قرآن اللہ جل شانہ کی کتاب ہے،یہ اولین وآخرین کے علم کا خزانہ ہے،پوری نوع انسانیت کے لیے دستورہدایت ہے،یہ وہ کیمیااثرنسخہ ہے جو قلب مضطرب کوسکون اورتسلی کاسامان فراہم کرتاہے اورروحانی واخلاقی امراض کاخاتمہ کرتاہے،یہ وہ صحیفہٴ ربانی ہے جوگم گشتہ راہ لوگوں کوصراط مستقیم دکھاتاہے اورحق وباطل کے مابین خط امتیازکھینچتاہے،تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمانوں نے کتاب اللہ کومضبوطی سے تھامے رکھااورقرآنی ہدایات کی شمع دلفروزسے اپنی عملی زندگی کوفروزاں رکھاان کاستارہٴ اقبال افق عالم پر بلندرہا،عروج واقبال مندی ان کے ہم آغوش رہی ،سرفرازی وکامرانی نے ان کے قدم چومے اورجب انہوں نے کتاب اللہ سے منھ موڑا، اوراس کی تعلیمات وہدایا ت سے اعراض کیاتوذلت وناکامی سے دوچارہوئے اور شکستہ پائی وزبوں طالعی اس کامقدرٹھہری۔
قرآن کریم وہ انقلاب انگیز اور انقلاب آفریں کتاب ہدایت ہے جس نے اخلاق ورجحانات کونئی جہت دی،فکرونظر کو وسعت وشادابی اور قلب ودماغ کوبالیدگی عطا کی، یہ قرآن مجیدہی ہے جس نے انسانیت کے لیے علم وتحقیق کادروازہ کھولااورسائنسی اکتشافات اورنت نئی ایجادات کے لیے راہ ہموارکی ،قرآن مجیدنازل ہونے سے پہلے یہ تصورعام تھاکہ ہروہ چیز جو انسان کونفع اورنقصان پہنچاتی ہے وہ اپنے اندرخاص طاقت رکھتی ہے،لوگ یہ سمجھتے تھے کہ کائنات کی بعض اشیاء اپنی مافوق الفطرت قدرت کی وجہ سے کہیں تباہی وبربادی کاپیغام ثابت ہوتی ہیں،توکہیں خوشی ومسرت کی مسکراہٹیں بکھیردیتی ہیں،جس کی وجہ سے لوگوں نے بعض چیزوں کو معبود کا درجہ دے دیاتھااوران کواپنامسیحااوراپنے دکھ درکامداواماننے لگے تھے ،ان کی خوش نودی اوران کاتقرب حاصل کرنالازم سمجھتے تھے،اوران کے سامنے سرتسلیم اورجبین نیازخم کرنے کوضروری خیال کرتے تھے ظاہرہے کہ کائنات کی جس چیزکے اردگرداحترام اورتقدیس کاہالہ ہواس کی تحقیق اورجستجوانسان کے لیے ناممکن ہے،قرآن کریم نے اس باطل خیال پرکاری ضرب لگائی اورعالم انسانیت کو اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ تمام چیزوں کواللہ وحدہ لاشریک لہ نے وجود بخشاہے اوراللہ تعالیٰ ہی ان کاخالق ومالک ہے،کائنات کی دلکش بلندیاں،رنگارنگ بستیاں ،خوبصورت کہساروں کی حسین اونچائیاں،فرازکوہ سے گرتی ہوئی ،بہشت نغمات سناتی ہوئی ندیاں اورطوفان کے ہنگامہائے برق وباراں…سب اللہ تبارک وتعالیٰ کی پیداکی ہوئی ہیں،کائنات کی کوئی شے بذات خودنفع اورنقصان کااختیارنہیں رکھتی ہے؛بلکہ کائنات کی یہ حسین بساط حضرت انسان کے لیے بچھائی گئی ہے،اس بساط کو دنوں کی حرارت،بادسحرگاہی کی لطافت ،صبح کی شگفتگی اورشام کی دلآویزی سے آراستہ کیا گیا ہے اورنیلگوں آسمان اوراس میں لٹکی ہوئی ضیاپاش قندیلوں،حسین وجمیل وادیوں،اونچے پہاڑوں سے گرتی ہوئی آبشاروں،رنگارنک پودوں، مہکتے ہوئے مرغزاروں اورخوش نما اور جاذب نظرپھولوں سے اس بساط کی کشیدہ کاری کی گئی ہے،تاکہ انسان اپنی جسمانی اورطبعی ضروریات کی تکمیل کرے اورکائنات کے حیرت انگیزاورمربوط نظام کودیکھ کرخدائے وحدہ لاشریک لہ کوصحیح معنوں میں پہچانے اوراس کی عبادت کرے، اللہ تبارک وتعالی نے بارہاقرآن کریم میں اس حقیقت کومختلف اسالیب میں واشگاف کیا ہے،چناں چہ قرآن مجیدمیں ہے:﴿وسخرلکم مافی السماوات وما فی الأرض جمیعا منہ﴾(الجاثیة:13)۔اوراللہ تبارک وتعالی نے تمہارے لیے آسمان اورزمین کی تمام چیزوں کومسخراورتابع کیا۔ایک دوسری جگہ اللہ پاک نے فرمایا:﴿ألم تر أن اللہ سخر لکم ما فی الأرض والفلک تجری فی البحربأمرہ﴾(الحج:65)اللہ نے (انسان کے لیے)زمین کی تمام چیزوں کواورکشتیوں کوتابع کیاہے، جوسمندرمیں اللہ کے حکم سے چلتی ہیں۔ایک مقام پراللہ فرماتے ہیں:﴿وہوالذی سخر البحرلتأکلوا منہ لحماطریاوتستخرجوامنہ حلیة تلبسونہا﴾․ (النحل:14) اور اللہ نے سمندرکوتمہارے لیے تابع کیاہے ؛تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤاورپہننے کے لیے جواہرات نکالو۔ان آیات کریمہ میں ببانگ دہل یہ اعلان کیا گیا کہ کائنات کی تمام چیزیں انسان کے فائدے اوراس کی جسمانی وطبعی ضروریات کی تکمیل کے پیداکی گئی ہیں،کائنات کی کوئی شے بذات خودنہ نفع اورنقصان کااختیاررکھتی ہے اورنہ وہ لائق تعظیم اورلائق عبادت ہے،تعظیم اورتقدیس کے لائق صرف اللہ عزوجل شانہ کی ذات مبارک ہے،یہ اعلان ہوناتھاکہ علم وتحقیق کے دروازے کھل گئے،اکتشافات اورنت نئی ایجادات کاگلشن تیارہوااوردیکھتے ہی دیکھتے زرخیزاورمرغزارہوگیا،سائنس وٹکنالوجی کانیر اقبال طلوع ہوااوررفتہ رفتہ بدرکامل بننے لگا،جس کی تابانی اور ضیاگستری سے پوری عالم انسانیت مستفیدہورہی ہے اورزندگی کے ہرشعبے میں حیرت انگیزترقی ہورہی ہے،قرآن کریم نے اس انقلاب انگیز فکرکی آبیاری کی اوراس آفاقی تصورکی طرح ڈالی توحضرت انسان نے ستاروں پرکمندڈالی، سیاروں کی گردش اوراس کی حرکت کوتولا،سمندرکی تہوں میں چھپے ہوئے زروجواہرکاسراغ لگایا، کائنات کے مربوط اورمنظم نظام کے علل واسباب کودریافت کیا،واقعہ یہ ہے کہ ان ساری سائنسی ترقیوں کا سہرا قرآن کریم کے سرجاتاہے ،جس نے انسا نیت کواس چھپی ہوئی حقیقت سے روشناس کرایااوراس کے آئینہ قلب پرکائنات کی بعض اشیاء کی تقدیس اور احترام کی، جودبیزتہہ جمی ہوئی تھی، قرآ ن نے اس کودورکیا۔
آفتاب اسلام طلوع ہونے سے پہلے طبقاتی تفریق ،نسلی امتیازاورقبائلی تعصب کادوردورہ تھا،لوگ رنگ ونسل اورجغرافیائی لحاظ سے مختلف جماعتوں میں بٹ چکے تھے،لوگ زبان اورعلاقائیت کی بنیادپرایک دوسرے کوحقیرسمجھتے تھے،چناں چہ جب مکہ فتح ہوا اوروہاں اسلام کاپرچم لہرانے لگاتوآپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت بلال حبشی کوکعبہ میں اذان دینے کاحکم دیا،اس پرکفارمکہ کے سربرآوردہ قسم کے لوگ برافروختہ ہوگئے، خالدبن اسیدنے کہا:اچھاہواکہ میرے والدکویہ دن نہ دیکھناپڑا(کہ ایک حبشی کعبہ جیسی بابرکت جگہ پراذان دے رہاہے)۔حارث بن ہشام نے کہا: کاش!میں اس حبشی کوکعبہ میں چلاتے ہوئے دیکھنے سے پہلے مرجاتا، ابوسفیان نے کہا:میں کچھ نہ کہوں گا؛کیوں کہ اگرمیں اس بارے میں کچھ کہوں گا تویہ کنکری بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کواس کی خبرکردے گی۔(اخبارمکة للازرقی:1/275)ایرانی سماج میں حسب ونسب اوررنگ ونسل کوخاص اہمیت حاصل تھی اوراسی بنیادپرلوگوں کوحقوق ومراعات حاصل ہوتے تھے، چناں چہ ایران میں عام لوگوں کوکسی رئیس یاشاہ زادے کی جائیداد خریدنے کاحق حاصل نہ تھا،نسلی امتیازاورعلاقائی عصبیت کازہرایرانی معاشرے میں اس قدرسرایت کرگیاتھاکہ ہرپیشے اورہرکام کے لیے رنگ ونسل کے لحاظ سے کچھ لوگ مخصوص ہوتے تھے اوران کے لیے اس پیشے کو چھوڑ کراس سے اونچاکوئی دوسراپیشہ اختیارکرناقانونی طورپرممنوع تھا۔ برہمن مذہب میں جو امتیاز وتفریق ہے وہ اس کامنھ بولتاثبوت ہے ؛کیوں کہ اس میں پوری انسانیت کوچارطبقوں میں تقسیم کیاگیا ہے:سب سے اونچاطبقہ برہمن ،دوسراچھتری ،تیسرادیش اورسب سے بدقسمت اورمحروم شودرتھا، شورد طبقہ کو نہایت کم تر اورحقیرسمجھاجاتاتھا اوران سے صر ف خدمت کاکام لیا جاتاتھا،شودرکاکوئی فرد برہمن کی کسی لڑکی سے شادی نہیں کرسکتاتھااورنہ ہی کسی برہمن کے ساتھ بیٹھ کرکھاناکھاسکتاتھااگر وہ کسی پانی کے گھڑے کو ہاتھ لگادے تو اسے پھینک دیا جاتاتھا، اس طرح کے تصورا ت آج بھی ہندؤں کے یہاں پائے جاتے ہیں۔ (ماذا خسرالعالم بانحطاط المسلمین) قرآن مجید نے اس جاہلی تصورکاخاتمہ کیا،اوراس نے انسانیت کوبتلایاکہ زبانوں کااختلاف اورقبائل کااختلاف اوررنگ ونسل کااختلاف آپسی تعارف اور شناخت کے لیے ہے،زبان ،قبیلہ ،حسب ونسب اوررنگ ونسل کی بنیادپرکسی کوکسی پرفوقیت حاصل نہیں ہے،خالق کائنات کی نظرمیں تووہ شخص محبوب اورپسندیدہ ہے جس کے دل میں تقوی اورخوف الہٰی ہو اورجس کادل اللہ اوراس کے رسول کی محبت سے سرشارہو،چناں چہ ارشادخداوندی ہے: ﴿یاأیہاالناس إناخلقناکم من ذکروأنثی وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفواإن أکرمکم عنداللہ أتقاکم إن اللہ علیم خبیر﴾ (الحجرات:13) اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرداورایک عورت سے پیدا کیاہے اورہم نے تمہاری قومیں اورقبیلے بنا دیے ہیں ؛تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو،تم میں اللہ کی نگاہوں میں معززتووہ ہے جوتم میں زیادہ متقی اور پرہیزگارہو،بے شک اللہ تعالیٰ جاننے والا اورخبررکھنے والاہے۔قرآ ن کریم کے اس اعلان نے پوری انسانیت کوایک سلک میں پرودیااوردبے اورکچلے ہوئے لوگوں کوسراٹھاکرجینے کاحوصلہ عطا کیااورایسے اصول وقوانین پرکاری ضرب لگائی جن سے کسی جماعت کی تذلیل اورحق تلفی ہوتی ہے،ذات کی بنیادپراونچ نیچ اورطبقاتی تفریق کاخاتمہ کیا۔امریکہ اوریورپ جو اپنے آپ کو مساوات کا علم بردارکہتے ہیں اوراپنے کوجمہوری اقدارکامحافظ کہتے ہوئے ان کی زبانیں نہیں تھکتی وہاں نسلی امتیاز پر مبنی قوانین موجو د ہیں اورشہریت کے مختلف درجات ہیں اوراسی نسبت سے ان کو رعایتیں اورسہولتیں فراہم کی جاتی ہیں ،یورپ کی بعض ریاستوں میں گوری اورکالی نسل کے مابین شادی نہیں ہوسکتی ،اگر کرلی جائے تو شادی قانونی لحاظ سے غیر معتبر ہوتی ہے اورپانچ سو ڈالر یا چھ مہینے کی قید یا دونوں سزائیں اس کا ارتکاب کرنے والوں کو دی جاتی ہیں۔ان دانایان فرنگ کوبھی چاہیے کہ قرآن کریم کی تعلیمات وہدایات کی روشنی میں اپنے اصول وقوانین میں ترمیم وتنسیخ کریں،تاکہ مغربی قوانین کے زیرسایہ زندگی بسرکرنے والے لوگوں کوامن وسکون نصیب ہواورایک خوش گواراورمثالی معاشرے کاخواب شرمندئہ تعبیرہوسکے۔
اسلام کی آمدسے پہلے عورت حقیراورکمتردرجہ کی مخلوق سمجھی جاتی تھی، صنف نازک کوبرائیوں کامنبع اورسرچشمہ تصورکیا جاتاتھااورہرطرح کا ظلم وجبراس پرروارکھاجاتاتھا اوراسلام سے پہلے دنیا میں ایسے قوانین تشکیل دیے گئے تھے جن کی رو سے عورت کی حیثیت جانور اوربے جان سی املاک کی ہوکر رہ گئی تھی ،نہ وہ کسی چیزکی مالک ہوسکتی تھی اورنہ وہ کوئی آزادانہ تصرف کرسکتی تھی،یہاں تک کہ اہل علم کے درمیان یہ بحث جاری تھی کہ عورت انسان بھی ہے یا نہیں ؟قرآن کریم نے اس باطل خیال اوربے ہودہ تصورکاخاتمہ کیااوراس نے کہاکہ مرداورعورت دونوں اللہ کی پیداکی ہوئی مخلوق ہیں،ایک ہی گاڑی کے دوپہیے ہیں ،ایک ہی سرچشمہ کی دوموج ہیں،ان دونوں میں کسی قسم کی تفریق کرنافطرت سے بغاوت ہے اورفطرت سے بغاوت انسان کے لیے ہمیشہ تباہی وبربادی کاپیش خیمہ ثابت ہوئی ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ کاارشاد ہے:﴿ولہن مثل الذی علیہن بالمعروف﴾ (البقرة:228) اورعورتوں کودستورکے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے ان پرمردوں کے حقوق ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید ایک عہدسازاورانقلاب آفریں صحیفہ ہدایت ہے ، یہ صرف مسلمانوں ہی کے لیے نہیں ؛بلکہ پوری عالم انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے،اس لیے اس کامطالعہ اوراس کی آیات میں غور وفکر کرنا ہر انسان کے لیے ضروری ہے ،اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ قرآن کریم کے احکام پرامت مسلمہ کوعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے اوراس کے انوار وبرکات سے امت مرحومہ کومتمتع اورفیض یاب فرمائے،آمین ثم آمین۔