دینی مدارس میں سالانہ امتحان کے بعد شعبان اور رمضان دومہینے کی تعطیلات کے بعد7 شوال سے نئے تعلیمی سال کے لیے باقاعدہ داخلوں کا آغاز ہو جاتا ہے، جامعہ فاروقیہ کراچی میں بھی الحمدلله اس سال 7شوال سے قدیم وجدید طلباء کے داخلوں کا آغاز ہو گیا، جامعہ فاروقیہ میں جدید طلباء کے داخلے کے لیے سابقہ وفاقی درجے میں جید جداً ہونا شرط ہے۔
شیخ المشائح حضرت اقدس مولانا سلیم الله خان صاحب نوّرالله مرقدہ کے اخلاص ومحنت کی برکت سے جامعہ فاروقیہ کی طرف قدیم وجدید طلباء کا رجوع اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ آغاز داخلہ کے تین، چار دن بعد ہی درس گاہوں اور دارالاقامہ کی گنجائش سے زیادہ طلباء کا داخلہ مکمل ہوجاتا اورسوائے دو تین درجات کے سب درجات میں داخلہ بند ہو جاتا ہے۔
7/شوال بروز پیر آغاز داخلہ سے قبل افتتاحی اجلاس ہوا، جس میں حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب نے اساتذہ کرام کو نصائح اور ہدایات دیں:
فرمایا: مدرسے اور دیگر عصری اداروں میں بہت بڑا فرق ہے، دیگر عصری اداروں کی بنیاد ہی سازش ہے، ایک سازش کے تحت ان اداروں کو قائم کیا گیا کہ رنگ ونسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی، پاکستانی ہوں، لیکن ذہنی اعتبار سے ان کے غلام ہوں، چناں چہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج وسائل سے بھرپور ملک انہی غلامانہ ذہنیت کے افراد کی وجہ سے برباد ہے۔
ہمارے اکابر نے مدارس قائم کیے اور شروع سے آج تک ان مدارس کو مخالفتوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، کتنی افسوس ناک بات ہے کہ جو ملک اسلام کی بنیا دپربنایا گیا،”لاإلہ إلا الله“ کی بنیا دپر بنایا گیا، لیکن آج تک اس ملک میں نہ مسجد محفوظ ہے، نہ مدرسہ محفوظ ہے، نہ ختم نبوت نہ ناموس صحابہ، ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کب کچھ نہ ہو جائے۔
پاکستان1947ء میں وجود میں آیا اور صرف چھ سال بعد 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں دس ہزار مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔
اس قسم کی صورت حال میں ہمارے اکابر نے مدارس قائم کیے، آج ہم جتنا الله تعالیٰ کا شکر ادا کریں کم ہے، ہمار ے اکابر نے مدارس قائم کیے جو روزانہ کی بنیاد پر ترقی کر رہے ہیں۔
آج الحمدلله ہزاروں طلباء مدارس میں آتے ہیں، عوام مدارس سے محبت کرتے ہیں، مدار س کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، حکومتوں کی طرف سے تعاون تودورکی بات، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ مدارس کو تنگ کیا جائے، محدود کیا جائے۔
عصری تعلیمی اداروں میں 74 سال میں جو پیداہوئے وہ ہم سب کے سامنے ہیں انہوں نے ملک کے ساتھ جو کھلواڑ کیا، تباہی مچائی، پاکستان کے وجود میں آنے کے کچھ عرصے بعد ہی پاکستان کو توڑ دیا گیا، بنگلہ دیش الگ ہو گیا۔
بنگال برصغیر کا امیر ترین صوبہ تھا، انگریر نے بھی سب سے پہلا ہدف بنگال کو بنایا اور جب انگریز جانے لگا تو سب سے غریب صوبہ بنگال تھا، بالکل نچوڑ دیا۔
ہمارے والدصاحب نوّرالله مرقدہ فرماتے تھے کہ ایک ریاست بہاولپور پورے برصغیر کی گندم کی ضرورت پورا کرنے کے لیے کافی تھی اور آج ہمارے ملک کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے، کبھی آٹے کا مسئلہ ہے، کبھی چینی کا مسئلہ ہے، مہنگائی کا طوفان ہے۔
ہمار ے اکابر نے مدرسہ قائم کیا اور الحمدلله اس کے فضلاء پوری دنیا میں ہر جگہ کام کر رہے ہیں، گزارش یہ ہے کہ ہم بھی انہیں کے نام لیوا ہیں، ہم بھی اسی کاز اور نظریے پر ہیں، الله تعالیٰ نے ہمیں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کا موقع عنایت فرمایا ہے، ہمارے بزرگوں نے تو بڑے مشکل حالات میں کام کیا، آج کازمانہ تو سہولیات کا ہے، یہ جامعہ فاروقیہ جہاں ہم بیٹھے ہیں ، 9 کمرے تھے ،5 نمبر کمرہ حضرت کی درس گاہ بھی تھی، دفتر بھی تھا اورقیام گاہ بھی تھی ۔
جامعہ فاروقیہ جب قائم ہوا تو ابتدا میں یہ نو کمرے تھے، حضرت دارالعلوم کراچی میں پڑھاتے تھے اور مفتی محمد شفیع صاحب نے بڑی مشکل سے اجازت دی اور طویل رخصت کی بنیاد پر دی اور وہ طویل رخصت تنخواہ کے ساتھ تھی ،حضرت کے گھر والے، بچے دارالعلوم ہی میں رہائش پذیر تھے او رجمعرات کو حضرت یہاں سے دارالعلوم لے جاتے تھے۔
ہمارے حضرت نوّرالله مرقدہ اکابر کے تربیت یافتہ نظریاتی انسان تھے، نظریاتی لوگوں کے سامنے مشکلات کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، غیر مسلموں میں بھی جو نظریاتی لوگ ہوتے ہیں وہ ہر طرح کی سہولیات چھوڑ کر مشکلات میں زندگی گزارتے ہیں، برطانیہ کے لوگ افریقہ کے جنگلات میں جہاں مختلف بیماریاں، بخار، آدم خور جانور ہوتے ہیں، لیکن وہاں پڑے ہوتے ہیں او رمقصد عیسائیت کو پھیلانا ہوتا ہے۔ ہمارے حضرت نوّرالله مرقدہ نظریاتی انسان تھے 18, 16,14 اسباق خود پڑھاتے تھے، طلباء آتے، حضرت فرماتے ہمارے ہاں کمرے نہیں ہیں، کھانا نہیں ہے۔ طلباء کہتے ہم کو صرف سبق چاہیے۔
الحمدلله جامعہ فاروقیہ نے تیز رفتار ترقی کی،جب جامعہ فاروقیہ بنا تو لوگ کہتے تھے کہ ایک طرف دارالعلوم جیسا ادارہ او رمفتی محمد شفیع صاحب جیسی شخصیت اور دوسری طرف بنوری ٹاؤن جیسا ادارہ اور حضرت مولانا محمدیوسف بنوری جیسی شخصیت، ان کے ہوتے ہوئے کوئی تیسرا مدرسہ کیسے قائم ہوسکتا ہے، ترقی کرسکتا ہے؟! لیکن الحمدلله جامعہ فاروقیہ نے ترقی کی اورکر رہا ہے۔ الله تعالیٰ نے ہمیں یہ موقع اور نعمت عطا کی ہے، ہم اس نعمت کا شکر ادا کریں، جب نعمت کی قدر کی جاتی ہے تو الله تعالیٰ اس نعمت میں اضافہ فرماتے ہیں، ہم خوب محنت کریں، اپنے آپ کو ملازم نہ سمجھیں، بلکہ ہروقت کام کریں، اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کریں۔
ایک دن ہم بھی یہاں طالب علم بن کر آئے تھے، آج اگر ہم چار حرف جانتے ہیں تو یہ اس ادارے کی وجہ سے ہے۔ میں نے گزشتہ دنوں بلوچستان کا سفرکیا، کئی جگہ میں نے یہ بیان کیا کہ ادارے کے ابتدائی دور میں اس پشتون بیلٹ سے طلباء آتے تھے او رجامعہ میں غیر ملکی طلباء برما، بنگلہ دیش وغیرہ کے طلبا بھی ہوتے تھے، جن کا آپس میں آئے روز کوئی نہ کوئی مسئلہ چل رہا ہوتا،لیکن آج الحمدلله بلوچستان کے جو طلباء آتے ہیں وہ مہذب ہیں اور یہاں سے جاکر خدمات سرانجام دے رہے ہیں اورعظیم الشان خدمات ہیں۔
بلوچ بیلٹ میں آپ چلے جائیں اور بلوچ بیلٹ یہ وہ علاقہ ہے جہاں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بمباری کی گئی، لوگ صوبہ چھوڑ کر چلے گئے اورخوف ناک سرداری نظام آج تک چل رہا ہے، اگر کوئی پڑھنے کے لیے نکلتا تو اس کا انتظار کیا جاتا ا ور واپسی پر قتل کر دیا جاتا ، لوگوں کو جاہل رکھا جاتا تاکہ سرداروں کی سرداری قائم رہے۔
لیکن الحمدلله آج بلوچ بیلٹ میں بھی مدارس، مساجد قائم ہیں، اس وقت بھی بلوچستان کے کئی علاقوں میں ا سکول کھولنے کی اجازت نہیں، فوج پولیس کو داخلے کی اجازت نہیں، لیکن مدرسہ وہاں بھی زندہ ہے، مکتب کام کر رہے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ ہم طلباء پر خوب محنت کریں، طلباء سے اولاد کی طرح محبت کریں، جیسے ہم اپنی اولاد کی تربیت کے حوالے سے فکر مند ہوتے ہیں، اسی طرح طلباء کی تربیت کے حوالے سے فکر مند ہوں، درس گاہ میں سبق کے ساتھ ساتھ تربیت کے حوالے سے گفت گو کریں اورایک ایک طالب علم کی تربیت اخلاق کے حوالے سے فکر مند ہوں۔