹے، والد، شوہر اور بھائی کے ساتھ پہنچیں، ایک ایک کر کے یہ سب شہید کر دیے گئے، جب لاشوں کو دیکھنے آئیں اور پوچھنے لگیں کہ یہ کون ہیں تو انہیں بتایا گیا، یہ تمہارے والد ہیں، یہ تمہارے بھائی ہیں، یہ تمہارے شوہر ہیں اور یہ تمہارے بیٹے ہیں، کہنے لگیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ لوگوں نے ان کو آگے پہنچایا اور کہا:یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، انھوں نے بے تابانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے کو تھام لیا اور کہنے لگیں:اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم محفوظ ہیں تو پھر مجھے کوئی پرواہ نہیں ۔(المعجم الاوسط) ہو سکتا ہے یہ دو الگ الگ واقعات ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک ہی واقعہ ہو، جس کو دو راویوں نے الفاظ کے کسی قدر فرق کے ساتھ نقل کیا ہو۔اللہ کی طرف سے صحابہ کرام کے سینے کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بے پناہ محبت سے معمور کر دیا گیا تھا، وہ کہتے تھے کہ میرا سب کچھ آپ پر قربان اور یہ صرف الفاظ نہیں تھے؛ بلکہ ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس جذبہ کا عکاس تھا، یہ محبت صحابہ سے امت کو میراث میں ملی ہے، واقعی ایک مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے اپنے وجود سے بڑھ کر محبت کرتا ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی سے ایک صاحب نے دریافت کیا کہ یہ جو بات فرمائی گئی ہے کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب تک اس کے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اپنی جان، اپنے ماں باپ اور اپنی اولاد سے بڑھ کر نہ ہو، اس میں تامل ہوتا ہے ، ایسا لگتا ہے کہ اولاد کی محبت بڑھی ہوئی ہو، حضرت تھانوی نے ان سے پوچھابتاؤ:اگر تمہارا بیٹا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے تو تم کیا کروگے؟ وہ برجستہ کہنے لگے: میں تو اسے قتل کر دوں گا۔ حضرت تھانوی نے فرمایا:یہی ہے اولاد کی محبت سے بڑھی ہوئی محبت۔ ابھی جھارکھنڈ کے صدر مقام رانچی کی ایک خاتون کے اکلوتے بیٹے مدثر کو گستاخی رسول کے خلاف ہونے والے احتجاج میں شہید کر دیا گیا اور اس کی زبان سے آخری لفظ نکلا اسلام زندہ باد۔ پھر جو بات پیش آئی اس نے صحابہ کے زمانہ کی یاد تازہ کردی، جب اس کی بوڑھی کم پڑھی لکھی ماں سے میڈیا کے نمائندہ نے ملاقات کی تو اس مومن خاتون نے کہا :مجھے اپنے شہید بیٹے پر فخر ہے کہ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر اپنی جان قربان کر دی ہے اور اسلام زندہ باد کہتے ہوئے دنیا سے گیا ہے، اسلام کل بھی زندہ باد تھا، آج بھی زندہ باد ہے اور کل بھی زندہ باد رہے گا۔ اس خاتون کا بیان سن کر میری آنکھیں واقعی نم ہو گئیں، میرے دل نے کہا کہ جس امت میں ایسی صاحب ایمان اور بلند ہمت مائیں ہوں گی، وہ امت کبھی بزدل اور کم حوصلہ نہیں ہو سکتی، وہ سمندر میں تیر کر اور آگ کے شعلوں پر چل کر گزر جائے گی؛ لیکن اپنے ایمان کو ڈوبنے اور جلنے نہیں دے گی۔اس وقت ضرورت ہے کہ پوری قوت اور استقامت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا جائے، مسلمانوں کے حوصلہ کو بلند رکھا جائے، ان کو بزدل اور کم ہمت ہونے سے بچایا جائے، ان کے اندر عزم وحوصلہ پیدا کیا جائے، ان کے ذہن میں یہ بات راسخ کی جائے کہ مومن اپنا آخری قطرہ لہو نچھاور کر سکتا ہے؛ لیکن ظلم وجور اور کفر وشرک کے آگے سرنگوں نہیں ہو سکتا، مسلمان وہ نہیں ہے جو پھولوں کی سیج پر چلتے ہوئے تو اللہ کا نام لے اور جب اسے کانٹوں پر گزارا جائے تو وہ اللہ کو بھول جائے، جو طرب ونشاط کے ماحول میں تو اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرے؛ لیکن ظلم وجور کے سائے میں اپنے دین کا نام لینے سے گھبرا جائے اور مذاق اڑانے والوں کے درمیان دینی نسبت پر شرمسار ہونے لگے۔اس ملک میں برطانوی اقتدر کے دور میں بھی اور اس کے بعد بھی مسلمان بہت سی آزمائشوں سے گزرے ہیں، انسانی خون اتنی مقدار میں بہایا گیا ہے کہ اگر ان سب کو کسی دریا میں بہا دیا جاتا تو شاید پانی کا رنگ بدل جاتا؛ لیکن ان سب کے باوجود ہمارے بزرگوں نے صبر اور ثابت قدمی کا راستہ اختیار کیا، انھوں نے مال وزر سے ہاتھ دھونا گوارا کیا، عزت وعصمت کی پامالی کا زخم بھی سہا، خون میں لت پت اپنے عزیزوں اور قرابت داروں کی لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے دفن کیا اور خود اپنی زندگی کی قربانی دی؛ لیکن جس دین کو انھوں نے سوچ سمجھ کر قبول کیا تھا یا اُن کے آباو اجداد نے قبول کیا تھا اور انہیں اپنے بزرگوں سے یہ میراث ملی تھی، انھوں نے اسے اپنے سینے سے لگائے رکھا، اسی راہ پر ہمیں چلنا ہے اور یہی ہماری منزل ہے کہ اسلام کی اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ہمیں اپنی جان اور اولاد سے بھی بڑھ کر عزیز ہے!!!