اسلام اپنے پیروکاروں کی زندگی کو صرف عبادات، مثلاًنماز، روزہ ، حج ،زکوٰة،جہاد،اور دعوت و تبلیغ تک محدود نہیں رکھتا؛ بلکہ یہ ہمیں اُس راستے پر گام زن ہونے کی ہدایت دیتا ہے جس پر انسانیت کے سب سے عظیم محسن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے ؛ جن کی مبارک زندگی ساری انسانیت کے لیے نمونہ اور اسوہ ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا روشن اور مثالی پہلویہی ہے کہ آپ نے صرف نماز و روزے کی تلقین نہیں کی ؛بلکہ حقوق انسانی کا جامع تصور پیش کیا،اس حوالے سے امت کو پیغام دینے کے ساتھ ساتھ عملی میدان میں خود بھی کام کیا اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کی تلقین فرمائی۔
اسلام میں نیکی کا جو جامع تصور پیش کیا گیا ہے ؛ اس میں خدمت خلق ، حقوق انسانیت ،رہن سہن اور معاشرت بھی ایک لازمی حصہ ہے ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منھ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں؛ بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے ، اللہ کی محبت میں اپنامال قرابت داروں ،یتیموں،محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والے(حقیقی ضرورت مندوں) اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوة دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی متقی ہیں۔(البقرة 2:177)
پرسکون اور اطمینان بخش زندگی گزارنے کے لیے اسلام نے انسانوں کے جذبات و احساسات کی قدردانی اور باہمی احترام و رواداری کو قائم کرنے کی قدم قدم پر تاکید کی ہے،نیز ہر ایسے عمل سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے ،جس سے انسانی جذبات مجروح ہوتے ہوں اور انسانوں کومعمولی اذیت پہنچتی ہو۔ دین اسلام میں انسانیت کو کتنا بڑا مقام دیا گیا ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں پر تمام انسانوں کے حقوق متعین کیے ہیں، والدین کے حقوق، اولاد کے حقو ق، میاں بیوی کے حقوق، یتیموں کے حقوق، غیر مسلموں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، مہمانوں کے حقوق، مسافروں کے حقوق… غرض سبھی کے جملہ حقوق کا تعین کیا ہے اور ان کو پورا کرنے کی وصیت کی ہے۔
اگر انسان آپس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کریں تو لازماًدنیا میں فساد برپا ہوگا، مثلاً بادشاہ اور حاکم اپنے حقوق ادا نہ کریں تو رعایا کی زندگی تکالیف ومشکلات کا شکار ہوجائے گی۔ شوہر بیوی کے حقوق ادا نہ کرے تو بیوی کی زندگی دنیا ہی میں جہنم بن جائے گی، بیوی شوہر کے حقوق ادا نہ کرے تو شوہر کی زندگی کا سکون غارت ہوجائے گا، پڑوسی ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کریں تومحبت و امن کی فضا مکدر ہوجائے گی۔اسی طرح مسلم غیر مسلموں کے حقوق ادا نہ کریں تو دنیا تعصب و عناد اور فتنہ وفساد کے جنگل میں تبدیل ہوجائے گی، امیر لوگ غریبوں کے حقوق ادا نہ کریں تو غریبوں کی زندگی فاقہ کشی کا شکار ہوجائے گی، بالکل اسی طرح ماں باپ اولاد کے حقوق ادا نہ کریں تو اولاد نافرمان، باغی، دین سے دور اور والدین کے لیے مصیبت و وبال بن جائے گی اور اولاد ماں باپ کے حقوق ادا نہ کرے تو ماں باپ کو بڑھاپے میں سہارا اور سکون نہیں ملے گا۔غرضے کہ دنیا میں فساد ہی فساد برپا ہوجائے گااور امن قائم نہ رہ سکے گا، پس امن کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام انسان ایک دوسرے کے وہ تمام حقوق، جو اللہ تعالیٰ نے لازم کیے ہیں، ادا کرتے رہیں۔یہی اسلام کی اولین تعلیم اور نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کامقصدِ بعثت ہے،حالی مرحوم نے اس حوالے سے کیا ہی خوب کہا ہے #
یہ پہلا سبق تھا کتاب ہُداٰ کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
وہی دوست ہے خالقِ دو سرا کا
خلائق سے ہی جس کو رشتہ ولا کا
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
آج ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات سے ہم خود بھی آگاہ نہیں ہیں اور دنیا کو بھی ان سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہمیں صحیح طور پر محسوس نہیں ہو رہی۔ ورنہ حقوق کا جو جامع اور متوازن تصور دین اسلام نے دیا ہے دنیا کے کسی نظام میں اس کا کوئی متبادل نہیں ہے ۔آئیے !اختصار کے ساتھ دین اسلام کے صرف معاشرتی حقوق پر طائرانہ ہی سہی ایک نظر ڈالی جائے !!
جانوروں کا حق
حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بنی اسرئیل میں ایک بدکار عورت ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے سے جنت میں چلی گئی ؛جب کہ بنی اسرائیل ہی کی ایک پارسا عورت ایک بلی کو محبوس کرکے بھوک پیاس سے ماردینے کے سبب جہنم رسیدہوئی۔(ترمذی)
انسان کا حق
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ا رشاد فرمایا:کامل موٴمن وہ ہے جس کی ایذا سے لوگ مامون و محفوظ ہوں ۔(بخاری)نیز یہ بھی فرمایا:بہترین انسان وہ ہے جس سے دوسرے انسانوں کو فائدہ پہنچے ۔(کنز العمال)
مسلمان کا حق
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں: ملاقات ہونے پر سلام کرناچھینک آنے پر رحمت کی دعا دینا بیماری میں عیادت کرنامرنے پر جنازے میں شرکت کرنا جو اپنے کوپسند ہو، وہی اپنے مسلمان بھائی کے لیے پسند کرنا۔(ترمذی)۔
مصیبت زدہ ، مشکلات کا شکار اور مجبور کا حق
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جودنیامیں کسی مصیبت زدہ سے کسی دنیاوی تکلیف اور مصیبت کودور کردے (یا دورکرنے میں مددکردے)تو اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن اُخروی مصیبت کو ہٹادیں گے ۔نیز جودنیا میں مشکلات میں گھرے ہوئے کسی شخص کے لیے آسانی پید ا کرنے کی کوشش کرے تواللہ تعالیٰ اس کے لیے (دونوں جہاں کی)آسانیاں پیدا فرمادیں گے ۔اوراللہ تعالیٰ اس بندے کی مسلسل مدد فرماتے ہیں جو کسی اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے۔(ترمذی)
ماتحتوں کا حق
حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کسی کا کوئی غلام ہو تو اس غلام کو وہی لباس پہنائے جو خود پہنتا ہے، وہی کھانا کھلائے جو خود کھاتا ہے ۔اس کے ذمہ اتنا کام نہ لگائے جو اس پرغالب آئے ،(اگروقتی ضرورت سے) ایسا کیا تو پھر اس کا ہاتھ بٹائے ۔(بخاری و مسلم)مزید فرمایا: جب تم میں سے کسی کاخادم اس کو آگ کی گرمی اور دھویں سے بچا کر اس کے لیے کھاناتیار کرے تو اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھاکر کھانا کھلاوٴ! ورنہ کم از کم ایک لقمہ اس کے منھ میں ڈال دو۔(ترمذی)
پڑوس کا حق
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ شخص مومن کامل نہیں جو خود سیر ہو کر رات گزارے اور ساتھ میں اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے اور اس کو علم ہو ۔(معجم طبرانی) مزید فرمایا: اللہ کی قسم : وہ شخص موٴمن نہیں ،وہ شخص موٴمن نہیں، وہ شخص موٴمن نہیں! لوگوں نے پوچھاکون موٴمن نہیں؟ ارشاد فرمایا: جس سے اس کاپڑوسی مامون و محفوظ نہیں۔ (بخاری و مسلم)
شوہر کا حق
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اگر میں کسی کو غیر اللہ کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی کو شوہر کے آگے سجدہ کرنے کا کہتا؛ لیکن سجدہ اللہ ہی کے لیے ہے ۔ عورت اللہ تعالیٰ کاحق اس وقت تک پورا پوراادا نہیں کر سکتی جب تک شوہر کاحق پورا پورا ادا نہیں کرتی۔ (مسند احمد)
رفیقہ ٴحیات کا حق
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے حق میں بہترین ہو۔ (سنن ترمذی ،صحیح ابن حبان)
والدین کا حق
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا : کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا: نمازوں کو اپنی مقررہ اوقات پر پڑھنا ۔میں نے کہا اس کے بعد کون سا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: والدین کے ساتھ حسنِ سلوک۔ (ترمذی)حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت، بڑوں کی عزت اور علماء کے ساتھ وفا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ (مسند بزار)نیز یہ بھی فرمایا:وہ ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کی عزت ، بچوں پر شفقت اور علماء کی تعظیم نہیں کرتا۔ ( کنز العمال)
شاگردوں کا استاذ پر حق
شاگردوں پر استاذ کے حق کو ہر ایک جانتا ہے کہ شاگرد پر استاذ کی اطاعت، ادب اور خدمت لازم ہے اور شاگرد کے حق کے بارے میں حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مشرق کی طرف سے لوگ تمہارے پاس علم سیکھنے کے لیے آئیں گے تو ان کے بارے میں تم مجھ سے خیر کی وصیت لے لو۔ یعنی تمھیں بھلائی اور خیر خواہی کی وصیت کرتا ہوں۔ ابوہارون کہتے ہیں، چناں چہ جب ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ ہمیں دیکھتے تو فرماتے : حضورصلی الله علیہ وسلم کی وصیت کو خوش آمدید۔ گویا ایک تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیشین گوئی پوری ہو گئی، دوسرا وہ بار بار احساس دلاتے کہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی وصیت پر عمل پیراہوں۔(ترمذی)۔
عوام کا حکم رانوں پر حق
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنے آنے والے خلیفہ کو وصیت کرتاہوں: اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔ مسلمانوں کے بڑوں کا احترام کرے۔ چھوٹوں پر شفقت کرے۔ علما ء کی تعظیم کرے ۔ کسی کوتکلیف دے کر ذلیل نہ کرے۔ ڈرا ڈرا کر کافر نہ کرے۔ خصی کرکے نسل کشی نہ کرے۔ اپنا دروازہ ان کے لیے بند نہ کرے، یہاں تک کہ کمزوروں پر طاقت ور ظلم کرنے لگ جائیں۔ (سنن کبری للبیہقی)
اختصار کے پیش نظر یہاں بہ طور نمونہ صرف چند ہی حقوق پر اکتفا کیاگیا،ورنہ معاشرتی حقوق کی تفصیل میں علمائے کرام نے مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ علم کا ذوق اور عمل کا شوق کا رکھنے والے حضرات ان سے مستفید ہو سکتے ہیں ۔
عالمی یوم حقوق انساں
دوسری عالمی جنگ کی بدترین تباہ کاریوں اور اس میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالیوں کے پیش نظرلیگ آف نیشن کو ختم کرکے اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا اور اس کے چارٹر میں انسانی حقوق کی حفاظت کی شق پہلے ہی سے شامل تھی؛ تاہم سرد جنگ کے خاتمے کے بعد 1993ء کو آسٹریا کے شہر ویانا میں ہونے والے عالمی کانفرنس میں انسانی حقوق کے حوالے سے پروگرام آف ایکشن تیار کیا گیا، جسے ویانا ڈکلیریشن اینڈ پروگرام آف ایکشن کا نام دیا گیا ، کانفرنس میں 171 ممالک اور آٹھ سو غیر سرکاری تنظیموں کے تقریباً سات ہزار مندوبین نے شرکت کی، اسی مناسبت سے ہر سال10 دسمبر کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے چارٹر اور قرارداد کی رو سے دنیا بھر کے انسانوں کو ہر طرح کے حقوق ،جن میں جینے کا حق، امتیازسے پاک مساوات یا برابری کا حق، اظہار رائے کی آزادی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق جن میں روزگار، سماجی تحفظ، تعلیم، صحت، ترقی اور حق خودارادیت اور دیگر حقوق شامل ہیں۔ اس دن کو منانے کا مقصد ، انسان کے بنیادی حقوق کا تحفظ اوربہتر ین زندگی گزارنے کے لیے اچھے ماحول کو یقینی بنانا،نیز ایک انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان پر ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرناہے ۔
انصاف کا دوہرا معیار
جب کبھی اسلامی ممالک میں کوئی معمولی ساواقعہ دانستہ یا نادانستہ رونما ہوجاتا ہے تو انسانی حقوق، کے نام نہاد علم بردار اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور دنیا سر پر اٹھا لیتے ہیں کہ فلاں اسلامی ملک میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی گئی،انسانی اقدار و روایات کی سرعام پامالی ہوئی اور فلاں عمل کے ذریعہ مذہبی تنگ نظری کا ثبوت پیش کیا گیا وغیرہ،بعدازاں اقوام متحدہ سمیت تمام یورپی ممالک کے ذریعہ اس اسلامی ملک پر دباو ڈالا جاتا ہے کہ فوری طور پرعملی کارروائی کی جائے اور فلاں فلاں مجرم یا جماعت کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے؛لیکن انہی امریکہ و یورپ کے ہاتھوں آئے روز انسانی حقوق کی جس طرح پامالی ہوتی ہے اس پر نہ تو اقوام متحدہ کے ناخداوٴوں کو اپنا فرض یاد آتا ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کے ٹھیکے دار چیں بہ جبیں ہوتے ہیں۔سوچنے والی بات ہے کہ کیا انسانی حقوق کے علم برداروں کوبرما کے مظلوم مسلمانوں کا خون نظر نہیں آتا؟کیا فلسطین کے مسلمان ظلم وبربریت کی چکی میں پستے دکھائی نہیں دیتے؟کیا کشمیر کے مسلمان برسوں سے ستم زدہ نہیں ہیں؟وزیرستان میں بے گناہ اور معصوم لوگوں کا قتل عام انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کہلاتی؟اگر دنیا کی نظر میں مسلمانوں کے خون سے کھیلی جانی والی یہ ہولی ظلم ہے۔تو پھر وہ کونسی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کے علم بردار مہر بہ لب ہیں۔
حاصل کلام
فی زماننامشرق ومغرب کے مابین جو تہذیبی جنگ چھڑی ہوئی ہے ، اس میں اہل مشرق کے غالب اورساکنان یورپ کے مغلوب ہونے کی وجہ یہی ہے کہ ایک نے اسلام کی آفاقی وابدی ہدایات واحکام کو سینے سے لگائے رکھا ہے؛جب کہ دوسرے نے انسانیت کا جامہ اتارکر حیوانیت کا لبادہ اوڑھ لیاہے ۔ مغربی تہذیب رشتوں کے تقدس کو کب کا خیر باد کہہ چکی ہے ۔ وہاں انسانیت تو درکنار ماں باپ ،بہن بھائی، چچا ماموں،خالہ پھوپھی کا تصورتک عنقاہے ۔مغرب اپنی خاندانی قدروں اور معاشرتی اکائیوں کو پامال کرنے کے بعد ،اب یہ چاہتاہے کہ پوری دنیا میں اس کی دجالی تہذیب کا ڈنکا بجے ۔اس طاغوتی مقصد اورمشن کو پورا کرنے کے لیے قدیم وجدید ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال کیا جارہاہے ۔ نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ ہماری نئی نسل بڑی تیزی سے اس دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے ؛مگر اس حقیقت سے کوئی ہوش مندانکار نہیں کرسکتا کہ ہمارے آج کے اسلامی معاشرے میں رشتوں کا ادب واحترام اورعظمت ومحبت بری طرح پامال ہورہی ہے ۔ اولاد ماں باپ کی نافرمان بن چکی ہے ۔ بہن بھائی باہمی حسد وبغض میں مبتلاہیں۔ رشتہ دار ایک دوسرے کوکاٹ کھانے کے لیے دوڑ رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ سب کچھ احکام دین سے دوری کا نتیجہ ہے ۔ اگر ہم ابھی اور اسی وقت یہ عزم وارادہ کرلیں کہ شریعت مطہرہ کے ہرہر حکم پر دل وجان سے عمل کریں گے ،اللہ رب العالمین کاڈر وخوف پیدا کرکے اس کے بتائے ہوئے احکام پر عمل پیراہوں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ذہنی اضطراب اورنفسیاتی ہیجان میں کمی واقع نہ ہو۔اور ہم طاغوتی کھائی میں گرنے سے بچ جائیں۔ ضرورت ہے صرف پختہ نیت اورعزم و حوصلے کی ۔
مشکلیں کچھ بھی نہیں عزم جواں کے آگے
حوصلے …… آہنی دیوار گرادیتے ہیں