اللہ جل جلالہ وعم نوالہ واعظم شانہ کی عبادت ومعرفت کا جذبہ، حوصلہ انسانی فطرت، طبیعت کا خاصہ اور ایک حصہ ہے، یہی وجہ ہے کہ انسان نے اپنے خالق وحقیقی مالک کے وجود کو دیکھا تو نہیں، لیکن اس کے باوجود جب کبھی اس کی زندگی میں کوئی خوش گوار واقعہ پیش آتا ہے تو عموماً جبین انسانی میں سجدئہ شکر مچلنے لگتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ اس ان دیکھی غیبی ہستی کا شکر ادا کرے، ایسے ہی جب کوئی ناگوار حادثہ پیش آتا ہے تو انسانی ہاتھ اسی نادیدہ ذات کی طرف بے اختیار بڑھتے او رپھیلتے ہیں اور آنکھیں اپنے عجز کے اظہار میں اشک بار ہوجاتی ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا کی تاریخ کا کوئی زمانہ اور کائنات کا کوئی خطہ خداپرستی کے اس فطری جذبہ سے خالی نہیں رہا ہے، ہمیشہ سے دنیا والے اسی کو یاد کرتے اور پکارتے ہیں۔
اللہ جل شانہ کو ہر اس نام سے پکار سکتے ہیں جو اس کے شایانِ شان ہو، اللہ جل شانہ کی ذاتِ منبع الکمالات کو ملحدین ومنکرین کے علاوہ (جن کی تعداد ہر زمانہ میں کالعدم رہی ہے)ہر قوم ومذہب کے لوگوں نے آج تک مختلف ناموں سے مانا اور پکارا ہے اور مانتے اور پکارتے رہیں گے، کوئی خدا کہہ کر پکارتا ہے تو کوئی گوڈ (God)کہہ کر، کوئی اِیشور کہہ رہا ہے تو کوئی پر میشور، غرض جو جس نام سے بھی اللہ جل شانہ کو یاد کرتا ہے اگر تحقیق کے بعد ثابت ہوجائے کہ وہ نام اللہ جل شانہ کی الوہیت وعظمت اور ذات وصفات کے خلاف نہیں تو فقہی نقطہ نظر سے اس نام سے پکارنے میں کوئی مضائقہ نہیں ،کیوں کہ اللہ جل شانہ خود ارشاد فرماتے ہیں: آپ کہہ دیجیے کہ اللہ جل شانہ کہہ کر پکارو یارحمن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو پکار سکتے ہو، ایک ہی بات ہے، اس کے بہت سے بہترین نام ہیں یا تمام بہترین نام اسی کے ہیں۔(بنی اسرائیل)
اس آیت کریمہ سے دوباتیں معلوم ہوئیں :اللہ جل شانہ کو ہر اس نام سے پکار سکتے ہیں جو اس کے شایان شان ہو، خواہ کسی بھی زبان میں ہو،کیوں کہ اس کی عظمت والا نام عربی زبان کے ساتھ خاص نہیں اور نہ ہی صرف انسانوں کی زبانوں کے ساتھ خاص ہے، بلکہ مختلف مخلوقات کی زبانوں پر بھی تو اسی کا نام ہے۔ اگر گوشِ ہوش سے سنا جائے تو پتوں اور کلیوں کی سرسراہٹ، پھولوں کی مسکراہٹ، پرندوں اور چڑیوں کی چہچہاہٹ میں ”اللہ،اللہ“ کی آواز آتی ہے۔
اللہ جل شانہ کے اسماءِ حسنٰی:دوسری یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ جل شانہ کے بہت سے بہتر نام ہیں، بلکہ تمام بہترین نام اسی کے ہیں، اسی کو فرمایا: ﴿وللّٰہ الأسماء الحسنٰی﴾․(الأعراف)
حدیث میں اس اجمال کی تفصیل کرتے ہوئے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حق تعالیٰ کے اسماءِ حسنٰی کی تعداد ننانوے ہے، جو شخص ایمان اور عقیدت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس کے ننانوے نام محفوظ کرلے یا ان کے ذریعہ دعا کرے یا ان کے ذریعہ اپنے رب کو یاد کرے یاان کے معانی جان کر عمل کرے تو وہ جنت میں جائے گا۔ لیکن یہاں علماء محدثین فرماتے ہیں کہ اس تعبیر سے اللہ جل شانہ کے اسماءِ حسنٰی کی تکثیر بیان کرنا مقصودہے، تحدید نہیں،ورنہ ان ننانوے اسماء ِحسنٰی کے علاوہ بھی اللہ جل شانہ کے ایسے بہت سے نام ہیں جن کا ذکر کلام اللہ اور احادیث ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں، البتہ ننانوے کا جو عدد ذکر کیا گیا اس کا مقصد یہ ہے کہ حدیث پاک میں اسماءِ حسنٰی کو یاد کرنے والے کے لیے جنت کی جو فضیلت ہے وہ ان ہی ننانوے ناموں کے ساتھ مخصوص ہے۔ (مظاہر حق جدید)اور بعض سلف سے منقول ہے کہ جس نے ”اللّٰہم “ سے دعا مانگی اس نے گویا تمام ہی اسماءِ حسنٰی کے ذریعہ دعا مانگی۔(مظاہر حق جدید)
پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ جل شانہ کے جتنے بھی اسماءِ حسنٰی ہیں وہ سب کے سب اس کی الوہیت وربوبیت اور شانِ عظمت ورفعت، قدرت و قوت، نصرت وحفاظت،محبت وہدایت،شفقت وسخاوت وغیرہ پر دلالت کرتے ہیں، ان تمام اسماءِ حسنٰی میں لفظ اللہ اسمِ ذات اور باقی تمام اسماءِ صفات ہیں، جیسا کہ خود قرآن پاک کے ارشاد سے پتہ چلتا ہے ،فرمایا: وہ اللہ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ،اسے تمام کھلی چھپی باتوں کا علم ہے، وہی رحمٰن ورحیم ہے۔(الحشر) یہاں اسماءِ حسنٰی میں لفظ اللہ کو اسم ذات قرار دیا اور موصوف بنایا اور دوسرے اسماءِ حسنٰی کو صفت بنایا ہے، پھر عجیب بات یہ ہے کہ اس کی عظمت ِشان اس کے ہر ہر عظیم الشان نام سے بھی ثابت ہوتی ہے۔
اللہ جل شانہ کی رفعت
ظاہر ہے کہ ذات خدا وندی کو ”اللہ“ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ وہ نہایت ہی اعلیٰ وارفع اور بلند وبالا ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات اتنی بلند ہیں کہ پستی کا امکان ہی نہیں ، وہ عجز وفنا سے بلند،ضعف واضمحلال سے بلند، فقر ومحتاجی سے بلند ،سونے اور اونگھنے سے بلند، کمزوری اور سستی سے بلند، ہرقسم کے نقص وعیب اور وہم وگمان سے بلند ہے، اس کی بلندی کے سامنے تمام بلندیاں ہیچ ہیں ، اس کے علم کے سامنے سب علوم جہالت ، اس کی سماعت کے سامنے سب کی سماعتیں بہرا پن، اس کی بصارت کے سامنے سب کی بصارتیں اندھا پن، اس کی فصاحت کے سامنے سب کی فصاحتیں گونگا پن، اس کے وجود کے سامنے سب کا وجود کالعدم اور اس کی بقا کے سامنے سب کی بقا فنا۔ وہ اس قدر بلند وبالا ہے کہ عظمتوں کی معراج اور بلندیوں کی انتہا اسی کے لیے ہے۔
لفظ ”اللہ“ حق تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے
یہی وجہ ہے کہ جس طرح اللہ جل شانہ کی ذات وصفات بلند وبالا ہیں، ان میں اس کا کوئی ثانی اور شریک نہیں، اسی طرح اس کا اسم ذات بھی بلند وبالا ہے ، اس میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں ، اس لیے علماء نے فرمایا کہ لفظ”اللہ“ حق تعالیٰ شانہ کے ساتھ خاص ہے، لہٰذا لفظ ” اللہ“ سے حق تعالیٰ ہی کو موسوم کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ کسی کو نہیں، چناں چہ ارشاد ربانی ہے:کیا کوئی اور ہے؟ جو اللہ کے نام سے موسوم ہو۔(سورئہ مریم) اس کی ایک تفسیر یہی منقول ہے ،اسی لیے اس مبارک نام کا نہ تثنیہ ہے اور نہ جمع۔(قاموس الفقہ) لفظ اللہ کی ایک زبردست خصوصیت یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں لفظ”اللہ“ تقریبا دوہزار نوسو چالیس مرتبہ آیا ہے۔(حکایتوں کا گلدستہ) حتیٰ کہ جمہور اہل علم نے تو لفظ”اللہ“ ہی کو اسم اعظم قرار دیا ہے۔ (مرقاة) لیکن قطب ربانی، محبوبِ سبحانی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر لفظ”اللہ“ زبان سے اس حال میں ادا کیا جائے کہ دل میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کچھ نہ ہو ، تب لفظ ”اللہ“ اسم اعظم ہے۔(مرقاة) اور ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ دل اگر غیر سے اور پیٹ حرام سے خالی ہو تو پھر اللہ جل شانہ کا ہر نام ”اسم اعظم“ ہے۔لفظ”اللہ“ تو ایسا بابرکت نام ہے کہ اگر خدانخواستہ غفلت کے ساتھ لیا جائے تب بھی برکت سے خالی نہیں، پھر عظمت کے ساتھ لینے کی کیا فضیلت ہوگی؟
اللہ جل شانہ کا مقدس نام۔ کائنات کی روح
اللہ جل جلالہ کا مقدس نام تو اس وقت بھی تھا، جب کائنات میں کچھ نہ تھا اور اس وقت بھی ہوگا جب کائنات میں کچھ بھی باقی نہ رہے گا، اللہ جل جلالہ کا مقدس نام ہی کائنات کی اصل روح اور جان ہے، جب تک کسی ایک کی زبان پر بھی یہ مقدس نام جاری رہے گا اور جس وقت کوئی زبان بھی ”اللہ،اللہ“ کا ورد کرنے والی باقی نہ رہے گی اس وقت بساطِ عالم کو لپیٹ دیا جائے گا، آسمان کی قندیلیں بجھادی جائیں گی، دریاوٴں اور سمندروں کا پانی خشک ہوجائے گا، نظامِ عالم درہم برہم ہوجائے گا۔(مشکوٰة) بس ثابت ہوگیا کہ اللہ جل شانہ کی ذات جیسے عظیم ہے اس کا مقدس نام بھی اسی طرح عظیم ہے اور عظمت سے اس کا مقدس نام لینے والا بھی عظیم ہے۔
حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اللہ رب العزت کا نام اتنا عظمت والا ہے کہ اگر ہم ہزار بار بھی مشک اور عنبر سے اپنی زبان دھو کر اس کا مقدس نام لیں تو اس کے تقدس کا حق ادا نہیں کرسکتے، لیکن یہ اس کا انعام اور احسان ہے کہ اس نے اپنا مقدس اورعظیم نام ہماری حقیر زبان پر بآسانی جاری فرمادیا، اب جو اس پاک نام کو وردِ زبان رکھے گا اس کی زبان اور جسم دونوں پاک ہوجائیں گے۔حق تعالیٰ ہمیں اپنی معرفت اور اپنے نام کی عظمت نصیب فرمائے۔آمین!