حضور سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہر پہلو ، ہرزاویے اور ہر گوشے سے انسانیت کی کامل راہ نمائی کرتی ہے۔ نبوت کے وجود اقدس سے صادر ہونے والا ہر عمل اور لسان گوہر فشاں سے نکلنے والا ہر قول ہزارہا حکمتوں، بیش بہا لطائف اور بے شمار مصالح کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے، تمام اقوام عالم کو انتہائی معتدل اور متوازن اعتقادی، عملی، اخلاقی، سیاسی اور سماجی اصول وقوانین کا ایک خوب صورت گل دستہ پیش کرتا ہے، جن پر عمل کرنا بلاشبہ انسانیت کو اعلیٰ اقدار سے آشنا کرتا ہے اور عروج و کمال کا تمغہ عطا کرتا ہے۔ چوں کہ تمام کائنات انسانی میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات اقدس سب سے اکمل ومکمل اور جامعیت میں عدیم النظیر اور بے مثال ہے، اس لیے خلاق عالم نے ساری انسانیت کی سرداری کا تاج آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے سر پر سجایا۔ چناں چہ صحیح مسلم او رجامع ترمذی میں حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی روایت سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے:”أنا سید ولد آدم یوم القیامة ولا فخر“ میں قیامت کے دن تمام اولاد آدم کا سردار ہوں گا او رمیں اس پر فخر (تکبر) نہیں کرتا“۔ ایسی رہبر کامل ہستی سے بہترقیادت وسیادت کے زریں اصول کوئی اور فراہم نہیں کرسکتا۔ اقوام عالم کی تاریخ مختلف مقاصد کے لیے ابھرنے والی انقلابی تحاریک سے بھری پڑی ہے، کوئی دور سیاسی، سماجی، مذہبی اور اصلاحی عنوانات سے چلنے والی تحریکوں اور تنظیموں سے خالی نہیں رہا اور تاہنوزیہ سلسلہ جاری ہے۔ ان تحاریک کے عروج وزوال کے ظاہری اسباب وعوامل جو بھی ہوں، لیکن درحقیقت ان کے عروج کے پس پردہ قائدانہ نبوی اصول وضوابط پر عمل کی قوت کار فرما ہے او ران کے زوال کے پیچھے ان زریں اصولوں سے انحراف کا عنصر موجود ہے ،جس کا اعتراف غیر مسلم عمائدین نے بھی کیا ہے۔ اسی لیے مسلمانوں کے ساتھ مذہب کے اختلاف اور شدید نفرت کے باوجود غیر مسلم لیڈر ز بڑی گہری نظر سے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم کی شخصیت کا مطالعہ کرتے، ان سے را ہ نمائی حاصل کرتے اور اپنی عوام کو ان کی اہمیت وافادیت سمجھاتے رہے ہیں۔ چناں چہ فرانس کے جرنیل نپولین بوناپارٹ نے لکھا” محمد صلی الله علیہ وسلم دراصل سالار اعظم تھے، آپ نے اہل عرب کو درس اتحا ددیا، ان کے آپس کے تنازعات ختم کیے، تھوڑی سی مدت میں آپ کی امت نے نصف دنیا کو فتح کر لیا، پندرہ سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاؤں کی پرستش سے توبہ کر لی، مٹی کی بنی ہوئی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں، بت خانوں میں رکھی ہوئی مورتیوں کو توڑ دیا گیا، حیرت انگیز کارنامہ تھا رسول معظم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم کا کہ یہ سب کچھ پندرہ سال کے عرصے میں ہی ہو گیا“۔ آخر امارت اور تعمیر انسانیت کے وہ کون سے اصول تھے جنہوں نے مخالفین سے بھی اپنی حقانیت کا لوہا منوایا؟ آئیے! سیرت سید البشر صلی الله علیہ وسلم کے بحربے کنار میں غوطہ زن ہو کر قیادت کو چمکانے او رامارت کو چار چاند لگانے والے کچھ نایاب گوہر اور ناپید لعل نکال کر آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
عاجزی اختیار کرنا: کام یاب قائد کی صفات میں سے ایک اہم صفت عاجزی وانکساری ہے۔ جو زعماء اپنی سرداری کے زعم میں اونچی ہواؤں میں اڑان بھرتے ہیں او راپنی قوم کو کم تر اور نوکر سمجھتے ہیں، ان کی قیادت ماتحتوں میں اعتماد کے فُقدان کی وجہ سے دیرپا نہیں ہوتی، بلکہ قائد کے نازیبا رویے کی وجہ سے ایک ایک شاخ گرنا شروع ہو جاتی ہے اور بالآخر تناہی کھڑا رہ جاتا ہے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ کی ذات اقدس سید لانس والجان ہونے کے باوجود سراپا عجزوانکسار تھی۔ ورفعنالک ذکرک کے خدائی اعزاز کے باوجود صحابہ کرام کے درمیان امتیازی حیثیت سے نہیں بیٹھتے تھے او راسی وجہ سے نووارد شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کو پہچان نہیں سکتا تھا، صحابہ کرام کے ساتھ اختلاط کے وقت آپ کے وجود اقدس پر قائدانہ تشخص کی بجائے عامیانہ، بلکہ دوستانہ رنگ نظر آتا تھا۔ سفر میں میر کارواں ہوتے ہوئے بھی تمام امور میں ان کے شانہ بشانہ شریک ہوتے تھے۔
غزوہٴ خندق کے موقع پر سرد موسم او ربھوک اور پیاس کی شدت کے باوجود صحابہ کرام کے ساتھ بنفس نفیس خندق کی کھدائی میں شامل ہوئے۔ ایک سفر میں پڑاؤ کے دوران ایک بکری کو ذبح کرنا طے پایا، ایک نے بکری ذبح کرنے ، دوسرے نے کھال اتارنے اور تیسرے نے اس کو پکانے کی ذمہ داری لے لی۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” میں ایندھن کے لیے لکڑیاں جمع کروں گا“۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یہ کام بھی ہم خود کر لیں گے، آپ اس کی زحمت نہ فرمائیں، آپ صلی الله علیہ و سلم نے جواب دیا”مجھے معلوم ہے کہ میری طرف سے تم یہ خدمت سر انجام دے دو گے، لیکن میں یہ پسند نہیں کرتا کہ تمہارے مقابلے میں امتیاز اور بڑائی اختیار کروں، الله اپنے بندوں میں سے ایسے بندے کو پسند نہیں فرماتے جو اپنے ساتھیوں میں بڑے بنتے ہیں۔“
مامورین سے مشورہ کرنا: امیر کا اپنے مامورین سے مشورہ کرنا کارکنان میں خود اعتمادی اور امارت کی مضبوطی میں مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ قرآن کریم میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو حکم دیا گیا :﴿وشاورھم فی الامر﴾” اور آپ ان (صحابہ) سے مشورہ کیا کریں۔ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم اس حکم کی تعمیل میں صحابہ کرام سے مختلف امور میں مشاورت فرماتے تھے او ران کی رائے کواحترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
غزوات کے موقع پر لشکر کی صف بندی ، مخصوص اور حساس مقامات پر افراد کی تعیناتی، آلات حرب کی دست یابی، سرایا میں امیر کے انتخاب اور دیگر امور حربیہ میں صحابہ کرام سے رائے طلب کرنے کے بعد کوئی فیصلہ فرماتے تھے۔
غزوہٴ احد میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی رائے مدینہ کے اندر رہ کر لڑنے کی تھی، لیکن جنگ بدر سے پیچھے رہ جانے والے صحابہ کرام کی خواہش مدینہ سے باہر جاکر لڑنے کی تھی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی رائے پر عمل فرمایا۔ گھریلو معاملات میں بھی ان سے مشورہ لیتے تھے، چناں چہ واقعہ افک جو خالصة آپ کا ذاتی اور خاندانی مسئلہ تھا اس میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے مشاورت فرمائی۔
مامورین کے احوال کی خبر گیری کرنا: امیر اور مامور کے درمیان تعلق کو مضبوط کرنے کی ایک اہم کڑی مامورین کے احوال کی خبر رکھنا اوران کے ساتھ انسانیت کا گہرا رشتہ قائم کرنا ہے۔ چناں چہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم مریض صحابہ کرام کے گھر جاکر ان کی عیادت فرماتے ، فوت شدگان کا جنازہ پڑھاتے، ان کے لواحقین سے تعزیت فرماتے، کسی کو پریشان حال دیکھتے تو تسلی دیتے، کوئی دعا کی درخواست کرتا تو فوراً دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیتے، کسی سے مزاج کے خلاف کام ہو جاتا تو درگز فرماتے، اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہ لیتے، دعوت قبول فرماتے اور کوئی سوال کرتا تو اس کو عطا فرماتے۔
یہی وجہ تھی کہ محبتیں بانٹنے والے اس مشفق اور مہربان نبی صلی الله علیہ وسلم پر ان کے دیوانے پروانے سو جان سے فدا ہوتے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی دید کے بغیر زندہ رہنے کا تحمل نہیں کرسکتے تھے۔ موسم گرم ہوتا یا سرد، فصلیں اور باغات تیار ہوتے یا تیاری کے مراحل میں، ہر چیز سے بے نیاز ہو کر آپ صلی الله علیہ وسلم کے اشارہ ابرو پر آپ کے ساتھ جنگلوں اور بیابانوں کے خطرناک اسفار کے لیے پابہ رکاب ہو جاتے تھے۔