نکاح کے متعلق دین اسلام کی راہ نمائی کا عمل شادی بیاہ کے احکامات سے شروع نہیں ہوتا،بلکہ انسان کی تخلیق اور پیدا کرنے کے تذکرے سے شروع ہوتا ہے ۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت سورة نساء میں ارشاد فرماتے ہیں:﴿یَآ اَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّّخَلَقَ مِنَْا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَآء ً وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآء َلُوْنَ بِہ وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اللہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا﴾
․
اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں، اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو، بے شک اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔
آیت مبارکہ میں اللہ پاک کی قدرت اور طاقت کا بیان ہے کہ وہ ایسی ذات ہے جس نے انسانی معاشرے کو ایک انوکھے انداز میں ترتیب دیا ،آدم علیہ السلام کی ایک ذات سے دنیا کی ویرانی کو آبادی میں بدل دیا اور بغیر کسی خارجی مدد کے انسان ہی کو اس کا ذریعہ بنایا،اس طرح انسان ایک ذات سے ایک معاشرے میں بدل گیا ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے کچھ ایسی مخلوقات پیدا فرمائیں جن کو جوڑوں کی ضرورت نہیں ،وہ مخلوق مٹی ہی سے پیدا ہوجاتی ہے جیسے کیڑے مکوڑے ۔ کچھ ایسی مخلوق ہے جو مٹی سے بن کر جوڑوں میں بدل جاتی ہے، جیسے مکھی وغیرہ۔ ان تمام مخلوقات میں انسان ایسی مخلوق ہے جو ایک جوڑے کے ملاپ سے ہی بنتی چلی جاتی ہے ۔
انسانی تخلیق اور طبعی میلان
اللہ نے انسان کو پیدا فرماکر اسے دو جنسوں(مرد عورت) میں تقسیم فرمایا اور دونوں میں ایک دوسرے کے لیے طبعی میلان پیدا کیا،تاکہ یہ میلان دونوں کو ایک دوسرے سے قریب کردے اور یہ قربت نسل انسانی کی افزائش کا ذریعہ بن سکے ۔مرد عورت دونوں ایک دوسرے کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتے، اللہ پاک نے ان میں ایسا فطری جذبہ رکھا ہے جو ان کو ایک ہونے پر مجبور کرتا ہے اور یہ جوڑا آپ ہی آپ خاندان،معاشرہ اور آبادی کا ایک آسان ذریعہ بن جاتا ہے ۔یہ فطری میلان کسی مخصوص خطے یا کسی خاص مخلوق میں پیدا نہیں کیا، بلکہ تمام مخلوقات میں پیدا فرمایا جن میں انبیاء جیسی مقدس ہستیاں ،صحابہ،تابعین،ائمہ،صوفیاء ،بزرگ،علماء ،مسلم غیر مسلم ، چوپائے، چرند پرند ،درندے اور سمندری مخلوقات سب کے سب شامل ہیں ۔
مرد عورت کا ایک دوسرے کی جانب میلان کوئی اچھنبے کی بات نہیں، بلکہ عین فطری عمل ہے ،اسلام نے اس معاملے میں یکسر پابندی نہیں لگائی۔ اگر ایسا ہوتا تو اسلام اور فطرت کا آپس میں تضادہوجاتا ،حالاں کہ اسلام مکمل فطری تعلیمات پر مشتمل دین ہے اور ان تمام امور کی تائید کرتا ہے جو فطرت کو مد نظر رکھتے ہوں اور اپنے ماننے والوں سے کوئی ایسا مطالبہ نہیں کرتا جس سے فطری ضروریات کو کچلنا لازم آتا ہو۔
یقینا فطری جذبات کو مسترد کرنا کبھی خیر کا ذریعہ نہیں بن سکتا، جب کبھی ایسی کوشش کی گئی تو اس کا بدترین ردعمل دیکھنے میں آیا ۔ دنیا میں بہت سے ایسے نعرے اٹھے جنہوں نے مذہب کے نام پراس ضرورت کا انکار کیا، جن میں عیسائیت کی رہبانیت سر فہرست ہے، جنہوں نے مجاہدے اور نفسی قوتوں کو زیر کرنے کے نام پرفطری ضروریات کا انکار کردیا ، جس کا نتیجہ ان کے دین و دنیا کی خرابی اور فساد کی صورت میں ظاہر ہوا۔
اسلام نے شرم و حیا اور پاک دامنی کو انسان کے لیے زیور قرار دیا، یہاں تک کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”إذا لم تستحي فاصنع ما شئت “ترجمہ:”جب تم میں حیا باقی نہ رہے تو جو چاہے کرو“۔اس حیا جیسی قیمتی متاع کے حصول کے لیے شریعت اسلامیہ نے ”نکاح“جیسا مبارک تصور پیش کیا ،جس کے ذریعہ حیا اور پاک دامنی کے حصول کو ممکن بنایا جاسکتا ہے اور نکاح کے اس عمل میں شریک افراد پاکیزہ زندگی بسر کرنے کے اہل بن جاتے ہیں ۔
نکاح اور بدکاری کا فرق
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تقاضے کو کس طرح پورا کیا جائے ؟ ایک طریقہ تو یہ تھا کہ ہر فرد کو آزادی دی جائے کہ وہ اپنے لیے جب چاہے جیسا انتخاب کر کے باہمی رضامندی سے اپنی اس ضرورت کو پورا کرے ۔ شریعت اس طریقہ کار کو سختی کے ساتھ رد کرتی ہے اور اس عمل کر ایک بدترین فعل یعنی ”زنا“کا نام دیتی ہے ۔ زنا میں چند گھڑیوں کی مشغولیت درحقیقت خالق کائنات کے ان فطری اصولوں سے بغاوت ہے جس کے لیے نکاح کو مقرر کیا گیا ہے ، جس کے ذریعے انسان حلال اور جائز طریقے سے دنیا میں آباد ہوتے ہیں، اسی لیے بدکاری پر شریعت بہت سخت رویہ اپناتی ہے اور بدکاروں کے لیے عبرت ناک سزائیں تجویز کرتی ہے ۔
اس کے علاوہ بدکاری اپنی اصل میں ایک غیر ذمہ دارانہ فعل ہے ،جس میں مرد عورت ایک دوسرے کو عارضی طور پر قبول کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے لطف اندوز ہو کر دوبارہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنا گوارا نہیں کرتے ، جس کے نتیجے میں نہ مرد عورت کی کسی ذمہ داری کو قبول کرتا ہے اور نہ عورت مرد کے لیے کوئی خدمت کا جذبہ رکھتی ہے۔ اس طرح یہ دونوں کائنات کے فطری اصولوں کی خلاف ورزی کے مجرم بن جاتے ہیں اور ان کا یہ فعل دنیا اور اس میں بسے انسانوں کے لیے ایک فساد کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔
جب کہ شریعت نے اس ملاپ کو صرف جنسی تسکین تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے ایک مکمل اور پائیدار شکل دے کر دونوں کو اس معاہدے کا پابند بنایا،جس میں مرد کے ذمہ کسب معاش،نان و نفقہ،سکونت اور مناسب لباس کا انتظام کرنا ہے اور عورت کے ذمہ حمل،رضاعت اور بچے کو اپنی آغوش میں تربیت دینا لازمی قرار دیا۔ نیز انہیں پابند کیا کہ دونوں نے مل جل کر زندگی کے تمام معاملات دکھ درد، غمی وخوشی، عسر ویسر، شادابی وتابانی اور سرد و گرم حالات کا سامنا کرنا ہے ، دونوں اپنے فیصلوں میں برابر کے شریک رہیں گے اور ان کا ہر فیصلہ دونوں کے حق میں ہوگا۔ قرآن کریم نے زوجین کے اس تعلق کو ایک عمدہ مثال سے سمجھایا ہے:﴿ھن لباس لکم وانتم لباس لھن﴾ ترجمہ:”وہ تمھارے لیے اور تم ان کے لیے لباس کا درجہ رکھتے ہو“۔(سورہ بقرہ)جس قدر لباس جسم کے لیے ضروری ہے اسی طرح میاں بیوی کا ساتھ ایک دوسرے کے لیے ضروری ہے، تاکہ وہ مل کر ایک صالح معاشرے کی بنیاد رکھ سکیں ۔
لہٰذا شریعت نے زنا کے مکروہ اور فسادی طریقہ کار کو یکسر مسترد کردیا اور ”نکاح“کا آفاقی اور آسان تصور پیش کیا ، جس میں باہمی رضامندی ، فریقین کی سرپرستی اور حقوق کی منصفانہ تقسیم کے تحت عورت کو رخصت کیا جاتا ہے۔ یہ اس قدر مبارک عمل ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام اس میں شریک رہے ،قرآن کریم انبیاء کی اس زندگی کو اس طرح بیان کرتا ہے:﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّن قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّیَّةً﴾ (الرعد:3)
ترجمہ:ہم آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا۔
چار اشیاء انبیاء کی مشترک سنت ہیں حیا خوش بو مسواکنکاح اور اس فعل کی نسبت اپنی مبارک ذات کی طرف کرتے ہوئے فرمایا:”النکاح من سنتي“
ترجمہ”نکاح میرا طریقہ ہے“۔ (مشکوٰة)
سو نکاح ایک معمولی عمل ہے اور نہ ہی فقط جنسی تسکین کا ایک ذریعہ، بلکہ یہ ایک عبادت کا درجہ رکھتا ہے، جس کا اثربراہ راست انسان کی روحانی،اخلاقی اور معاشرتی زندگی پر پڑتا ہے ۔آگے ان مختلف حوالوں سے نکاح کے فوائد ذکر کیے جاتے ہیں ۔
نکاح کے روحانی فوائد
آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے :”یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنْ اسْتَطَاعَ منکُم الْبَاء َةَ فَلْیَتَزَوَّجْ ، فَإِنَّہُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ،وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّہُ لَہُ وِجَاء ٌ“․(صحیح البخاری:5066و صحیح مسلم: 1400)
ترجمہ:اے نوجوانوں کی جماعت!تم میں سے جو کوئی استطاعت رکھتا ہو وہ ضرور شادی کرے، کیوں کہ یہ (شادی)نگاہوں کو بہت جھکانے والی اور شرم گاہ کی خوب حفاظت کرنے والی ہے اور جو شادی کی طاقت نہیں رکھتا وہ روزہ رکھے ، پس یہ اس کے لیے ڈھال ہوگا۔
حدیث مبارک میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم امت کے نوجوانوں سے مخاطب ہیں اور انہیں نکاح کی ترغیب دے رہے ہیں ، ساتھ ساتھ نکاح کے دو بڑے فوائد کا ذکر فرمایا نظر کی حفاظت شرم گاہ کی حفاظت جو کہ دونوں فساد کا بہت بڑا ذریعہ ہیں ۔ فحاشی کے تمام معاملات کا تانا بانا نظر سے شروع ہوکر بدکاری کی صورت میں مکمل ہوجاتا ہے ۔ دنیا بھر میں لڑکے لڑکیوں کی آنکھ مچولی بالآخر بدکاری پر منتج ہوجاتی ہے ، لیکن اگر نکاح کو بیچ میں لایا جائے تو فحاشی کا یہ جال سمٹتا چلا جاتا ہے اور فتنے کے ایک بہت بڑے باب پر تالا لگ جاتا ہے ۔
ایک موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میرے بعد میری امت کے مردوں کے عورتوں سے زیادہ کوئی فتنہ خطرناک نہیں ہوگا (مشکوٰة) یقینا ً اس فتنے سے بچنے کی بھی صورت نکاح کا عمل ہے، جس سے یہ فتنہ خود بہ خود دم توڑ دیتا ہے اورایمان کی سلامتی کا رستہ کھل جاتاہے ۔
فرمایا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے:”إذا تزوج العبد فقد استکمل نصف الدین“
ترجمہ:جب کوئی شخص نکاح کرتا ہے تو اس کا آدھا ایمان مکمل ہوجاتا ہے۔ (احیاء العلوم )ایک مسلمان کے لیے سب سے قیمتی شے ایمان کی دولت ہے اور نکاح اس دولت کی حفاظت کا بہترین ذریعہ ہے “۔
صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ انسان کا خارجی فساد کہیں اور نہیں، بلکہ انسان کے داخلی اعضاء میں مضمر ہے 1.. پیٹ 2.. شرم گاہ
ان میں پیٹ حرام خوری کا مرکز ہے ،دنیا بھر میں چپڑاسی سے لے کر عالمی ساہوکار تک سب اپنے پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لیے سود خوری،جوا،سٹہ،رشوت ستانی اورچوری کرتے ہیں ۔ جب کہ شرم گاہ ہر سو پھیلی فحاشی کا بڑا سبب ہے، جن میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ،اشتہاری منڈی، موبائل کی بھرمار، تصاویر کی آویزگی ،فحش مواد کی آسان اور سستی دست یابی سب کے سب بشر انسان میں موجود اس فطری تقاضے کو اشتعال میں بدلنے کی دوڑ دھوپ میں لگے ہوئے ہیں ۔ شریعت ان تمام ہتھکنڈوں سے قطع نظر ایک آسان اور سادے انداز میں نکاح کے فروغ پر زور دے کر ان تمام فتنوں کی آگ پر مٹی ڈال دیتی ہے ۔
نکاح فوری ضرورت اورسب کی ضرورت
نکاح کی ضرورت بلوغت کے بعد شروع ہوجاتی ہے اور انسانی بدن اس ضرورت کا اتنا ہی تقاضا رکھتا ہے جیسے ہوا،پانی اورغذا کا ۔ جس طرح ان بنیادی ضروریات کو موقوف رکھنا عقل کے خلاف ہے ،ٹھیک اسی طرح بالغ افراد کے لیے نکاح کو مؤخر کرنا بھی اتنا ہی کم عقلی کا فیصلہ ہے ۔ کوئی ایسا شخص جو مالی،بدنی اعتبار سے نکاح کے قابل ہو اور اس پر شہوانی قوت کا بھی غلبہ ہو ایسے شخص پرنکاح ”فرض“ہوجاتا ہے۔ امام غزالی احیاء العلوم میں فرماتے ہیں کہ نکاح ایک متقی پرہیز گار اور مناجات میں مصروف شخص کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی اور کے لیے ۔کیوں کہ فتنے کا شکار ہونے کی حیثیت سے دونوں برابر ہیں ۔ شیطان خناس جس کا کام :”یوسوس فی صدور الناس“ہے ،وہ ہمیشہ شیطانی خیالات کے ذریعے بہلاتا رہتا ہے۔اور ان خیالات سے نماز جیسی عبادت میں بھی مفر ممکن نہیں ۔
شیطانی وساوس اور اکابر کی احتیاط
امام احمد بن حنبل کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کی وفات کے دوسرے ہی روز نکاح فرمالیا تھا ، یقینا امام صاحب دل ودماغ کی غیر معمولی کیفیات کے حامل تھے، لیکن شیطانی وساوس سے بچاؤ کا سامان کرنا بہرحال ایک سنت عمل ہے ، جس کے نتیجے میں عبادات اور کمالات میں یکسوئی آجاتی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ عابد کی عبادت نکاح کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی ۔
نکاح سے متعلق غلط فہمی
ہمارے معاشرے میں جو لوگ دین کی معمولی سمجھ بوجھ اور اہل علم ہستیوں کا ساتھ رکھتے ہیں ، ان کی اکثریت نکاح کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ جاتی ہے اوروہ اپنے متعلقین میں اس مبارک کام کو زیادہ سے زیادہ رواج دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان کاوشوں کو دیکھ کر چند عقل کے کورے احباب کی طرف سے یہ پھبتی کسی جاتی ہے کہ”ان مولویوں کو نکاح کا بڑا شوق ہے“،سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کون سی وجہ ہے جس کے سبب یہ نکاح میں جلدی مچاتے ہیں اور آپ سکون سے بیٹھے رہتے ہیں ۔ یقینا نکاح کا مقصد اپنے دین ایمان کی حفاظت اور فتنوں سے بچنے کی کوشش ہے ،تو کیا آپ اس قیمتی سرمائے کو بچانے کی فکر نہیں رکھتے؟ اگر نہیں تو یہ بے حد افسوس اور دکھ کی بات ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ معاصی کا رواج بڑھتا جارہا ہے ، مرد و زن میں دوستیوں کی عادت عام ہو چکی ہے ، بے پردگی کا طوفان سرایت کرچکا ہے ، بازاروں میں اختلاط ،تعلیمی اداروں میں اختلاط، سفر میں اختلاط ،حضر میں اختلاط ،تفریحی مقامات بے پردگی کے مراکز اور جگہ جگہ بد نظری کے مواقع کا عام ہوجانا اور جرات کے ساتھ اپنے فسق و فجور کی روداد کا سنانا ۔ جب بے حیائی کا ماحول اس سطح کو پہنچ جائے تو حیا اور اس کے تقاضے کبھی بھی سمجھ نہیں آسکتے ، اسلام یقینا فطری ضروریات کے حق میں ہے لیکن جب فطرت ہی مسخ ہوجائے ،جب فکر و نظر ہی آلودہ ہوجائیں تو کہاں کی حیا ، کہاں کا نکاح، کہاں کی شرم ؟
جیسا کہ ذکر ہوا نکاح کے مختلف مقاصد میں سے ایک بہت بڑا مقصد فتنوں سے محفوظ ہونا ہے ، چوں کہ اس فتنہ کا تعلق عورتوں سے ہے، اسی لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے بطور خاص اس فتنے سے بچاؤ کا طریقہ دعاؤں کی صورت میں بھی سکھایا:
”اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَةِ النِّسَاءِ“
ترجمہ:اے اللہ! میں عورتوں کے فتنے سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔(مناجات مقبول، تھانوی)۔
”اللھم حصن فرجي ویسر لي أمري․“
ترجمہ :اے اللہ میرے ستر کی حفاظت فرما اور میرا معاملہ آسان فرما۔(مناجات مقبول، تھانوی )قرآن کریم میں بھی اس فتنہ کو ”کید عظیم“ (بہت بڑا فریب) کے نام سے ذکر کیا گیا ہے ۔
نکاح کی اہمیت ،ضرورت اور اس سے دوری کی صورت میں نقصانات کی ایک جھلک پیش کرنے کے بعد آگے ان امور کا تذکرہ مقصود ہے جن کا تعلق نکاح کے فوائد سے ہے، جن میں نکاح کے خاندانی، معاشرتی، جسمانی و ذہنی فوائد کا کچھ تذکرہ لکھا جا تا ہے ۔
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے :”لم تر المتحابین مثل النکاح“
ترجمہ:دو فریقین میں نکاح سے زیادہ محبت پیدا کرنے والی کوئی چیز نہیں۔(مشکوٰة)
نکاح ایک ایسا عمل ہے جو دو ایسے خاندانوں کو بھی آپس میں جوڑ دیتا ہے، جو ایک دوسرے سے ناواقف تھے ،لیکن نکاح ہوتے ہی وہ آپس میں رشتہ دار کہلاتے ہیں۔ ان کے اجنیت کا تعلق محبت اور ہم دردی کے تعلق میں بدل جاتا ہے۔ آگے جاکر یہ خاندان بہت سے مسائل کا ایک ہوکر سامنا کرتے ہیں ۔
اسلام کا تصور نکاح اور مغرب کی زبوں حالی
نکاح چوں کہ ایک اجتماعی عمل ہے ،اسی لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے نکاح کو اعلانیہ کرنے کا حکم دیا ،آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”أعلِنوا ہذا النِّکاحَ واضرِبوا علیْہِ بالغربالِ․“ (سنن ابن ماجہ:1549)
ترجمہ:اس نکاح کا اعلان کیا کرو اور اس موقع پر دَف بجایا کرو۔
چھپ چھپ کرتوگناہ ،عیب یا ذاتی کام کیے جاتے ہیں، لیکن نکاح چوں کہ ایک اجتماعی عمل ہے، اس لیے اسے مسجد میں سب کے سامنے کرنا پسند فرمایا ۔ اس وجہ سے بھی کہ نکاح اگر چہ دو افراد کے ایجاب و قبول کا نام ہے، لیکن اس کے اثرات ہمہ گیر ہیں، اسی لیے اس کی معاشرتی اور خاندانی حیثیت کو بھی مد نظر رکھا ۔
مر د اور عورت اسلامی معاشرے میں نکاح سے پہلے ایک دوسرے سے اجنبی رہتے ہیں ،لیکن باہمی رضامندی سے ایک طویل سفر شروع کرتے ہیں اور یہ سفر شروع ہوتے ہی ان کی اجنبیت ایک خوب صورت اور پاکیزہ جوڑے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ وہ دونوں مرد اور عورت سے ”میاں“اور ”بیوی“کے نام سے جانے جاتے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد والدین کی شکل میں بدل جاتے ہیں ، جب اولاد کی نعمت سے ان کی گود چمک اٹھتی ہے تو”ماں“اور”باپ“کا رتبہ مل جاتا ہے ، جس کے بعد وہ ایک ذمہ دار والدین کا کردار ادا کرتے ہیں اور ان کی انتھک محنت و جدوجہد سے ان کی اولاد ایک ذریت طیبہ بن کر خدا کی زمین کے لیے خیر کا کردار ادا کرتی ہے ۔دیکھتے ہی دیکھتے ایک مختصر جوڑا والدین، دادا دادی، نانا نانی، بیٹا بیٹی، بہن بھائی اور خالہ پھوپھی کے رشتوں میں بدل جاتا ہے ۔ الغرض رشتوں کی ایک حسین لڑی ہے جس میں حقوق، تعلق، عقیدت،محبت ،احسان اورصلہ رحمی کے موتی پروئے جاتے ہیں ۔اس طرح اسلام نکاح کو خاندانی نظام کی مضبوطی اور پھر معاشرتی اصلاح میں بدل دیتا ہے ۔
مغرب کا خاندانی نظام
مغربی طرز فکر میں زندگی کا طرز بالکل جدانظر آتا ہے ،وہاں انسانوں کا ایک دوسرے سے تعلق رشتوں کی نہیں، بلکہ اغراض کی بنا پر طے کیا جاتاہے ۔ اسی طرح ان میں مر د عورت دونوں اپنی زندگی میں آزاد رہتے ہیں ، نہ مرد پر کسی باپ کی سرپرستی ہوتی ہے اور نہ عورت پر کسی خیر خواہ کا سایہ، ان کی زندگی میں تعلق تجربہ کرنے کی بنیاد پر بنتا بگڑتا ہے ،جس میں مرد مختلف عورتوں سے اور عورتیں مختلف مردوں سے اس بنیاد پر تعلق استوار کرلیتی ہیں کہ اگر اس کا کردار و اخلاق اچھا رہا تواسے حتمی فیصلے کے طور پر قبول کیا جائے گا ۔ بعض اوقات سینکڑوں تجربات کے بعد ایک کام یابی مل جاتی ہے ،تب تک ان کی عمر ،صلاحیت اور اعتماد میں غیر معمولی فرق آجاتا ہے ۔یہ سب اس صورت میں جب وہ کسی تعلق کا فیصلہ کر بیٹھیں، ورنہ وہ ہمیشہ آزادی کے ماحول میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں مرد ہمیشہ مرد اور عورت ہمیشہ عورت ہی رہتی ہے ، وہ زندگی بھر کسی مقدس رشتے کا مقام نہیں پاتے اورنہ ہی عزت و احترام کا وہ موقع جہاں اسے بہن ،بیوی،ماں اور دادی نانی کے محبت اور پیار بھرے رشتے نصیب ہوں ۔وہ بلوغت کے بعد سے گرل فرینڈ کا سفر طے کرتی ہے اور ادھیڑ عمر تک کسی نہ کسی کی گرل فرینڈ ہی رہتی ہے، اس کا واسطہ صرف ان مردوں سے پڑتا ہے جو ہوس کی آگ میں اندھے ہوچکے ہوں ،وہ ساری زندگی ایک سچے اور وفادار ساتھی سے محروم رہتی ہے۔ اس طرح مغرب اپنی اکائی میں ہی خاندانی نظام کا دشمن بن جاتا ہے اور اس کا یہ سیاہ چہرہ مادیت کی آڑمیں چھپایا گیا ہے ،جس دن پردہ گرے گااس دن بچانے اور سمیٹنے کو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا ۔
نکاح اور حفاظتِ نسب
علامہ شاطبی اپنی مشہور زمانہ کتاب الموافقات میں شریعت کے پانچ مقاصد ذکر فرمائے ہیں:
1.. حفاظتِ دین 2.. حفاظتِ عقل 3.. حفاظتِ جان 4.. حفاظت ِنسب 5.. حفاظتِ مال
ان میں دین کا ایک بہت بڑا مقصد نسب کی حفاظت ہے ،جو کہ نکاح کے ذریعے محفوظ کیا جاتا ہے،اگر نکاح کا عمل مفقود ہوجائے تو دین کا ایک بہت بڑا مقصد ادھورا رہ جائے گا ۔ نسب کی حفاظت شریعت کا ایک مستقل اور تفصیلی موضوع ہے، جس پر قرآن کریم ،احادیث مقدسہ اورفقہائے کرام نے تفصیلی کلام فرمایا ہے اور بہت سے باریک مسائل کا تعلق اس مقصد سے ہے ، جن میں تبدیلی شریعت کی رو سے گوارا نہیں ۔
اسلام کی ایک سچی ،حقیقی اور مکمل تصویر صرف مسجدمیں دیکھنا ممکن نہیں، بلکہ اسلام ایک نظام زندگی ہے جو ایک صالح معاشرے کاقیام چاہتا ہے اور وہ معاشرہ بالکل بھی اچھا اور تعمیری معاشرہ نہیں بن سکتا جہاں لوگ اپنی شناخت سے نابلد ہوں یا اپنی شناخت میں تبدیلی کا حوصلہ رکھتے ہوں۔شریعت اسلامیہ نے حفاظت ِ نسب کے ذریعے اللہ کے بندوں کو ان کے حقوق دلانے کا ایک بہترین انتظام فرمایا، تاکہ کوئی بچہ والدین کے پیار سے محروم نہ رہے ، اسے باپ کی شفقت اور ماں کی ممتا برابر ملتی رہے ،اس کی اچھی تربیت کی جاسکے ۔
ساتھ ساتھ اس کے قریبی رشتہ داروں میں ایسے افراد موجود ہوں جو بچے کے درست رویے پر حوصلہ افزائی اور کوتاہیوں پر بروقت تنبیہ کرسکیں ۔
اگر اس تصور کو نظر اندازکیا جائے تو بھلا بچہ کیا مستقبل سنوار سکے گا، اسے خیر و شر کا ادراک کون کرائے گا ،اسے معیاری تعلیم و تربیت کہاں سے دی جائے گی ، وہ دادی جان کی ڈانٹ اور نانی جان کا لاڈ کہاں سے پائے گا ، اسے ایک بھائی کا ساتھ اور بہن کی غم خواری کون دلائے گا ؟! یقینا وہ ان نامحرومیوں کا اظہار معاشرے میں سرکشی مچا کر دکھائے گا اور اپنی جہالت کا مخاطب ہر کس و ناکس کو بنائے گا ۔
ذمہ داریوں کا درست تعین
نکاح کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ مر د عورت دونوں کو اپنی صلاحیتیں استعمال کرنے کا ایک درست رخ مل جاتا ہے ، مردکسبِ حلال اورعلمی وسیاسی ضروریات کو اپنی توجہ کا مرکز بناتا ہے ۔اسے اپنے گھریلو مسائل کا دھیان سوار نہیں رہتا اور اسی طرح عورت ”خاتون خانہ“اور خدمت گزار بیوی کی حیثیت سے اپنے گھر کو جنت بنالیتی ہے اور وہ گھر اس کے لیے صرف ایک گھر نہیں ہوتا بلکہ سلطنت کا درجہ رکھتاہے، جہاں وہ ملکہ بن کر راج کرتی ہے ۔ اس طرح مرد عورت دونوں ایک دوسرے کی صلاحیتوں کو سمجھ کر ایک خوش گوار ازدواجی زندگی کا فیصلہ کرلیتے ہیں ۔
نکاح کے جسمانی و نفسیاتی فوائد
نکاح کے فوائد انسانی جسم اور صحت میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ قوت باہ کی شکل میں مادہ کا درست محل میں استعمال ایک ذہنی سکون اور جسمانی راحت کا بہت بڑا سبب بنتا ہے، اگر یہ مادہ انسانی جسم سے خارج نہ ہو تو ذہن میں فتور لاسکتا ہے۔اسی طرح انسان چوں کہ مسلسل محنت و مصروفیت کے سبب تھکاوٹ اور بوریت کا شکار رہتا ہے جسے بالآخر ایک ذہنی سکون، قلبی اطمینان اور بہلاوے کی ضرورت رہتی ہے ، ایسا بہلاوا جو اس کے روٹھے مزاج کو انس و محبت اور تازگی میں بدل سکے ۔اللہ رب العزت نے نکاح کے ذریعے اس نفسیاتی الجھن کا بہترین حل عطا فرمایا:﴿وَمِنْ ء َاٰیَاتِہِٓ أَنْ خَلَقَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَٰجًا لِّتَسْکُنُوٓاْ إِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً﴾
․ترجمہ:اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے جوڑے پیدا فرمائے، تاکہ تم ان سے تسکین حاصل کرسکو اور تم دونوں کے درمیان محبت پیدا فرمادی۔(سورہ روم)
یہاں تسکین سے ذہنی اور جسمانی سکون مراد ہے، جومرد عورت دونوں کی ضرورت ہے ۔
اللہ رب العزت نے اپنے خاص بندوں کا قرآن کریم میں یوں ذکر فرمایاکہ وہ مجھ سے یہ دعامانگتے ہیں:﴿رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْیُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِینَ إِمَامًا﴾
ترجمہ:اے ہمارے رب! ہمیں عطا فرما ہمارے ازواج و اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک۔ (سورہ فرقان)
یعنی میرے خاص بندے وہ ہیں جو اپنے گھر ،بیوی،بچوں کی فکر رکھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! ان کو ایسا کردار و اخلاق نصیب فرما کہ گھر میں داخل ہوکر جیسے ہی ان پر نظر پڑے طبیعت میں بشاشت آجائے اور آنکھیں اس منظر کو دیکھ کر ٹھنڈی ہوجائیں ۔حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں کہ ”نیک خاتون ایمان کے بعد سب سے بڑی دولت ہے “۔