اسمارٹ فون کی وجہ سے عوام و خواص،خواہ مرد ہوں یا خواتین ہوں،مختلف قسم کے اخلاقِ رذیلہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کو اپنی اصلاح کی فکر بھی نہیں ہوتی ۔
غیبت کا بازار گرم
میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے دوستی لگائیں،اتنی دیر اللہ سے بات چیت کریں، کیا فون پر طویل گفت گو میں کوئی غیبت نہیں کرتا؟ لمبی گفت گو میں غیبت سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:جہاں کہیں دو عورتوں نے باتیں شروع کیں، تھوڑی دیر بعد غیبت شروع ہوجائے گی، الا ماشاء اللہ۔
اور یہ بھی حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ کی بات ہے،فرمایا کہ: اجی!اپنے بکھیڑ ے تھوڑے ہیں ،جو ہم دوسروں کے بکھیڑوں میں پڑیں؟
جب پہلے یہ پیکج نہیں تھے تو رشتہ داروں اور دوستوں سے کیسے بات کرتے تھے؟اب بھی ویسے ہی کرو،پانچ منٹ دس منٹ کرلو۔ کئی گھنٹے موبائل پیکج پر فضول باتیں کرنا کیا یہ گناہ نہیں ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ پوچھیں گے نہیں کہ تم نے وقت کہاں استعمال کیا؟ میں یہ بات ایسے ہی نہیں کہہ رہا، لوگ چار چار پانچ پانچ گھنٹے مفت پیکج پر باتیں کر رہے ہیں۔
تجسُّس اور پروپیگنڈا کرکے بدنام کرنا
آج کل ایک دوسرے کے راز کے پیچھے پڑتے ہیں، تجسس کرتے ہیں، غلطیوں کی ٹوہ لگاتے ہیں اور بعض بے حیا موبائل ہیک کر کے تمام ڈیٹا چوری کرلیتے ہیں، پھر عزت کی دھجیاں اُڑا کر مزے لیتے ہیں، حالاں کہ حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کعبہ شریف کو دیکھ کر فرمایا تھا: اے کعبہ!تیری عزت سر آنکھوں پر ہے، لیکن مومن کی آبرو تجھ سے بڑھ کر ہے۔ بجائے اس کے کہ دوسروں کے عیبوں پر پردہ رکھیں ان کو اور پھیلاتے ہیں، حالاں کہ دوسروں کے عیب کو چھپانے کا حکم ہے۔ موبائل کے ذریعے پردہ دری، پروپیگنڈہ، جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانا بھی عام ہوتا جا رہا ہے۔ گناہوں کی تصویر بنا کر ستاتے اور ذلیل کرتے ہیں،حالاں کہ عیب دیکھنا بھی منع اور عیب ظاہر کرنا بھی گناہ ہے۔
کسی کو ذلیل کرنے پر وعید
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرورِ عالم رسالت مآب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو بندہ دنیا میں کسی بندے کے عیب چھپائے گا، قیامت کے دن اللہ اس کے عیب چھپائے گا۔ تمام مخلوق اللہ کی عیال ہے، اور اللہ کو اپنے بندوں کی عیب جوئی، ان کو بدنام کرنا سخت ناپسند ہے اتنا ناپسند ہے کہ اس کو زنا سے زیادہ اشد قرار دے دیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غیبت زنا سے بھی زیادہ شدید ہے۔ ہمارے حضرت والا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمة اللہ علیہ اس کی مثال دیا کرتے تھے کہ دیکھو!اپنا بیٹا کتنا ہی نالائق ہو اور باپ اسے ڈانٹتا بھی ہو، مگر باپ یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میرے بیٹے پر محلہ میں کوئی دوسرا تبصرہ کرے،اس سے اس کا دل دکھتا ہے،اسی طرح اللہ تعالیٰ کو حق ہے اپنے بندوں کو ڈانٹ لگانے کا، مگر تم کیوں اس پر تبصرہ کرتے ہو؟ اگر تم واقعی مخلص ہو تو اسے ادب و اکرام سے سمجھاؤ، اس کے لیے دعائیں مانگو،روو کہ اے اللہ!وہ بے نمازی ہے، اسے نمازی بنا دے، کچھ آنسو گراؤ، پھر دیکھو!تمہارے دل میں کیسا نور بڑھتا ہے!
واٹس اپ گروپ کی وجہ سے جھگڑے
اسمارٹ فون پر خاندانوں اور دوستوں کے واٹس اپ گروپ بنے ہوئے ہیں، جس میں فضول بحث ومباحثوں کے ساتھ غیبت،بہتان تراشی اور تنقید کا بازار گرم رہتا ہے،اس کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔فضول باتوں میں وقت الگ برباد کرتے ہیں اور تلخیاں الگ ہوتی ہیں۔ساس بہو میں کچھ جھگڑا ہوا اور بہو ناراض ہو کر میکے چلی گئی تو نیٹ کے گروپ میں غیبت، برائی اور الزامات لگا کر مزید دوریاں پیدا کرتے ہیں۔ خاندان کے جھگڑے، میاں بیوی، ساس بہو کے جھگڑے ٹیپ کر لیتے ہیں، پھر اس میں سے اپنی غلط باتوں کو نکال کر دوسروں کی غلطیوں کو پھیلاتے ہیں، صلح کے بجا ئے آگ لگا کر طلاق کرا دیتے ہیں، کیوں کہ جوڑنے والے کم اور توڑنے والے اور تماشا دیکھ کر خوش ہونے والے زیادہ ہوتے ہیں۔
بلیک میلنگ کرنا
موبائل کے ذریعے بلیک میل کرنے کا سلسلہ بھی عام ہے، لوگوں کی بددعائیں لیتے ہیں، عزت والے لوگ بدنام ہو جاتے ہیں اور یہ لوگ خوشیاں مناتے ہیں کہ ہم نے بڑا کارنامہ کرلیا۔ اسی طرح بعض لوگ علماء اور بزرگانِ دین کی ویب سائٹ ہیک کرکے اس پر غلط چیزیں ڈال کر ان کو بدنام کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لیتے ہیں۔
موبائل کے استعمال کی وجہ سے اخلاق خراب
موبائل کی فضولیات کے ساتھ نہ شوہر کی اطاعت ہو سکتی ہے،نہ ماں باپ،ساس سسر کی خدمت ہوسکتی ہے،نہ اولاد کی تربیت ہو سکتی ہے، خاتون جب فون یا نیٹ کے ذریعہ پیکج پر بات کرے گی اور اس دوران جب بچہ رو ئے گا،اسے بھوک لگے گی یا پیشاب پاخانہ کردے گا تو خاتون اُسے برا بھلا کہے گی، مارے گی،کیوں کہ فون تو وہ بند نہیں کرے گی،معصوم بچے کی پٹائی کرنے سے کیا اللہ تعالیٰ راضی ہو گا؟
ریا اور حُبِ جاہ کا مرض
جو لوگ اسمارٹ فون رکھتے ہیں،اس سے فیشن پرستی میں بھی مبتلا ہونے کا خدشہ ہے، کہتے ہیں کہ فلاں کے پاس ایسے جدید فیشن والا موبائل ہے تو میرے پاس بھی ہونا چاہیے۔ احساسِ کمتری، ریا، دکھلاوا، شرکِ خفی میں مبتلا ہو رہے ہیں ،مہنگا موبائل خریدنے میں جاہ بھی چھپی ہوئی ہے کہ شہرت ملے اور لوگ تعریف کریں کہ میرے پاس قیمتی موبائل ہے، نئے نئے ڈیزائن کے مہنگے موبائل خرید لیتے ہیں، پھر دوسروں کو دکھانے کے لیے ان کے بات کرنے کا انداز بدل جاتا ہے، بات بات پر جان بوجھ کر موبائل دکھاتے ہیں کہ مرے پاس اتنا مہنگا موبائل ہے۔ کیا یہ ریا نہیں ہے؟اب جن کے پاس بڑا موبائل نہیں ہو گا تو اگر وہ سمجھ دار ہوں گے تو خوش ہوں گے کہ اس بلا سے اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا اور اگر عقل مند نہیں ہوں گے تو احساسِ کمتری کا شکار ہوجائیں گے۔
ناشکری اور حرص کا مرض
اسمارٹ فون سے ناشکری اور حرص کا بھی مرض پیدا ہوتا ہے ، کیسے؟ خواتین ویب کیمرہ یا واٹس اپ پر اپنے رشتے داروں کے گھر کی مختلف اشیاء مثلاً پردے،کراکری،کھلونے،کپڑے وغیرہ دیکھ کر ناشکری کرتی ہیں کہ: ہمارے پاس یہ سب کیوں نہیں ہے ؟ اسی طرح مختلف ملکوں کے رشتے داروں سے رابطہ ہوتا ہے تو ان سے کہتے ہیں کہ اپنا گھر دکھاؤ، بیٹھنے کی جگہ دکھاؤ، کراکری، کارپٹ وغیرہ دکھاؤ،جو چیزیں چھپا کر رکھنے کی ہیں، وہ سب لائیو دکھا رہے ہیں یا ویڈیو بنا کر بھیج رہے ہیں۔ جن لوگوں کے پاس یہ چیزیں نہیں ہوں گی ان کو حسرت ہوگی، وہ ناشکری کے گناہ میں مبتلا ہوں گے اور دکھانے والا ریاکے گناہ میں مبتلا ہوگا۔ یہ سب دکھانے کامقصد کیا ہوتا ہے؟ یہی کہ سب پوچھیں کہ یہ چیز کتنے کی لی ہے؟ اور ہمارا رعب جمے کہ اچھا! اتنی مہنگی لی ہے۔ اسی طرح اپنی بچیوں کے جہیز کا سامان، زیورات اور کپڑے دوسروں کو موبائل پر دکھانے سے نظر بھی لگتی ہے،پھر روتے ہیں کہ نظر لگ گئی۔
گنجائش سے مہنگی چیزیں خریدنے کے لیے قرض لینا
دوسری بات یہ ہے کہ جب یہاں اس کو خریدنے کی استطاعت نہیں ہوگی تو سود والے کریڈٹ کارڈ سے قرض لیا جائے گا اور قرضوں میں ڈوبتے چلے جائیں گے، ہر وقت مقروض ہیں، ہر وقت دوسروں کی طرف دیکھ رہے ہیں، گھر کی خواتین کی فرمائشیں بھی کم نہیں ہوتیں، جیسے کسی بڑے اسٹور یا شاپنگ مال میں جو جاتا ہے تو یا تو ناشکری کرنے لگتا ہے یا حیثیت سے زیادہ خریداری کرتا ہے۔ اب جب باہر ملک کی چیزیں دیکھیں گے کہ وہاں سردی کے کپڑے وغیرہ اتنے اچھے ہیں تو فوراً یہاں سے کہا جاتا ہے کہ ہم آپ کو پیسے بھیج رہے ہیں،آپ یہ کپڑے خرید کر کسی کے ساتھ یہاں بھجوادیں۔ دن بدن اتنے خرچے بڑھیں گے کہ مقروض ہو کر منھ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ ایسے لوگوں کا پیٹ کبھی نہیں بھرے گا، کیوں کہ نہ موجودہ نعمت پر شکر ہوتا ہے، نہ قناعت ہوتی ہے۔دنیا میں اپنے سے کم والوں کو نہیں دیکھیں گے اور دین میں اپنے سے اوپر والوں کو نہیں دیکھیں گے،اللہ تعالیٰ سے کسی حالت میں راضی نہیں ہوں گے۔ناشکری نے کہاں سے کہاں تک پہنچادیا۔