قدرت نے مرد اور عورت دونوں کے درمیان خوب صورت توازن برقرار رکھا ہے، طاقت ایک کودی ہے تو حسن وکشش دوسرے کو دے دی ہے ، ایک کی گود میں اولاد رکھی ہے تو دوسرے کے ہاتھ میں رزق کی باگ ڈور تھما دی ہے، ایک کو چاہنے کی خواہش دی ہے تو دوسرے کو چاہت کی مرکزیت عطا کر دی ہے اور دونوں کے درمیان ایسی کشش رکھی ہے کہ جدا ہوتے ہوئے بھی باہم ایک ہی ہوتے ہیں۔ اگر چہ ان کے درمیان کوسوں دور کے فاصلے ہی کیوں نہ حائل ہو جائیں۔ قدرت کا یہ عطا کردہ توازن جب تک معاشرے میں حقوق وفرائض کی ادائیگی کی صورت میں موجود رہتا ہے، انسانی معاشرہ بگاڑ سے محفوظ رہتا ہے، مگر جہاں جہاں اس توازن کو چھیڑ دیا جائے، وہاں انسانی معاشریبھی عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے۔
دنیا کے کتنے ہی معاشرہ ہیں جہاں عورت کو اس کے اصل مقام سے ہی نہیں، بلکہ اسے مقام انسانیت سے بھی نیچے گرا دیا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جانور کی زیادہ قدر کی جاتی ہے، بلکہ بعض مذاہب میں تو جانوروں کی پوجا تک کی جاتی ہے جب کہ عورت کو جنس بازار سے بھی کم تراہمیت دی جاتی ہے۔ ہندو معاشرہ اس کی سب سے بد ترین مثال ہے، جہاں عورت کو جہیز کے پیمانے میں تولا جاتا ہے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ سیرت وصورت، تعلیم وتربیت، سلیقہ وطریقہ اور اخلاق وبردباری جو نسوانیت کے تاریخی وحقیقی جوہر ہیں جن کا وزن عورت کی نسوانیت میں بڑھوتری کا باعث ہوتا ہے، ان سب کی بجائے ہندومت میں عورت کو اس کے لائے ہوئے جہیز میں تولا جاتا ہے، اگر جہیز زیادہ ہو تو عورت قیمتی ہے، بصورت دیگر عورت کی قبولیت کے امکانات کم سے کم تر ہیں۔ ہندوؤں کے ساتھ صدیوں تک رہتے ہوئے مسلمانوں کے ہاں بھی ہندوؤں کے رسوم ورواج جاری رہنے لگے، اگرچہ دو قومی نظریہ اسی تاثر سے ارتقا پذیر ہوا کہ ہندو اورمسلمان دو الگ الگ اقوام ہیں، لیکن آزادی کے بعد بھی بہت سی ہندؤانہ رسمیں مسلمانوں کے معاشروں میں جگہ پاتی گئیں او راب رہی سہی کسر ہندوستان سے درآمد کی گئی اس ثقافت نے پوری کر دی ہے جو فلموں کے ذریعے آئی۔ چناں چہ مسلمانوں کے ہاں بھی جہیز ضروری سمجھا جانے لگا اور شادی کی بے پناہ رسومات او رکثرت سے تحائف کے لین دین نے شادی کو جہاں مشکل تر بنا دیا وہاں لڑکیوں کو بوجھ سمجھا جانے لگا، جو یقینا ہندومت کے رسوم کا منطقی نتیجہ تھا۔
ان بے جا رسومات کے بہت برے اثرات معاشرے پر پڑتے گئے اور بیٹی کو بوجھ سمجھنے والوں نے بیٹی کی پیدائش پر کھل کر نا پسندیدگی کا اظہار شروع کیا اور آنے والے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے لڑکی کی چھوٹی عمر سے ہی اس کاجہیز بنانا شروع کر دیا ،تاکہ اسے عزت کے ساتھ رخصت کیا جاسکے ۔ گویا پہلے دن سے ہی بیٹی والدین کے بجٹ پر ایک اضافی ذمہ داری بن گئی۔ اس ذمہ داری کو ناروا سمجھنے والے باپ او ربھائی کا رویہ بھی بیٹی او ربہن کے لیے ناقابل برداشت ہوتا گیا اور جیسے جیسے شادی کا وقت قریب آتا گیا ذمہ داران کے ذہنی تناؤ میں اضافہ ہوتا گیا اور ایسا رشتہ تلاش کیا جانے لگا جہاں کم سے کم جہیز دینا پڑے اور ظاہر ہے ان پڑھ ،جاہل، معذور، رنڈوا، پسماندہ یا اسی قبیل کا ہی کوئی مرد کم جہیز پر راضی ہو سکتا ہے، جس کے ساتھ عورت کو ساری عمر کے لیے باندھ کر اسے جیتے جی یوں دوزخ میں ڈال دیا کہ وہ ذہنی اورنفسیاتی طورپر بھی ہمیشہ غیر مطمئن رہے، اس کے خواب چکنا چور ہو جائیں اور شوہر بھی ساری عمر اسے کم جہیز لانے کی پاداش میں جوتے کی نوک پر رکھے۔
کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس کی اولاد جسے وہ اپنے سینے کے چشموں سے سیراب کرتی ہے، اس کی گیلی کی ہوئی جگہ پر خود سوتی ہے اوراپنے گرم بستر پر اسے سلاتی ہے، اس کی خاطر اپنی جوانی تج دیتی ہے وہی اولاد بڑی ہو کر اسے جوئے میں ہاردیتی ہے اور گھر بیٹھی ماں کسی دوسری کی ملک ہو جاتی ہے او راگر ایسا نہ بھی ہو تو شادی کے بعد ساس بہو کے جھگڑوں میں کتنے فیصد نوجوان ماں کی مامتا کو اس کے حقیقی روپ میں د یکھتے ہیں اورکتنے ہی ہیں جو اپنی جو روکو لیے کسی نئے گھروندے میں حوا کی بیٹی پر ظلم وستم کی ایک نئی داستان رقم کرنے کے لیے چل نکلتے ہیں۔ شوہر فوت ہوجائے تو عورت کا حق زندگی ہی باقی نہیں رہتا اور ”ہندومذہب“ کہتا ہے کہ اسے شوہر کی چتا کے ساتھ نذر آتش کر دو۔ باپ فوت ہو جائے یا بیٹا ہمیشہ کے لیے داغ مفارقت دے جائے یا شوہر جیسا جیون ساتھی چل بسے عورت کو کسی کے ترکے میں سے کچھ نہیں ملنے والا، وہ ہمیشہ سے محروم رہی اور اب بھی محروم ہی رہے گی۔
ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے عقل انسانی نے ایک دوسرا راستہ یوں اختیار کیا کہ عورتوں کو بھی مردوں کی صف میں لاکھڑا کر دیا جائے۔ اس طرح گویا خواتین اپنا معاشی ومعاشرتی بوجھ خود اٹھانے کے قابل ہوجائیں گی اور اپنے مردوں پر یا معاشرے پر بوجھ نہ بنیں گی۔ اس مقصد کے لیے عورتوں پر مردانہ نصاب تعلیمی کے پڑھنے کو لازمی گردانا گیا، انہیں مردوں کے بشانہ شانہ تعلیمی اداروں میں داخل کراکے مردانہ تعلیم فراہم کی گئی، ان کے لیے برابری کی بنیاد پر ملازمتوں کے دروازے کھول دیے گئے، تاکہ وہ بھی انسانی معاشرے کا انتظام، عدالتی، دفاعی، طبی وتعلیمی اور تکنیکی بوجھ اٹھانے میں مردوں کی ممدومعان ثابت ہو سکیں۔ اس غیر منطقی عمل نے معاشرے پر سے عورتوں کا بوجھ کم کرنے کی بجائے عورتوں کی ذمہ داریوں میں اس قدر اضافہ کر دیا کہ گھر کا سکون نذر بازار ہو گیا۔ جب ایک ہی منصب پر لڑکے اور لڑکیاں دونوں برابر قابلیت اور مساوی اہلیت کی بنیاد پر درخواست گزارہوں گے تو صرف عورت کا انتخاب جن پیمانوں کے باعث یقینی ہو گا، وہ پیمانے اظہر من الشمس ہیں۔ ایک ہی دفترمیں کام کرنے والے مرد اور عورتیں غیر فطری مخلوط ماحول کے باعث جن آلودگیوں کا شکار ہوتے ہیں، اخباروں کی خبریں اور ایسے دفاتر میں لگے خفیہ کیمروں سے بننے والی فلموں کے ثبوت عورت کے بے وقعتی اور بے قدری پر دال ہیں۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نسوانیت کے بغیر انسانیت کی تکمیل ممکن ہی نہیں۔ انسان ایک عورت کے پیٹ میں ہی اپنے آغاز کی ابتدا کرتا ہے، اس کی گود میں پروش پاتا ہے، اس کے سینے سے سیراب ہوتا ہے او راسی ماں کی لوریاں اس کی تعلیم کا پہلا سبق ہوتی ہیں، وہی اس کی پہلی استاد ہوتی ہے اور نہ جانے قدرت والے نے او رکتنے ہی کردار اس ماں کی ذات میں جمع کر رکھے ہیں۔
نسوانیت سے مستعار ماں کا یہ مقام اتنا بڑا منصب ہے کہ جنت جیسی جگہ بھی اس کے قدموں کے تلے آن ٹھہرتی ہے۔ الله تعالیٰ نے اپنے اقتدار کے لیے، اپنے خزانوں کے لیے، اپنی طاقت کے لیے یا اپنے غضب کے لیے کوئی مثال پیش نہیں کی ہے، سوائے اس کے کہ الله تعالیٰ نے اپنی رحمت کے لیے ماں کی محبت کو مستعار لیا کہ ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کرنے والا۔ جنت سے بڑھ کر کوئی خوب صورت اور دل نشین مقام اس کائنات میں نہیں ہے۔ الله تعالیٰ نے حضرت بابا آدم علیہ السلام کو اس مقام پر جگہ عطا کی تو انہوں نے بارِالہٰ میں تنہائی کی شکایت کی ،جس کے بعد انہیں ایک خاتون اماں حوا کی معیت عطا کی گئی، گویا جنت جیسی جگہ پر بھی بغیر عورت کے انسان کا دل نہ لگا۔ یہ نظام قدرت ہے کہ مرد عورت کے بغیر اور عورت مرد کے بغیر نا مکمل ہے، دونوں کے اختلاط سے ہی جہاں نسل انسانی کی بقا ممکن ہے وہاں تہذیب وتمدن کے ارتقا کے لیے بھی دونوں کا اشتراک کار بے حد ضروری ہے گویا کہ مرد اور عورت ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ عورت کو الله تعالیٰ نے کیسا خوب صورت کردار عطا کیا کہ عورت مرد کی ضرورت ہے، عورت بچے کی ضرورت ہے ،حتی کی عورت عورت کی بھی ضرورت ہے اورعورت کے بغیر انسانی سماج ہمیشہ تشنہ تکمیل رہے گا۔
عورت کی محرومیاں ہمیشہ سے سنجیدہ انسانوں کا موضوع رہی ہیں اور ہر مفکر وفلسفی اور موسس اخلاق نے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ قدیم یونان میں صدیوں یہ بحث چلتی رہی کہ عورت انسان بھی ہے کہ نہیں؟ او راس دور کی کتنی ہی کتب آج بھی اس بحث کو پیش کرتی ہیں، قدیم عرب معاشرے میں عورت کی حیثیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے او رماضی قریب تک میں عورت کے دو ہی روپ سامنے آتے ہیں یا تو وہ ظلم کی چکی میں پستا ہوا ایک بے حقیقت دانہ ہے یا پھر اس بازار کی زینت ہے جہاں صبح وشام گاہک اس کی طلب میں آسودگی ہوس نفس کے لیے آتے ہیں اور وہ انہیں ناچ کر دکھاتی ہے اور گا کر سناتی ہے یا پھر راتوں کو روزانہ ایک نئے مرد کا بستر گرم کرکے اپنے پیٹ کے لیے دو وقت کے ایندھن کا انتظام کرتی ہے۔ لکھنو کے نواب ہوں یا دہلی کا دربار، کلیسا ودیر ہوں یا اسمبلی وپارلیمان یا دنیا بھر کے مشرق ومغرب کے مہذب وغیرمہذب معاشرے ہوں، عورت کی کہانی ہر جگہ یکساں ہی رہی ہے۔
ہمیشہ کی طرح آج کی یورپی تہذیب کے انسانی عالی دماغوں نے بھی عورت کے مسائل کا حل تلاش کیا او رپیش بھی کیا۔ کم وبیش تین سو سالوں سے یورپی تہذیب نے عورت کو حقوق نسواں کے نام سے ایک آزادی دے رکھی ہے، تاکہ اس کے مسائل حل ہو جائیں، لیکن یہ آزادی بھی چوں کہ ”مردوں“ نے ہی دی ہے اس لیے اس کی حقیقت بھی اس سے زیادہ نہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو ایک بار پھر دہرارہی ہے، عورت کو سرمیدان لا کر اس کی ذمہ داریوں میں کمی تو نہیں کی گئی، لیکن معاش کا ایک اور بوجھ بھی اس کے کندھوں پر ضرور ڈال دیا گیا ہے۔ پہلے وہ صرف شوہر کی دست نگر تھی تواب اس شوہر کے ساتھ ساتھ اپنے باس او رپنے رفقائے کار کا بھی دل لبھانا پڑتا ہے۔ اس نام نہاد جدید، لیکن غیر فطری تہذیب نے عورت کی فطری ذمہ داریاں جو اس کی گود، اس کی اولاد، اس کا خاندان اور اس کے گھر سے عبارت تھیں ان کی بجائے عورت کو سیاست، دفاع، معاش اور انتظامی امور کی طرف دھکیلنے کی بھونڈی کوشش کی ہے، جس کے نتیجے میں خاندانی نظام اوراخلاقی معیارات اپنے تنزل کی انتہا کو چھور ہے ہیں۔
اس غیر فطری سلوک کا نتیجہ ہے کہ عورت سے اس کا نسوانی حسن چھن گیا ہے، لفظ”عورت“ جس کا مطلب ہی چھپی ہوئی چیز ہے اس کو عریاں سے عریاں تر کیا جارہاہے۔ عورت کی اس غیر فطری آزادی سے نسلیں مشکوک ہوتی چلی جارہی ہیں اور یورپ کے مفکرین اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کے معاشرے سے آہستہ آہستہ باپ آشنا بچے اورباپ نا آشنا بچوں کا فرق مٹتا چلاجا رہا ہے۔ عورت کی آزادی کا منطقی نتیجہ معاشرے کی وہ آشنائیاں ہیں جو صدیوں کے قائم کیے ہوئے تاریخی انسانی اخلاق اقدار کو داغ دار کرتی چلی جارہی ہیں او رپھر کیا یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس غیر فطری آزادی نے جو یورپ نے عورت کو تھوک کے حساب سے فراہم کر دی ہے تقدیس کا دامن بھی کس کس طرح تار تار کر دیا ہے او رمقدس رشتوں کے درمیان بھی ہوس نفس کس طرح درآئی ہے اورپھر کیا اس طرح اس معاشرے کو آسودگی حاصل ہوگی ہے؟ اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم جنسیت اور جانوروں تک سے تعلقات استوار کرنے والے اب اس دلدل میں اندر سے اندر دھنستے چلے جارہے ہیں۔
الله تعالیٰ خالق نسوانیت ہے اور خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم محسن نسوانیت ہیں اورالله تعالیٰ کے بھیجے ہوئے دین سے بڑھ کر کوئی نظام انسانوں کا خیر خواہ نہیں ہوسکتا ۔ اسلام نے فرائض کے مقام پر معاشرے کے سب طبقوں کو جمع کیا، نماز میں معاشرے کے تمام طبقات کو یکجا کر دیا، سب مسلمانوں کے لیے خواہ وہ کسی طبقے، کسی مقام ومرتبے یا کسی رنگ ونسل وعلاقے سے تعلق رکھتے ہوں ایک وقت میں سحروافطار کے نظام میں یکساں پرو دیا، دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک ہی لباس پہنا کر ایک کلمہ منھ سے نکالتے ہوئے ایک ہی کمرے کے گرد ،ایک ہی رخ میں، مانند یک جان، متحرک کر دیا،جب کہ سیکولر یورپی تہذیب نے حقوق کے نام پر سب طبقوں کوباہم لڑا دیا ہے، طالب علموں کے حقوق تو اساتذہ سے لڑو، مزدوروں کے حقوق تو مل مالکان سے لڑو، عوام کے حقوق تو حکم رانوں سے لڑو اور خواتین، یعنی بہن، بہو، بیٹی ، ماں کے حقوق تو مردوں، یعنی اپنے باپ، بھائی، شوہر اوربیٹے سے لڑو۔ اسلامی تہذیب نے ”ایثار“ کا سبق پڑھایا کہ اپنے حقوق سے دست بردار ہو کر دوسروں کے لیے قربانی دو، جان لبوں پر پہنچ گئی، لیکن پانی ساتھ والے کی طرف بڑھا دیا ،ایک ہی فرد کا کھانا تھا تو چراغ بجھا کر خود منھ چلاتے رہے، تاکہ دوسرا پیٹ بھر کر آسودہ ہو جائے، خواہ خود کو بھوکے پیٹ سونا پڑے۔
اس کے مقابلے میں سیکولر مغربی تہذیب نے سکھایاکہ اپنے حقوق مانگ کر نہیں ملتے، بلکہ چھین کر لیتے ہیں اور اس مقصد کے لیے عام طور پر معاشرے کے کم زور طبقوں، کو خاص طور پر عورتوں کو نشانہ بنا کر ان کے ذریعے فساد فی الارض کی آگ بھڑگائی گئی۔ایشیا کے پُرامن مشرقی روایات کے حامل معاشرے میں عورتوں کے حقوق کے نام پر جنس متضاد کے درمیان ایک غیر اعلانیہ جنگ اس معاشرے کو تباہ کرنے کی ایک دانستہ کوشش ہے، عورتوں کے مسائل سمیت کل انسانوں کے کل مسائل کا حل صرف دین اخروی کے اندر ہی پنہاں ہے اور خطبہ حجة الوداع سے بڑھ کر اور کوئی دستاویز انسانوں کے حقوق کی علم بردار نہیں ہو سکتی۔ عالم انسانیت کو آسودگی،راحت، امن وآشتی، پیار ومحبت او رحقوق وفرائض کے درمیان توازن کے لیے بالآخر اسی چشمہ فیض کی طرف ہی پلٹنا ہو گا جوا نبیاء کی دعوت کا خلاصہ اور الله تعالیٰ کا اس دنیا میں آخری پیغام ہے۔