ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)
خلفائے ثلاثہ کو برحق اور مومن کامل نہ ماننے سے شیعوں کی قرآن کریم کی صریح مخالفت
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں صحابہ کرام پر اپنا احسان جتلایا ہے، زمانہ جاہلیت میں یہ باہمی جنگ و جدال، بغض و حسد کی بنا پر جہنم کے دہانے پر کھڑے تھے کہ اللہ کی رحمت ان کی طرف متوجہ ہوئی، قبول اسلام کی برکت سے وہ دشمنی محبت میں بدل گئی، اسی طرح کا ایک مضمون دوسری آیت میں مذکور ہے:﴿ہُوَ الَّذِی أَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِینَ،وَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِہِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا مَّا أَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوبِہِمْ وَلَٰکِنَّ اللَّہَ أَلَّفَ بَیْنَہُمْ إِنَّہُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ﴾․(الانفال:63)
ترجمہ: ”اسی نے تجھ کو زور دیا اپنی مدد کا اور مسلمانوں کا اورا لفت ڈالی ان کے دلوں میں، اگر تو خرچ کردیتا جو کچھ زمین میں ہے سارا نہ الفت ڈال سکتا ان کے دلوں میں،لیکن اللہ نے الفت ڈالی ان میں، بے شک وہ زور آورہے، حکمت والا ہے“۔
ان دونوں آیتوں کا مشترکہ مضمون یہ ہوا کہ صحابہ کرام میں باہمی عداوت کا باہمی محبت و اخوت میں بدلنا، اللہ تعالیٰ کی خصوصی قدرت کا کرشمہ تھا، وگرنہ یہ عداوت اس قدر سخت تھی کہ اسے زائل کرنے کے لیے پوری دنیا کی دولت بھی خرچ کی جاتی تو یہ زائل نہ ہوتی، مگر شیعہ مذہب کا عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کرام میں دیرینہعداوتیں بدستور قائم تھیں، بنی امیہ اور بنی ہاشم میں دیرینہ عداوت کا م کر رہی تھی، اسی بغض و عناد کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پہلی خلافت نہ مل سکی اور ان پر طرح طر ح کا ظلم ہوا، تینوں خلفاء اور صحابہ کرام کو برحق نہ ماننے کی وجہ سے شیعوں کو صراحتاً قرآن کریم کی مخالفت کرنی پڑرہی ہے، لیکن انہیں مخالفت قرآن کرنے کی پروا نہیں۔
﴿وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّةٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ، وَلاَ تَکُونُواْ کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَأُوْلَئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ، یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوہٌ فَأَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوہُہُمْ أَکْفَرْتُم بَعْدَ إِیْمَانِکُمْ فَذُوقُواْ الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُون،وَأَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوہُہُمْ فَفِیْ رَحْمَةِ اللّہِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ،تِلْکَ آیَاتُ اللّہِ نَتْلُوہَا عَلَیْْکَ بِالْحَقِّ وَمَا اللّہُ یُرِیْدُ ظُلْماً لِّلْعَالَمِیْنَ، وَلِلّہِ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ وَإِلَی اللّہِ تُرْجَعُ الأُمُور﴾ ․ (آل عمران، آیت:109-104)
ترجمہ: ”اور چاہیے کہ رہے تم میں ایک ایسی جماعت جو بلاتی رہے نیک کام کی طرف اور حکم کرتی رہے اچھے کاموں کا اور منع کرتی رہے برائی سے اور وہی پہنچے اپنی مراد کو۔ اور مت ہو ان کی طرح جو متفرق ہو گئے اور اختلاف کرنے لگے، بعد اس کے کہ پہنچ چکے ان کو صاف حکم اور ان کو بڑا عذاب ہے، جس دن کے سفید ہوں گے بعضے منھ اور سیاہ ہوں گے بعضے منھ، سو وہ لوگ کہ سیاہ ہوں گے ان کے منھ ان سے کہا جائے گا کیا تم کافر ہوگئے ایمان لا کر، اب چکھو عذاب بدلہ اس کفر کرنے کا۔اور وہ لوگ کہ سفید ہوئے منھ ان کے سو رحمت میں اللہ کی وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔یہ حکم ہیں، اللہ کے ہم سناتے ہیں تجھ کو ٹھیک ٹھیک اور اللہ ظلم کرنا نہیں چاہتا خلقت پر۔ اور اللہ کا ہی ہے جو کچھ کہ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ کہ ہے زمین میں اور الله کی طرف رجوع ہے ہر کام کا“۔
ربط…سابقہ آیت میں کفار کو اس بات پر ملامت کی گئی تھی کہ خود بھی گم راہ ہیں اور دوسروں کو بھی گم راہ کرتے ہیں، اس مناسبت سے مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ جس طرح تم ایمان و نیکی پرقائم ہو اسی طرح تمہیں ایمان و نیکی کی دعوت دوسروں تک پہنچانا بھی ضروری ہے۔
امر بالمعروف کا مطلب
”امر“لغت میں اس لفظ کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کسی کو کسی فعل کے بجا لانے کا حکم دیا جائے اور ”معروف“ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو معاشرے میں مستحسن سمجھا جائے، لیکن اصطلاح شریعت میں معروف اس قول و فعل کو کہتے ہیں جو طاعت الہی کا مظہر اور تقرب الہی کا ذریعہ ہو، اس قول و فعل کا نیکی ہونا ، عوام میں معروف ہو۔(الاحکام السلطانیہ للماوردی،ص:65)گویا اسلام میں امر بالمعروف کا مطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے دین کی پیروی کا حکم دینا ہے۔
نہی عن المنکر کا مطلب
”نہی“امر کی ضد اور”منکر“معروف کی ضد ہے، اصطلاح شریعت میں نہی عن المنکر کا مطلب کسی کو ایسے قول و فعل سے روکنا ہے جو رضائے الہی کے موافق نہ ہو۔(الفروق للقرافی:2/113،158)
علامہ زبیدی نے شرح الإحیاء میں امر بالمعروف کی تعریف ان الفاظ میں نقل کی ہے۔
”ھو ما قبلہ العقل،وأقرہ الشرع، ووافق کرم الطبع“․ یعنی ایسے قول و فعل کا حکم دینا جسے عقل سلیم قبول کرے،شریعت محمدیہ برقرار رکھے، شرافت طبع کے موافق ہو“۔
اور نہی عن المنکر کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:”ھو ما لیس فیہ رِضا اللہ تعالیٰ من قولٍِ أو فعلٍ“․
ایسے قول و فعل سے روکنا جس میں رضائے الہی نہ پائی جاتی ہو۔ شرح الاحیاء للزبیدی․7/3)
امر بالمعروف کی اہمیت اور اس کے ترک پر وعیدیں:﴿وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّةٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُولَٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾․
اس آیت میں خاص ایک ایسی جماعت کے ہونے کی ترغیب دی گئی ہے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے ، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے، جس معاشرے میں یہ حکم زندہ ہو گا درحقیقت وہ معاشرہ زندہ ہو گا، اس معاشرے کے افراد کو سرفرازی کا پروانہ جاری کیا گیا ہے۔
امر بالمعروف کی اہمیت و فضیلت پر بکثرت احادیث شریفہ منقول ہیں، اس مقام کی مناسبت سے چند منتخب احادیث پیش کی جاتی ہیں۔
حضرت ابو سعید خدری سے ،مروی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من راٰی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ، فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یستطع فبقلبہ، وذالک أضعف الإیمان“․ (سنن ترمذی، 2172: سنن ابی داؤد:4340)
تم میں سے کوئی شخص برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے ختم کر دے، اگر ہاتھ سے ختم کرنے کی قدرت نہ ہو تو زبان ہی سے اسے برا کہے اور اگر زبان سے روکنے کی طاقت نہ ہو تو دل ہی دل میں اسے برا سمجھے کہ یہ ایمان کا سب سے کمزوردرجہ ہے۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو۔
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ أَنفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُم مَّن ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ﴾اور اس آیت کے ذریعے امر بالمعروف کے ترک پر استدلال کرتے ہو۔
حالاں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا! جب لوگ ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور ظلم سے نہ روکیں تو وہ وقت دور نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب کواپنے کسی عمومی عذاب میں گرفتار کردے۔(سنن ترمذی: 2168۔ابن ماجہ:4005)
حضرت عدی بن عمیر فرماتے ہیں، میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:”اللہ تعالیٰ مخصوص لوگوں کے عمل بد کی وجہ سے لوگوں کو عمومی عذاب میں مبتلا نہیں کرتا، یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان میں منکر کو ہوتا ہوا دیکھ لیں اور اس پر نکیر کی قدرت رکھتے ہوئے نکیر نہ کریں، جب وہ یہ کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے ہر خاص و عام کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے“۔(کتاب الزھد لابن المبارک،حدیث رقم:1352)
ابن عمیرہ سے روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جب زمین پر گناہ کیا جا رہا ہو اور اسے دیکھنے والا اسے نا پسند کرتا ہو، (قال مرةً) یا اس پر نکیر کرتا ہو وہ اس شخص کی طرح ہے جو گناہ کے موقع سے غائب ہو اور جو شخص گناہ کے موقع سے غائب ہو مگر اس گناہ سے راضی ہو، اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جو موقع پر حاضر ہو“۔(سنن ابی داؤد، حدیث رقم: 4345)۔
حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا فرمایا:”سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہے(سنن ابی داؤد، حدیث رقم:4344)۔
حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم میں سے کوئی شخص اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھے ۔صحابہ کرام نے عرض کیا :اپنے آپ کو حقیر سمجھنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ایسی بات دیکھے جس کی اصلاح کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر ہو،لیکن وہ اس میں کچھ نہ بولے، (گویا وہ خود کو اس کا اہل نہ سمجھ کر حقیر بن گیا)تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس کومخاطب کر کے فرمائیں گے، تمہیں کس چیز نے فلاں فلاں معاملے میں (حق) بات کرنے سے روکا تھا، وہ عرض کرے گا، لوگوں کے خوف کی وجہ سے نہ بول سکا تھا؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے، میں اس بات کا زیادہ حق دار تھا کہ تم مجھ ہی سے ڈرتے۔(سنن ابن ماجہ، باب الأمر بالمعروف ،ولا یحقر احدکم نفسہ)۔
امر بالمعروف کا شرعی حکم
﴿ولتکن منکم امة﴾میں لفظ ﴿من﴾بعض اہل علم کے نزدیک بیان کے لیے ہے، اس صورت میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہر مسلمان پر فرض عین ہو گا اور جمہور کے نزدیک لفظ”من“تبعیض کے لیے ہے،اس صورت میں امت کے بعض لوگ بھی اگر یہ فریضہ انجام دیں تو دوسروں سے یہ ساقط ہو جائے گا۔(روح المعانی۔ (آل عمران، ذیل آیت:104، احکام القرآن للجصاص: آل عمران ذیل آیت:104) یعنی فرض کفایہ ہے، البتہ اس کی مشروعیت پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ علامہ نووی اور علامہ ابن حزم نے اس پر اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے( شرح النووی علی مسلم2/22)
امر بالمعروف نہی عن المنکر کے مراتب
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کے تین مراتب بیان کیے گئے ہیں۔
”من راٰی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ“․ قوت سے برائی کو مٹانا۔
”فإن لم یستطع فبلسانہ“․زبان سے برائی کو ختم کرنا۔
”فان لم یستطع فبقبلہ“․دل ہی میں اس کے مٹانے کا جذبہ رکھنا، یہ ایمان کا سب سے کمزوردرجہ ہے۔
مرتبہ اول کی تفصیل
پہلے مرتبے کا دارو مدار قوت پر ہے، اس لیے بعض اہل علم نے اسے خلیفة المسلمین، صاحب اقتدار کے لیے خاص کیا ہے، کیوں کہ وہ صإحب قدرت ہوتا ہے، یعنی قوت سے برائیمٹانا خلیفة المسلمین کی ذمہ داری ہے لیکن ”من رأی منکم“کی تعمیم کو بالکلیہ ختم کر کے اس مرتبے کو خلیفہ کے لیے خاص کرنا محل نظر ہے،اس کی تفصیل ہے۔
صاحب اقتدار پر برائی کو قوت سے مٹانا فرض عین ہے۔
رعایا میں سے جس شخص کو ذاتی طور پر کسی شخص پر قدرت حاصل ہے تو اس پر بھی بزور بازو برائی مٹانا فرض عین ہے، جیسے باپ کو اولاد پر، استاذ کو شاگردں پر، سردار کو قوم پر، سیٹھ کو ملازمین پر۔(شرح النووی علی مسلم:2/23)۔
اگر منکر کسی ایسی جگہ میں ہو رہا ہو جس کا علم صرف ایک ہی شخص کو ہے اور وہ اس کے ازالے پر قادر ہے تو اسی پر اس کا ازالہ فرض عین ہے۔(شرح النووی علی مسلم:2/23)
بعض صورتیں ایسی ہیں جن میں رعایا میں سے ہر فرد کو منکر کو مٹانے کے لیے قوت کا استعمال جائز ہے، مگر واجب اور فرض عین نہیں ہے۔
جیسے جان و مال اور عفت کی حفاظت کے لیے ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍقاتل، ڈاکو، بدمعاش کو کوئی برائی سے روکے اور اس کے لیے قوت کا استعمال کرے تو جائز ہے،اگر اس میں خود مارا گیا تو شہید اور اگر قاتل، بدمعاش ، ڈاکو مارا گیا تو اس پر کوئی قصاس اور دیت نہیں ہے۔
حضرت سعید بن زید سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من قتل دون دینہ فھو شھید ومن قتل دونہ دمہ فھو شھید ومن قتل دون مالہ فھو شھید، ومن قتل دون اھلہ فھو شھید“․(سنن ترمذی حدیث رقم :1421،سنن ابی داؤد،حدیث رقم:4772)
جو شخص اپنے دین کے بچاؤ میں مارا گیاوہ بھی شہید ہے، جو شخص اپنی جان کے بچاؤ میں مارا گیا وہ بھی شہید ہے اور جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا گیا وہ بھی شہید ہے اور جو شخص اپنے اہل و عیال کی حفاظت میں مارا گیا وہ بھی شہید ہے۔
اگر کوئی شخص آلاتِ معصیت کو اپنے زور بازو سے توڑ دے اس پر بھی کوئی ضمان نہیں ہے(الدرالمختار:5/135) اور اس کے لیے یہ جائز ہے، فرض عین نہیں ہے۔
جن مقامات پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرض نہ ہو اس کے باوجود اگر کوئی شخص وہاں کوئی فریضہ انجام دے اور اس کا بھی یقین ہو کہ اس فریضے کی انجام دہی میں مارا جاؤں گا، وہ صاحب عزیمت ہے او ر اگر مارا گیا تو وہ شہید ہے؟(الفتاویٰ الھندیہ کتاب الکراھیة:6/407)
حدودو تعزیرات کے نفاذ میں امیرالمسلمین کے علاوہ کسی عامی کو بزور قوت ان کونافذ کرنا درست نہیں ہے ، اگر اس کی اجازت عوام کو دے دی جائے، تو معاشرہ لا قانونیت کا شکار ہو کر تباہ و برباد ہو جائے گا، مسلمانوں کی جان ومال، دین و دنیا احساس تحفظ سے محروم ہو جائے گی۔البتہ نفاذ حدود کے لیے عملی کوششوں سے خلیفہ کو مجبور کیا جائے۔ یہ بھی امر بالمعروف کی ایک نوعیت ہے۔
اگر خلیفہ المسلمین کسی برائی کو بزور قوت مٹانا چاہے تو وہ مٹ جاتی ہے، لیکن مسلمانوں کی کوئی جماعت برائی کو بزورِ قوت مٹانے پر آمادہ ہو جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ اسے مٹائیں یا ترک کریں؟
علامہ ابن تیمیہ ، ابن القیم ، عزالدین عبدالسلام فرماتے ہیں نہی عن المنکر میں چار احتمال ہیں، اگر امر بالمعروف کے نتیجے میں:
برائی ختم ہو جائے ،اس کی جگہ نیکی قائم ہونے کا امکان ہو تو اسے بزور قوت مٹانا درست ہے۔
برائی مکمل طور پر ختم نہ ہو، مگر پہلے سے کم ہو جانے کا امکان ہو تو بھی امر بالمعروف درست ہے۔
اگر امر بالمعروف کی وجہ سے برائی کی جگہ اس طرح کی برائی وجود میں آنے کا احتمال ہو تو کرنے اور چھوڑنے دونوں کی گنجائش ہے۔
اگر امر بالمعروف کے نتیجے میں سابقہ برائی سے برائی کے قائم ہونے کا احتمال ہو تو ایسے مقامات پر امر بالمعروف ممنوع ہے۔ (الزواجر، 2/168،الحسبة،ص،68۔69)
مرتبہ ثانی کی تفصیل
زبا ن سے برائی ختم کرنے کی استطاعت ہو تو اولاً نیکی کی ترغیب دے، نرم لہجہ اختیار کرے، اگر یہ کارآمد نہ ہو تو سخت زبان استعمال کرے، مگر گالی گلوچ نہ کرے، اگر یہ بھی کارآمد نہ ہو تو ڈرائے دھمکائے،( الفتاوی الھندیة کتاب الکراھیة:5/407) اس کے بعد اگر بزور قوت مٹا سکتا ہو تو اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔(جاری)