اسلام دنیا میں انسانیت کا سب سے بڑا علم بردار مذہب ہے، یہ امن، سلامتی وآشتی کا دین ہے، جس میں کوئی جبر نہیں، اتنا آسان مذہب کوئی نہیں جتنا اسلام ہے، روزِ مرہ زندگی میں جو ہم وقت گزارتے ہیں ہر طرح کی ہماری راہ نمائی اسلام ہی کرتا ہے، یہ ہمیں اچھی زندگی گزارنے کے اصول بتاتا ہے، اگر ہم صحیح معنوں میں اسلامی تعلیمات اور سنت ِ نبوی پر عمل کریں تو ہماری زندگی جنت بن جائے، جب سے ہم نے اسلامی تعلیمات اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ کو چھوڑا ہے تو تب سے آسیب، مصائب، مشکلات اور پریشانیوں نے ہمیں آگھیرا ہے، اسلام محض عبادات کا نام نہیں، بلکہ یہ انسانی زندگی کے جملہ معمولات او رمعاملات کے بارے میں راہ نمائی فراہم کرتا ہے، یہ واحد الہامی دین ہے جو انسان کو سونے، اٹھنے، جاگنے، کاروبار کرنے اور دوسروں کے ساتھ معاملات کرنے کی مکمل راہ نمائی فراہم کرتا ہے۔
بحیثیت ِ مسلمان ہم فخر سے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ چودہ سو سال کے بعد بھی اسلامی تعلیمات قابل ِ عمل ہیں او ر اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے کہ زندگی کو درپیش کوئی معاملہ اور شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں قرآن مجید انسانیت کی راہ نمائی کرتا نظر نہ آتا ہو، آج مسلم امہ کا سب سے بڑا مسئلہ قرآن وسنت کے مطالعہ سے دوری ہے، جب ہم سنی سنائی باتوں پر عمل کرتے ہیں تو یہیں سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں، ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ وہ باقاعدگی کے ساتھ قرآن وسنت کا مطالعہ کرے۔
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: ملاقات پر سلام کرنا، چھینک آنے پر رحمت کی دعا دینا، بیماری میں عیادت کرنا، مرنے پر جنازے میں شرکت کرنا اور جو خود کو پسند ہو وہی اپنے مسلمان بھائی کے لیے پسند کرنا۔ (ترمذی) حضور صلی الله علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جو دنیا میں کسی مصیبت زدہ سے کسی دنیاوی تکلیف او رمصیبت کو دور کر دے ( یادور کرنے میں مدد کر دے) تو الله تعالیٰ اس سے قیامت کے دن اُخروی مصیبت کو ہٹا دیں گے ۔نیز جو دنیا میں مشکلات میں گھرے ہوئے کسی شخص کے لیے آسانی پیدا کرنے کی کوشش کرے تو الله تعالیٰ اس کے لیے (دونوں جہانوں کی ) آسانیاں پیدا فرمائیں گے اور الله تعالیٰ اس بندے کی مسلسل مدد فرماتے ہیں جو کسی اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے۔ (ترمذی)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جو مربوط نظام انسانی حقوق کا پیش کیا وہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے،جن میں احترام ِ انسانیت، بشری نفسیات ورجحانات او رانسان کے معاشرتی، تعلیمی، شہری، ملکی، ملی، ثقافتی، تمدنی او رمعاشی تقاضوں اور ضروریات کا مکمل لحاظ کیا گیا ہے، حقوق کی ادائیگی کو اسلام نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اگر کسی شخص نے دنیا میں کسی کا حق ادا نہیں کیا تو آخرت میں اسے ادا کرنا پڑے گا ،ورنہ سرا بھگتنی پڑے گی، انسانی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت انسانی حقوق میں سب سے پہلا اور بنیادی حق ہے۔
جان سب سے زیادہ قیمتی اثاثہ ہے، بعثت ِ نبوی سے قبل انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہ تھی، سب سے پہلے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انسانی جان کا احترام سکھایا، ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا، دہشت گردی، انتہا پسندی، بدامنی او رقتل وغارت گری کی بنا پر انسان کا جو حق سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے وہ اس کی زندگی او راحترام انسانیت کا حق ہے۔ اسی طرح اسلام نے تمام قسم کے امتیازات اور ذات پات، نسل، رنگ، جنس، زبان، حسب ونسب او رمال ودولت پر مبنی تعصبات کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے برابر قرار دیا، خواہ وہ امیر ہوں یا غریب، سفید ہوں یا سیاہ، مشرق میں ہوں یا مغرب میں، مرد ہوں یا عورت اور چاہے وہ کسی بھی لسانی یا جغرافیائی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں۔
بیوی شوہر کے حقوق ادا نہ کرے تو شوہر کی زندگی کا سکون غارت ہو جائے گا، پڑوسی ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کریں تو محبت وامن کی فضا ختم ہو جائے گی، اسی طرح مسلم غیر مسلموں کے حقوق ادا نہ کریں تو دنیا تعصب وعناد اور فتنہ وفساد کے جنگل میں تبدیل ہو جائے گی۔ امیر لوگ غریبوں کے حقوق ادا نہ کریں تو غریبوں کی زندگی فاقہ کشی کا شکار ہو جائے گی، بالکل اسی طرح ماں باپ اولاد کے حقوق ادا نہ کریں تو اولاد نافرمان، باغی، دین سے دور اور والدین کے لیے مصیبت ووبال بن جائے گی اور اولادماں باپ کے حقوق ادا نہ کرے تو ماں باپ کو بڑھاپے میں سہارا وسکون نہیں ملے گا۔
غرض یہ کہ دنیا میں فساد ہی فساد برپا ہو جائے گا او رامن قائم نہ رہ سکے گا، پس امن کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام ا نسان ایک دوسرے کے وہ تمام حقوق جو الله تعالیٰ نے لازم کیے ہیں ادا کرتے رہیں، یہی اسلام کی تعلیم او رپیغام او رنبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا مقصد ِ بعثت ہے، اسلام میں حقوق اور فرائض باہمی طور پر مربوط او رایک دوسرے پر منحصر تصور کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں فرائض، واجبات اور ذمہ داریوں پر بھی حقوق کے ساتھ ساتھ یکساں زور دیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی الله علیہ و سلم نے اہل ایمان کو تلقین فرمائی ہے کہ وہ ان فرائض کو ادا کریں جو ان پر ان کے والدین، بچوں، عورتوں، ان کے پڑوسیوں، غلاموں اور ذمیوں وغیرہ کی طرف سے عائد ہوتے ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ آج خود مسلمانوں نے اسلام کی ان پیاری آفاقی تعلیمات کو بھلا دیا ہے۔
ریاست اپنی ذمہ داریوں کو نبھا رہی ہے اور نہ ہی فردِ واحد اپنے اوپر عائد حقوق کی ادائیگی کر رہا ہے، جس کا نتیجہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ آج ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات سے ہم خود بھی آگاہ نہیں ہیں اور دنیا کو بھی ان سے آگاہ کرنے کی ضرورت صحیح طور پر محسوس نہیں ہو رہی، ورنہ حقوق کا جو جامع اور متوازن تصور دین اسلام نے دیا ہے دنیا کے کسی نظام میں اس کا کوئی متبادل نہیں ہے، آئیے! اسلام کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں، ان شاء الله ہماری زندگی سہل ہوجائے گی اور مشکلات وپریشانیاں ختم ہو جائیں گی اور زندگی جنت نظیر بن جائے گی، الله تعالیٰ ہم سب کو دین اسلام کی آفاقی تعلیمات اور جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین!