اس میں کوئی شک نہیں کہ انٹرنیٹ مختلف معلومات کے لیے ایک ایسا اہم ذریعہ بن چکا ہے، جس کے ذریعہ انسان مختصر وقت کے اندر معمولی لاگت سے بے شمار دینی، علمی، اقتصادی اور سیاسی معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حالاتِ حاضرہ سے بھی واقفیت حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح اس کے توسط سے دینی اور عصری اداروں میں دفتری کاموں کے اندر سہولت اور آپس میں معلومات کے تبادلے سے متعلق بھی کافی آسانیاں پیدا ہوچکی ہیں ، لہٰذا اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ مختلف میدانوں کے اندر انسان کے لیے بے شمار سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دورِ حاضر میں بے شمار لوگ، جن میں چھوٹے بڑے، مردوعورت، مال دار وغریب، پرہیزگار اور آزاد خیال ہر قسم کے لوگ شامل ہیں ، کسی نہ کسی حد تک اس سے منسلک اور اس کے ثناخواں نظر آتے ہیں اور اپنی مجالس میں اس کی خوبیاں گننے اور بیان کرنے سے نہیں تھکتے۔
البتہ ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی ستائش کرنے والے اور اس پر فریفتہ ہونے والے اکثر حضرات اس کے نقصانات اور اُس کے منفی گوشوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کرتے، جس کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ مختلف دینی، جسمانی اور نفسیاتی مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ایسے آلاتِ جدیدہ کو، جو مختلف الجہات یعنی فوائد ونقصانات دونوں پر مشتمل نظر آتے ہوں ، اس وقت تک استعمال کرنے کی کوشش نہ کریں، جب تک ان کے مثبت ومنفی دونوں گوشوں پر غور اور دونوں کے درمیان موازنہ نہ کرلیں، اس لیے کہ انسان جلد باز واقع ہوا ہے، وہ مثبت گوشوں سے جلد متاثر ہوتا ہے اور منفی گوشوں سے غفلت برتتا ہے، چناں چہ ذرائع ابلاغ واشتہارات کے ذریعہ جب کسی نئی چیز کے فوائد اس کے علم میں آتے ہیں تو وہ فوراً اس کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے اس کے منفی گوشوں اور نقصانات پر غور کرنے کی کوشش نہیں کرتا، جس کے نتیجے میں وہ آہستہ آہستہ اس کے نقصانات کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کو اندازہ بھی نہیں ہوتا اور بالآخر بہت بڑا نقصان اُٹھاتا ہے۔
پہلا نقصان
انٹرنیٹ کا پہلا نقصان یہ ہے کہ وہ بے حیائی وعریانیت پھیلانے ، فسق وفجور کے مناظر پیش کرنے کا سب سے بنیادی اور سستا ذریعہ ہے، اس کے ذریعہ اخلاقی ودینی تباہی ، نوجوان مرد وخواتین کی بے راہ روی وگم راہی، شروفساد کی وادیوں میں ان کی ہلاکت اور اسلامی اقدار وپاکیزہ روایات سے ان کی لاتعلقی عام ہوتی جارہی ہے،کتنے والدین ایسے ہیں جو انٹرنیٹ سے منسلک ہونے کے بعد اپنی اولاد کی گم راہی کا رونا رورہے ہیں!اور کتنی نوجوان لڑکیاں ایسی ہیں جنہیں اس انٹرنیٹ کے توسط سے سبزباغ دکھائے گئے اور وہ دھوکہ کھا کر اپنے گھروں سے بھاگ گئیں !کچھ عرصے تک دھوکہ بازوں کی مذموم خواہشات کا نشانہ بن کر پھر بے یارومددگار چھوڑی گئیں ، جس سے دنیا وآخرت دونوں کا نقصان اُنہیں اُٹھانا پڑا۔
دوسرا نقصان
انٹرنیٹ کے نقصانات میں سے دوسرا نقصان یہ ہے کہ اس سے منسلک اکثر لوگوں کے قیمتی اوقات ا س کے استعمال کی وجہ سے ضائع ہوجاتے ہیں !وہ گھنٹوں تک بے حس وحرکت ہوکر اس کی اسکرین پر نظریں جماکربیٹھتے ہیں اور اکثر غیر ضروری، بلکہ نقصان دہ اُمور کا مشاہدہ کرتے ہوئے ایک ہی نشست میں اپنے قیمتی اوقات میں سے ایک اچھا خاصا حصہ ضائع کردیتے ہیں اور اُن کو اندازہ تک نہیں ہوتا۔
تیسرا نقصان
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کے کثرتِ استعمال سے وہ بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں جو منشیات کے استعمال سے پیدا ہوتی ہیں ، اس لیے کہ اس کے زیادہ استعمال سے جسم کے اندر وہی مضر کیمیاوی مواد پیدا ہوجاتے ہیں جو منشیات کے استعمال سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ مواد انسان کو اس کے مزید استعمال کرنے پر مجبور کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔
چوتھا نقصان
احقر جس مسجد میں امامت وخطابت کی ذمہ داری انجام دے رہا ہے، ا س مسجد کے نمازی حضرات اور دیگر متعلقین میں سے مختلف لوگوں نے بتایا کہ اُن کے بچے انٹر نیٹ کے کثرتِ استعمال کی وجہ سے تعلیمی میدان میں کافی پیچھے رہ گئے، پڑھنے اور مطالعہ کرنے سے ان کا تعلق کمزور پڑگیا، اس لیے کہ وہ اپنا اچھا خاصا وقت انٹرنیٹ سے منسلک لیپ ٹاپ اور موبائل فون کی اسکرین کے سامنے بیٹھ کر خرچ کرتے ہیں اور جب تھک جاتے ہیں تو باقی وقت کھیل کود، کھانے پینے اور سونے میں خرچ کرتے ہیں ، پڑھنے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں بچتا۔
پانچواں نقصان
انٹر نیٹ دوسروں کی معلومات چُرالینے کا ذریعہ بھی بن گیا ہے، چناں چہ بعض لوگ اس کے ذریعے دوسروں کی خفیہ معلومات تک، جو اُن کے خصوصی اُمور یا بینک کے حسابات سے متعلق ہوں، رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور پھر کبھی تو ان کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں اور کبھی بینکوں سے اُن کی رقوم چُرالیتے ہیں ۔اسی طرح کچھ لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے مختلف علماء کی تالیفات ومضامین تک آسانی کے ساتھ رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور پھر اُن میں کچھ ردّ وبدل کرکے اپنی طرف منسوب کرتے ہیں ، تاکہ وہ محنت وجد وجہد کے بغیر مصنّفین کی فہرست میں شامل ہوجائیں۔
چھٹا نقصان
انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال کی وجہ سے اولاد و والدین، میاں بیوی اور دیگر قریبی رشتہ داروں کے درمیان دوریاں پیدا ہورہی ہیں، جس سے اُن کے آپس کے حقوق متاثر ہوکر ناچاقیاں جنم لے رہی ہیں اور میاں بیوی کے درمیان تلخیاں بڑھتی جارہی ہیں،یہاں تک کہ بعض دفعہ طلاق تک نوبت پہنچتی ہے۔ اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ خاندانی جھگڑے، قریبی رشتہ داروں اور میاں بیوی کے درمیان تلخیاں اور دوریاں پیدا ہونا بڑی ناکامی اور محرومی کی بات ہے۔
ساتواں نقصان
انٹرنیٹ کے ذریعے دینی ودنیوی موضوعات سے متعلق بڑے پیمانے پر غلط معلومات کی اشاعت کا کام بھی کیا جارہا ہے۔ باطل تحریکات مسلمانوں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کرنے، ان کے عقائد کو بگاڑنے اور اپنے باطل عقائد ونظریات کو پھیلانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اسی طرح خود مسلمانوں میں سے بعض کم علم یا باطل افکار کے حامل لوگ تفسیر وحدیث وفقہ اور دیگر دینی علوم سے متعلق ایسی غلط معلومات انٹرنیٹ کے ذریعے پھیلاتے ہیں جنھیں درست سمجھ کر ایک عام مسلمان دینی موضوعات سے متعلق غلطیوں کا شکار ہوجاتا ہے، لہٰذا!جب تک کسی مستند ذریعے سے تصدیق نہ کی جائے اس وقت تک صرف انٹرنیٹ کی معلومات پراعتماد نہ کیاجائے۔
انٹرنیٹ کے نقصانات میں سے مذکورہ بالا ایسے بنیادی سات نقصانات ہیں جن سے بچنے کے لیے ہرمسلمان مرد وخاتون کو ہوشیار رہنا چاہیے۔
انٹرنیٹ کے نقصانات سے بچنے کا راستہ
اب ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے مندرجہ ذیل چند ایسی باتوں کا تذکرہ کرتے ہیں کہ اگر مسلمان مرد وخواتین ان باتوں کو ذہن نشین کرتے ہوئے ان پر عمل کریں گے تو اُمید ہے کہ انٹرنیٹ کے نقصانات سے بچ سکیں گے:
پہلی بات
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ہرمسلمان مرد وخاتون کو نگاہ کی حفاظت کا حکم دیتے ہوئے فرمایاہے:
﴿قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ إِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَایَصْنَعُوْنَ، وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ﴾․ (النور:31-30)
ترجمہ:اے پیغمبر!ایمان والوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے بڑی پاکیزگی کی بات ہے، بلاشبہ جو کچھ یہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر ہے اور ایمان والی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔
اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بدنگاہی کی تباہ کاری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:”النظرة سہمٌ من سہام إبلیس مسمومةٌ“․ (رواہ الحاکم فی المستدرک:4/349)
بدنگاہی شیطان کے زہر آلود تیروں میں سے ایک تیر ہے۔
لہٰذا!ہر مسلمان مرد وخاتون کے لیے ضروری ہے کہ مندرجہ بالا نصوص کو مدِّنظر رکھتے ہوئے بدنگاہی اور بے حیائی وفساد کے مناظر سے اجتناب کرے، کیا خوب کہا ہے ایک عرب شاعر ابومحمد عبداللہ بن محمد اَندلسی قحطانی نے اپنے قصیدہ نونیہ میں:
وإذا خلوتَ برِیبة فی ظلمة
والنفس داعیة إلی الطغیان
فاستحی من نظر الإلٰہ وقل لہا
إن الذی خلق الظلام یرانی
”جب تمہیں تنہائی میں کسی تہمت والے کام کا موقع ملے اور تمہاری خواہش تمہیں گناہ کی دعوت دے رہی ہو تو ایسی حالت میں تم اللہ کی غیبی نگاہ سے شرم کرتے ہوئے اپنی خواہش سے کہو کہ جس ذات نے تاریکی پیدا کی ہے، وہ مجھے دیکھ رہی ہے“۔
دوسری بات
اللہ تعالیٰ نے اپنے مسلمان بندوں کو جہاں عبادت کرنے کا حکم دیا ہے، وہاں اُن کے رشتہ داروں اور زیارت کرنے والوں اور خود اُن کی اپنی ذات کے حقوق کو بجالانے کا بھی حکم دیا ہے، چناں چہ فرماتے ہیں :
﴿إِنَّ الصَّلٰوةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا﴾ (بے شک مومنوں پر مقررہ اوقات میں نماز فرض ہے) اور فرماتے ہیں:﴿وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہ ﴾(اور رشتہ دار کو اس کا حق دو)۔
اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا:فإن لجسدک علیک حقًا، وإن لعینیک علیک حقًا، وإن لزوجک علیک حقًا، وإن لزورک علیک حقًا ․(رواہ البخاری:1/265)
”تیرے جسم کا تیرے اوپر حق ہے اور تیری آنکھوں کا تیرے اوپر حق ہے اور تیری بیوی کا تیرے اوپر حق ہے اور تیرے زائرین کا تیرے اوپر حق ہے“۔
لہٰذا ہر مسلمان کے ذمے یہ ضروری ہے کہ ان تمام حقوق کا خیال رکھے اور اپنا نظام الاوقات اس طرح بنائے کہ حقوق اللہ اور حقوق العبادسب کے سب اپنے اپنے اوقات میں ادا ہوتے رہیں اور انٹرنیٹ کے بے جا استعمال سے اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کرے اور نہ ہی اپنی صحت کو برباد کرے، اس لیے کہ صحت وفراغت اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ہیں ، اگرچہ اکثر لوگ اُن کی قدر نہیں کرتے ۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ ہو:
عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس: الصحة والفراغ․ (رواہ البخاری:2/949)
”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ:اللہ کی نعمتوں میں سے دو نعمتیں ایسی ہیں کہ بہت سے لوگ اُن کی ناقدری کرتے ہوئے دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں ، ان میں سے ایک نعمت صحت وتن درستی اور دوسری نعمت فرصت وفراغت ہے۔“
تیسری بات
والدین اور سرپرستوں کے ذمے ضروری ہے کہ اپنی اولاد اور بچوں کو انٹرنیٹ کے نقصانات اور منفی گوشوں سے اچھی طرح آگاہ کریں اور اُنہیں حتی الوسع انٹرنیٹ سے دور رہنے اور اس کے نقصانات سے بچنے کی تلقین کریں اور ان کی سرگرمیوں کی کڑی نگرانی کریں ، ان کو اس طرح آزاد ہرگز نہ چھوڑیں کہ وہ جو چاہیں کریں ، تاکہ وہ شر وفساد کی خطرناک وادیوں میں ہلاکت سے محفوظ رہیں۔
چوتھی بات
اگر کسی کا اپنے اوپر یہ اعتماد نہیں کہ وہ انٹرنیٹ کے استعمال کی صورت میں اس کے منفی گوشوں سے بچ سکتا ہے تو ایسے شخص کے لیے شریعت کی روشنی میں اس کا استعمال جائز نہیں ۔
اپنے اس مضمون کے آخر میں شاعر مشرق علامہ اقبال مرحوم کا ایک شعر ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں اور بالخصوص ان کی نئی نسل کو اپنے دین پر استقامت عطا فرماتے ہوئے دشمنانِ اسلام کے پھندوں اور شیطان کے فریبوں سے محفوظ فرمائے۔