دنیابھر میں امراض قلب کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔بوڑھے اورنوجوان سبھی اس کا شکار نظر آتے ہیں۔ دنیا بھر میں کارڈیو ویسکیولر ڈیزیز میں مبتلا افراد کی تعداددو کروڑ ہے اور یہ اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک امریکہ ،کینیڈا،برطانیہ،فرانس وغیرہ میں امراض قلب نے خوف اور تشویش کی لہرپیداکردی ہے، کیوں کہ یہ اچانک اور تیزی کے ساتھ ہوتاہے اور کسی دوایاتدبیر کا وقت نہیں ملتا،یوں اگرحملہ شدت سے ہو اور فوری طبی امداد نہ مل سکے تو موت واقع ہو جاتی ہے۔
دل کے امراض کی بڑی وجہ غیر معیاری لائف اسٹائل اور کھانے پینے میں بے احتیاطی ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق صحت بخش خوراک نہ لینے اورورزش نہ کرنے سے دل اورخون کی نالیوں میں مختلف قسم کے امراض پیدا ہوتے ہیں۔اس لیے ان کی وجوہات، احتیاطی تدابیر اور غذاؤں سے متعلق جانناضروری ہے۔ آج کل نوجوان نسل دل کے مرض میں زیادہ مبتلا ہورہی ہے ۔غم ، تنگی معاش اور معاشی حالت کو مزید بہتر بنانے کی سوچ انہیں سونے نہیں دیتی، نیندکم ہوگی ، تو دل کی رفتار میں تبدیلی آجاتی ہے، ایک حد تک دل کے عضلات متحمل ہیں،برداشت کرتے ہیں، پھر ایک دم دل کا دورہ پڑ جاتا ہے ۔اکثر جوان ورزش وریاضت نہیں کرتے،سست اور آرام طلب بن جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں دل کو خون پہنچانے والی شریان میں چربی جمع ہوجاتی ہے،جس سے” کارڈیک اسچیمک ڈزیز“ ہوتی ہے۔
اسی طرح کم سن افراد رات دیر تک کام کرتے ہیں، نیند بھگانے کے لیے چائے یا کافی کا استعمال کرنے لگ جاتے ہیں،جو عضلاتِ قلب اور اعصاب کے لیے مضر ہیں،بہت زیادہ محنت و مشقت کی وجہ سے ”ٹیکی کارڈیا“ کے مریض بن جاتے ہیں۔سن کرنے والی اشیاء (مخدرات) کا استعمال نوجوانوں میں دل کے امراض کی اہم وجہ ہے۔ ان کا دل ڈوبنے لگتا ہے،وہ ان اشیاء کا استعمال نہیں ترک کرتے، بالآخر بریڈی کارڈیا (حرکتِ قلب کا سست ہونا) میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔مخدرات (افیم، دھتورہ، بھنگ) کے زیادہ استعمال سے دل کی حرکت کم ہوتی ہے، جس سے حرارت عضلاتِ قلب میں جمع ہو جاتی ہے اور عضلات کو آہستہ آہستہ پھاڑ دیتی ہے ۔
مائیوکارڈیل انفارکشن،یعنی حرکتِ قلب زیادہ ہونے سے بھی دل کے عضلات کونقصان پہنچتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ ڈرگ کا بے جا استعمال کرنے والے افراد کافی جلدی امراضِ قلب میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔بعض افراد کے پیارے ان سے جدا ہو جاتے ہیں، تو وہ ان کی جدائی میں دن رات اسٹریس کا شکار رہتے ہیں، جس سے خاص ہارمون کا افراز ہوتا ہے، جو دل کی رفتار کبھی تیز کرتا ہے، کبھی سست، اس تغیر پذیری کے نتیجے میں دل کے عضلات متاثر ہوتے ہیں، دل کے عضلات کافی حساس ہیں، وہ ذرہ سی تبدیلی کو محسوس کرتے ہیں، حتیٰ کہ معدے کی ریح (گیس)سے بھی متاثر ہو جاتے ہیں، اس تغیر کے نتیجے میں ایک دم دل کی دھڑکن رک جاتی ہے، جسے اصطلاح میں ”کارڈیک ایرسٹ، کہتے ہیں۔ ایسے لوگ ایک معالج پر یقین نہیں رکھتے، خواہ متعدد مرتبہ اس کے علاج سے بہتر ہو چکے ہوں، وسوسوں کا شکار ہوتے ہیں۔عام طور پر ان کی دل کی رفتار بدلنے کے ساتھ چہرہ پیلا، معدہ کمزور، طبیعت میں چڑچڑا پن اور لاغری، پیٹ کی چربی میں اضافہ ہو جاتا ہے،اگلے درجے میں رات کو ٹھنڈے پسینے، دم گھٹنا، چلنے کے دوران غیر معمولی طور پر سانس پھولنا، چکر ومتلی کی شکایت ہوتی ہے۔
اکثر اشخاص ان علامات پر توجہ نہیں دیتے، جس کی بنا پر سینے میں بائیں جانب درد، سانس کی بندش، بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں سخت درد اور بے حسی، جبڑوں میں سخت درد کی علامات ہوتی ہیں، اسے دل کا درد (انجائینا)کہتے ہیں، یہ دورہ ٹھہر ٹھہر کر ہوتا ہے، اکثر افراد اس درد سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جو بچتے ہیں انہیں اکثر اس کے دورے ہوتے ہیں۔ اگر ایک ہفتہ متواتر دورہ نہ ہو تو بہت اچھی علامت ہے۔
دل کی عمومی بیماریوں میں کورونری ہارٹ ڈیزیز یعنی دل کو خون مہیا کرنے والی شریان کی بیماری، آرتھیمیا اور مائیوکارڈیل انفارکشن شامل ہیں، یہ بیماریاں ادویہ سے کنٹرول نہ ہوں توسرجری ضروری ہو جاتی ہے۔ایلوپیتھک معالج نائیٹروگلیسرین کی گولی دیتے ہیں، جو زبان کے نیچے رکھی جاتی ہے اورانجائنا کا دردہوتو آرام آجاتاہے۔ یہ وقتی تدبیر ہے، جو کافی موثر ہے۔
امراض قلب سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ منفی خیالات کو پیدا نہ ہونے دیں، منفی خیالات سے دل شکنی کی بجائے نمٹنے کی راہ سوچنا زیادہ عمدہ ہے۔ سوتے وقت دن کے معاملات ذہن میں نہ آنے دیں اور پُر سکون نیند لیں، یاد رہے کہ نیند کے دوران تمام خلیات و عضلات تازگی لیتے ہیں اور غذا حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ صبح کی سیرسرسبز اورکھلی آب وہوا میں کریں، آلودہ فضاسے بچیں۔ باقاعدگی سے ورزش دل کی بیماریوں سے نجات دلانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ جلد پر روکھا اور زرد رنگ ظاہر ہونے لگے توصحت پرفوری توجہ دیں۔غصہ سے پرہیز کریں۔ غم یافکرلاحق ہو جائے تو ذہن کسی اور کام میں لگائیں ، سبز علاقے میں جا کر گہری سانس لینے سے اسٹریس دور ہوتا ہے۔ معدے کی صحت پر توجہ دیں، ریاح(گیس) دل کے عضلات پر اذیت پہنچاتی ہے۔امراض قلب کے مریضوں کو سگریٹ نوشی سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ہر قسم کی ڈرگ سے پرہیزکریں۔ آٹھ گھنٹے آرام کا خیال رکھیں۔موٹاپاکم کریں۔
دل کی بیماریوں سے بچنے کے لیے صحت مند غذاؤں تازہ سبزیوں اور پھلوں کا استعمال نہایت ضروری ہے۔ہفتے میں ایک مرتبہ مچھلی کا گوشت ضرور لیں کہ یہ اومیگا فیٹی ایسڈ کا منبع ہے۔اومیگا تھری فیٹی ایسڈز دل کی دھڑکن کی رفتار میں غیرمعمولی تبدیلی، شریانوں میں زہریلا مواد جمع ہونے وغیرہ کاخطرہ کم کرتا ہے۔ ایسٹرن فن لینڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق چربی والی مچھلی کو ہفتہ بھر میں 4 دفعہ کھانا چاہیے، یہ جسم میں صحت کے لیے فائدہ مند کولیسٹرول کی شرح بڑھانے اور امراض قلب کا خطرہ کم کرنے میں مددگارہے۔
دیسی مرغی، مچھلی، وٹامن ای،وٹامن سی اور وٹامن ڈی،وہ پھل اور سبزیاں جن میں مائیوسین پروٹین ہو کہ یہ دل کے لیے بہتر ہیں، چپاتی لیں، نان سے پرہیز کریں، جو غذا بلڈ پریشر بڑھائیں ان سے پرہیز کریں۔جوکادلیہ ہمارے جسم میں نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح میں پانچ سے دس فیصد تک کمی لانے میں مدد دیتا ہے ،جس سے امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔دلیہ میں فائبر کی ایک قسم بیٹا گلوکینز موجود ہوتی ہے، جو دفاعی نظام کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ امراض و انفیکشن کے خلاف قوت مدافعت پیداکرتی ہے۔چینی والے بازاری دلیہ سے بچیں ۔بلیو بیری اور اسٹرابیری کا استعمال بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے ۔یہ مزیدار پھل خون کی شریانوں کو بھی کشادہ کرنے میں مدد دیتے ہیں، جس سے امراض قلب سے بچنے میں مدد ملتی ہے ۔یادرہے کہ ہائی بلڈپریشر ہارٹ اٹیک کی بڑی وجہ ہے ۔
اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپورانار بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے ،جب کہ خون کی گردش کو معمول پر لاتا ہے، جس سے امراض قلب اور ہارٹ اٹیک سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔ مالٹے اور گریپ فروٹ کھانے کے عادی افرادمیں خون جمنے سے ہونے والے فالج کا خطرہ کم ہوتا ہے، اس سے ہٹ کر بھی ترش پھل وٹامن سی سے بھرپور ہوتے ہیں، جو کہ امراض قلب کوکم کرتا ہے۔ایک مالٹا روزانہ کھانا فالج اور امراض قلب کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ روزانہ صرف ایک کیلا کھانے کی عادت بھی فالج اور ہارٹ اٹیک سے بچاومیں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
آلو پوٹاشیم سے بھرپور ہوتے ہیں، جو کہ بلڈپریشر کو کم کرنے میں مدد دینے والا جز ہے، اس کے علاوہ آلو میں فائبر کی مقدار بھی کافی زیادہ ہوتی ہے، جس سے امراض قلب سے بچنے میں مدد ملتی ہے ۔ ٹماٹر میں بھی دل کے لیے فائدہ مند پوٹاشیم کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے، جب کہ یہ اینٹی آکسائیڈنٹ لائیکوپین کے حصول کا بھی اچھا ذریعہ ہے۔ یہ اینٹی آکسائیڈنٹ جسم میں نقصان دہ کولیسٹرول کوکم کرتاہے، جس سے خون کی شریانیں کشادہ رہتی ہیں اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
کولیسٹرول کی دو اقسام ہوتی ہیں، ایک ایل ڈی ایل (نقصان دہ) اور دوسری ایچ ڈی ایل (فائدہ مند)، امراض قلب سے بچنے کے لیے ایل ڈی ایل کی سطح کو کم رکھنا ضروری ہوتا ہے جب کہ ایچ ڈی ایل کی سطح بڑھانا ہوتی ہے، اس کا ایک ذریعہ زیتون کا تیل، سبزیاں، پھل اور اجناس پر مشتمل غذا کا استعمال ہے۔ ڈارک چاکلیٹ دل کی صحت کے لیے فائدہ مند ہے، اس کی وجہ اس میں موجود کیمیکل فلیونوئڈز ہے، جو کہ شریانوں کو لچک دار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ اس سے خون جمنے کا امکان بھی کم ہوتا ہے،جب کہ نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح بھی نہیں بڑھتی۔روزانہ کچھ مقدار میں بادام کھانا خون کی شریانوں سے جڑے امراض کے ایک بڑے خطرے (خون میں لائی پائید چربی کی خرابی)کو کم کرتا ہے۔اس بیماری میں نقصان دہ ایل ڈی ایل کولیسٹرول اور ٹرائی گلیسرائیڈ کی سطح بڑھ جاتی ہے جب کہ فائدہ مند کولیسٹرول کی سطح کم ہوجاتی ہے، جس کے نتیجے میں امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے۔دالیں دل کے لیے بہت فائدہ مند ہیں، جب کہ ان میں اینٹی آکسائیڈنٹس، پروٹین اور فائبر کی مقدار بھی کافی زیادہ ہوتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ ہفتے میں 4 بار دالوں کو اپنی غذا کا حصہ بناتے ہیں، ان میں امراض قلب کا خطرہ 22 فیصد تک کم ہوجاتاہے۔سبز چائے کولیسٹرول کو کم کرتی ہے، اس کے علاوہ یہ گرم مشروب میٹابولزم کو بہتر کرکے اضافی وزن میں کمی لانے میں بھی مدد دیتا ہے، جس سے بھی امراض قلب اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
سبز پتوں والی سبزیاں جیسے پالک، ساگ وغیرہ دل کو زیادہ صحت مند بناتی ہیں، ان میں موجود کیروٹین اینٹی آکسائیڈنٹس کا کام کرکے جسم کو نقصان دہ مرکبات سے بچاتے ہیں۔ اسی طرح یہ سبزیاں فائبر اور مختلف وٹامنز اور منرلز سے بھی بھرپور ہوتی ہیں، جو کہ دل کی صحت کے لیے فائدہ مند ہیں۔
الاباما یونیورسٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پوٹاشیم سے بھرپور غذائیں خون کی شریانوں کو سکڑنے یا خون گاڑھا ہونے کے جان لیوا عمل سے تحفظ دینے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ پوٹاشیم ان جینز کو ریگولیٹ کرتا ہے جو کہ شریانوں کی لچک کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ دہی کھانے کی عادت بناکر خون کی شریانوں کے امراض بشمول امراض قلب اور بلڈ پریشر کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔ محققین کے مطابق دہی دل کی صحت کے لیے فائدہ مند ہے اور اسے غذا کا لازمی حصہ بنایا جانا چاہیے۔ دہی کا زیادہ استعمال خواتین میں تیس فیصد ،جب کہ مردوں میں 19 فیصد تک خون کی شریانوں کے امراض کا خطرہ کم کردیتا ہے۔2012ء میں دل کے مریضوں کو تین سے پانچ دن سرکیومن4گرام روزانہ دی گئی تودل کے دورے کے 17فیصد خطرات کم ہوگئے۔سرکیومن نامی کیمیکل ہلدی میں عام پایاجاتاہے اور اندرونی سوزش وجلن کو کم کرتا ہے اور اینٹی آکسیڈنٹس ہے۔طبِ قدیم میں حسب ذیل تدابیرکچھ عرصہ تک مسلسل کرنامفید ہے۔
پودینہ سبزچھ گرام ،ادرک تازہ 3گرام ،پان کا پتہ آدھانصف گلاس پانی میں جوش دے کر چھان کر نہارمنھ پی لیں۔ اسی طرح برنجاسف چھ گرام، لہسن مقشر دو عدد نصف گلاس پانی میں جوش دے کر چھان کر سہ پہر کو پی لیا کریں۔ یہ عمل دو سے تین ماہ کرنے سے عموما شریان میں دوران خون کی رکاوٹ ختم ہوجاتی ہے۔آملہ پاوڈر، صندل سفوف کو خمیرہ مروارید آدھا چمچ کے ساتھ دوپہر میں کھانے سے بھی فائدہ ہوتاہے۔
امراض قلب میں مبتلامریضوں کو اپنے قریبی معالج سے مسلسل رابطہ رکھنا چاہیے۔یادرکھیں، خوش گوار زندگی کے لیے دل کا صحت مند ہونا ضروری ہے۔