کامسیٹس یونیورسٹی سے متعلقہ حالیہ سکینڈل نے تو جیسے دماغ ہی سن کر دیا ہو۔ یقین نہیں آ رہا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ بھی ہو سکتا ہے۔ استاد کے روپ میں چھپے ناسور نے انگریزی کے پرچے میں جو سوال کیا وہ اتنا بے ہودہ، غیراخلاقی اور گھٹیا تھا کہ اُس کی بے ہودگی اور گھٹیا پن کو Explain کرنے کے لیے میرے پاس مناسب الفاظ تک موجود نہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہاں کسی بڑے سے بڑے روشن خیال یا مغربی ثقافت کے پیروکار کو بھی یہ گمان نہ ہوا ہو گا کہ کسی تعلیمی ادارے میں کوئی ناسور اس حد تک غلیظ سوچ کا مالک ہو سکتا ہے۔ میں تو وہ سوال جو پرچے میں طالب علموں سے پوچھا گیا اُس کو لکھ بھی نہیں سکتا۔ وہ کیسا شیطان صفت استاد تھا، اُس نے اتنا بھی نہ سوچا کہ جو سوال وہ پوچھ رہا ہے ایسا سوال تو امریکہ، برطانیہ، یورپ تک میں پوچھنے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اُس کو تقدس کے حامل رشتوں کا بھی خیال نہ آیا۔ اُس نے نوجوان طلبا و طالبات کے ذہنوں میں ایک ایسا زہر گھولنے کی کوشش کی جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اب تک کی خبروں کے مطابق یہ حیوان انگریزی کا لیکچرار تھا، جسے یونیورسٹی انتظامیہ نے اس واقعہ کے بعداپنی فیکلٹی سے نکال کر بلیک لسٹ کر دیاہے، لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ اس حوالے سے سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔ ایک طرف حکومت کو مکمل انکوائری کروا کر پہلے یہ واضح کرنا چاہیے کہ اس حرکت میں تعلیمی ادارے کا کوئی اور بھی فرد شامل تھا یا نہیں؟ اس ناسور نے اگر یہ پرچہ بنایا تو کیا تعلیمی ادارے میں کسی دوسرے استاد یا انتظامیہ کا اس میں کوئی عمل دخل تھا یا نہیں؟ جو کچھ ہوا اس پر کسی کو ملازمت سے نکالنا یا اُسے بلیک لسٹ کرنا ناکافی ہے۔ اس حرکت پر ریاست کو سخت ایکشن لینا چاہیے۔ کامسیٹس یونیورسٹی انتظامیہ کا بھی احتساب ہونا چاہیے، جب کہ متعلقہ استاد کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ اُس کے خلاف ایف آئی آر درج کروا کر اُسے گرفتار کیا جانا چاہئے ۔ ریاست اس بات کو یقینی بنائے کہ اُس کو عدالت کے ذریعے سزا دلوا کر نشان عبرت بنایا جائے۔ کچھ تعلیمی اداروں کے بارے میں یہ شکایات ملتی رہتی ہیں کہ وہاں چند اساتذہ بچوں کو اسلام ہی سے گم راہ کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ کامسیٹس یونیورسٹی کے واقعہ سے اس بات کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں تمام تعلیمی اداروں کی مانیٹرنگ کا ایک نظام وضعکریں ،تاکہ ایک طرف تو تعلیمی اداروں کے ماحول کو بگڑنے سے بچایا جائے تو دوسری طرف تمام اساتذہ کی اسکریننگ کو لازم قرار دیا جائے، تاکہ استاد کے روپ میں چھپے کسی ناسور کو یہ موقع ہی نہ ملے کہ وہ ہماری نئی نسل کے ذہنوں کو زہر آلود کر ے یا اُنہیں اپنے دین سے گم راہ کرنے کی کوشش کرے۔پہلے ہی تعلیمی اداروں، خصوصاً انگریزی میڈیم کے اسکولوں اور کالجوں و یونیورسٹیوں کے متعلق طرح طرح کے سکینڈلز سامنے آ رہے ہیں۔ ایک طرف اگر ایسے تعلیمی ادارے مغرب سے مرعوب ذہنی غلام پیدا کر رہے ہیں تو دوسری طرف یہ معاشرتی بگاڑ، اخلاقی گراوٹ اور منشیات کے استعمال کا گڑھ بنتے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں لاہور کے ایک مہنگے انگریزی اسکول کی بچیوں کا واقعہ ابھی ذہنوں میں تازہ ہے۔ چند سال پہلے حکومت کی اپنی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد جیسے شہر میں تعلیمی اداروں میں منشیات استعمال کرنے والے بچوں اور بچیوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔چند دن پہلے ایک انتہائی افسوس ناک خبر نظر سے گزری، جس کے مطابق لاہور میں ایک ہاسٹل میں رہائش پذیر بچیوں کی بڑی تعداد نشہ کے ساتھ ساتھ ایک اور بڑی خرابی کا شکار ہو چکی تھیں۔ والدین بچوں کو تعلیم کے حصول کے لیے سکولوں، کالجوں، بلکہ دوسرے شہروں میں بھی بھیجتے ہیں، لیکن اُنہیں کیا خبر کہ ان کے بچے بچیاں ان تعلیمی اداروں سے سگریٹ اور نشہ کی لَت کا شکار ہو رہے ہیں۔ کیا معلوم کتنے بچوں کی سوچ اور اُن کے عقیدے کو بھی خراب کرنے کا یہی تعلیمی ادارے ذریعہ بن رہے ہیں۔ اس گراوٹ کو روکا نہ گیا تو پھر تعلیم کا حصول ناممکن ہو جائے گا۔ اس لیے یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ تعلیمی اداروں کو منشیات کے علاوہ غیراخلاقی، غیر اسلامی اور غلامانہ ذہنیت پیدا کرنے والے ماحول سے پاک کرنے کے لیے تمام تعلیمی اداروں کی مانیٹرنگ کا نظام بنائے۔ یہ مادر پدر آزادی ہمیں تباہ و برباد کر کے رکھ دے گی۔