حیات انسانی کا ایک اہم شعبہ آدمی کی ”ازدواجی زندگی“ ہے، جس میں ایک مرد اور عورت کو ہم دردی، مروت او رمحبت کے ساتھ دکھ سکھ کا ساجھی بن کر شریک حیات بننا پڑتا تھے۔ مرد وعورت کے اس خاص ملاپ کا اسلامی نام ”نکاح “ ہے۔ زندگی کے اس اہم شعبے میں جس قدر خرابیاں اوربد مزگیاں پیدا ہوتی ہیں اس کی وجہ اس کے سوا او رکچھ نہیں کہ شادی کرنے والا جوڑا اپنے ازدواجی تعلقات میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی عالی تعلیمات سے مستغنی ہو کر من مانی کرنے لگتا ہے، جس کا نتیجہ دونوں یا ایک کی زندگی کے لیے تباہ کن اور دو گھروں کی بربادی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس تباہی وبربادی سے بچنے کی صرف ایک صورت ہے کہ میاں بیوی اپنی من مانی اور دوسری قوموں کی نقالی کی بجائے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔ پیش نظر مضمون میں انہی اصول وضوابط میں سے چند اصول منتخب کرکے درج کیے گئے ہیں۔
بیوی کے حقوق
حضرت عقبہ بن عامر رضی ا لله عنہ سے روایت ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نکاح کی شرطیں پوری کرنے کا سب سے زیادہ خیال رکھو۔ (متفق علیہ) یعنی نکاح کی بنا پر جو چیزیں تم نے اپنے اوپر لازم کر لی ہیں، ان کی ادائی کا بہت زیادہ خیال رکھو۔ مثلاً مہر ادا کرنا، بیوی کے کھانے پینے اور لباس کا خیال رکھنا، اس کے لیے مناسب رہائش کا انتظام کرنا، اس سے اچھا برتاؤ کرنا، خوش اخلاقی سے پیش آنا وغیرہ۔ بعض لوگ زبردستی بیوی سے مہر معاف کراتے ہیں اور وہ بے چاری بھی اوپر ی طور پر معاف کر دیتی ہے یا ادائی سے لاپرواہی کرتے ہیں کہ وہ تو مطالبہ ہی نہیں کرتی۔ حالاں کہ یہ جائز نہیں، مہر مرد کے ذمے عورت کا ایک قرض ہے، جو عدم مطالبہ یا زبردستی معاف کرانے سے ختم نہیں ہوتا، جب تک کہ عورت خوشی سے معاف نہ کردے، بعض لوگ والدین او ربھائی، بہنوں کی وجہ سے بیوی کے نان نفقہ میں تنگی کرتے ہیں کہ ساری کمائی لا کر والدین کو ہی دے دی او ربیوی بے چاری ضروری خرچے کے لیے بھی پریشان ہے، حالاں کہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص کی آمدن اتنی ہے کہ وہ ماں با پ پر خرچ کرے تو بیوی کو نہیں دے سکتا اور اگر بیوی کو دے تو ماں باپ کے لیے نہیں بچتا تو ایسی صورت میں بیوی پر خرچ کرنا ضروری ہے۔
بہترین انسان
حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں، حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سب سے اچھا سلوک کرے اور میں تم سب میں زیادہ بہتر ہوں ( سلوک کے اعتبار سے) اپنے گھر والوں کے ساتھ، ( یعنی میرا سلوک اپنی بیویوں کے ساتھ تم سب میں بہتر ہے اور تم پر میرا اتباع کرنا ضروری ہے ) ۔ ترمذی میں انہی سے ایک اور روایت ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں میں سب سے زیادہ کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں اور اپنی بیوی کے ساتھ سب سے زیادہ نرمی کا برتاؤ کرتا ہو۔ معلوم ہوا کہ بیوی کے ساتھ نرمی اورمہربانی کا معاملہ کرناچاہیے اور خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہیے، کیوں کہ وہ نہایت ہی قابل رحم ہے۔ ایک تو اس بنا پر کہ وہ ضعیف ہوتی ہے، دوسرے عاجز وبے بس ہوتی ہے، جب کہ مرد بااختیار اور زور آور ہوتاہے۔
عورت کا فطری ٹیڑھا پن
حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی میری وصیت قبول کرو، اس لیے کہ عورتیں ( ٹیڑھی) پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور سب سے زیادہ ٹیڑھی پسلی اوپر کی ہے۔ پس اگر تم اس پسلی کو سیدھا کرنا چاہو گے تو ٹوٹ جائے گی او راگر اس کے حال پر چھوڑ دو گے تو ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہے گی، سو عورتوں کے حقوق میں میری وصیت قبول کرو۔ ( متفق علیہ) حضرات علماء فرماتے ہیں کہ عورتوں کے اندر پیدائشی طور پر اعمال واخلاق اور عادات میں کجی ہے۔ اگر مرد چاہیں کہ اس کو بالکل درست کر دیں تو نتیجتاً اس کو توڑ ڈالیں گے، یعنی طلاق تک نوبت پہنچے گی (جیسے ٹیڑھی پسلی کو سیدھا کرنا چاہیں تو وہ ٹوٹ جائے گی) لہٰذا ان سے فائدہ اٹھانے کی یہی صورت ہے کہ شریعت کے دائرہ میں ان سے اپنے معاملات اچھے رکھو اور ان کے ٹیڑھے پن کو نظر انداز کر دو، ان سے یہ توقع نہ رکھو کہ وہ سب کام تمہاری مرضی کے موافق کریں۔
عورت کی زیادتی پر صبر
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ کوئی مسلمان مرد اپنی عورت سے بالکلیہ بغض نہ رکھے، کیوں کہ اگر اس کی کوئی بات ناگوار ہو گی تو دوسری کوئی بات پسند بھی ہو گی۔ (مسلم) کیوں کہ عورت کے تمام اخلاق وعادات بُرے نہیں ہوتے، اگر کچھ افعال بُرے ہوتے ہیں تو کچھ اچھے بھی ضرور ہوتے ہیں ۔ پس ہم کو اس کی خوبیوں پر نظر کرنی چاہیے او ربُری عادتوں پر صبر کرنا چاہیے اور ان کی اذیتوں اور نقصانات کو برداشت کرنا چاہیے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ” اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی سے گزر بسر کرو اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو( یہ سمجھ کر برداشت کرو کہ ) ممکن ہے تم ایک شے کو ناپسند کرو اور الله تعالیٰ اس کے اندر کوئی بڑی منفعت رکھ دے ( مثلاً وہ تمہاری خدمت گزار اور آرام کا خیال رکھنے والی اور ہم درد ہو)۔( سورہٴ نساء)
عورت کے جذبات کا لحاظ رکھنا
حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں: میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اورمیری سہیلیاں بھی میرے ساتھ کھیلتی تھیں،جوحضور صلی الله علیہ وسلم تشریف لاتے تو میری سہیلیاں (شرم کے باعث) چھپ جاتیں۔ تب حضور صلی الله علیہ وسلم ان کو میرے پاس بھیج دیتے، ہم پھر کھیلنا شروع کر دیتیں۔ (متفق علیہ) انہی سے ایک روایت ہے: ایک مرتبہ حضور صلی الله علیہ وسلم ان کے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہوئے اوراُوٹ سے ان کو حبشیوں کے نیزہ بازی کے کرتب دکھائے۔ ان روایات سے معلوم ہوا کہ عورتوں کی دل داری اور ان کے جذبات وخیالات کا لحاظ رکھنا چاہیے۔
شوہر کی اطاعت کا اجروثواب
حضرت انس رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس عورت نے پانچوں وقت کی نماز پڑھی اور رمضان المبارک کے روزے رکھے اور اپنے آپ کو پاک دامن رکھا او راپنے شوہر کی اطاعت کی، ایسی عورت کو اختیار ہے جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے۔ (مشکوٰة) سبحان الله! کتنا بڑا مرتبہ ہے شوہر کی اطاعت کرنے والی نیک بیو ی کا کہ جنت کے آٹھ دروازوں میں سے کسی بھی دروازے سے داخل ہونے کا اس کو اختیار دے دیا جائے گا۔ رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے عورت! دیکھ لے تیری جنت اور دوزخ تیرا خاوند ہے ( طبقات ابن سعد) یعنی اپنے خاوند کو راضی اور خوش رکھے گی تو جنت کی مستحق ہوگی، بصورت ِ دیگر جہنم میں جائے گی۔
خاوند کی اطاعت کی تاکید
حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں: حضور صلی الله علیہ وسلم مہاجرین وانصار کی جماعت میں تشریف فرما تھے، اتنے میں ایک اونٹ آیا اور آپ کو سجدہ کیا۔ اس پر صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا: یا رسول الله! جب آپ کو جانور اور درخت بھی سجدہ کرتے ہیں تو ہم زیادہ حق رکھتے ہیں کہ آپ کو سجدہ کریں ( یہ سن کر) آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے رب کی عبادت کرو اور میری تعظیم کرو، اگر میں کسی کی بابت سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے اور ( خاوند کا اتنا بڑا حق ہے کہ ) اگر وہ یہ کہے کہ زرد پہاڑ سے پتھر اٹھا کر کالے پہاڑ پر لے جا اور کالے سے سفید پہاڑ پر لے آ تو عورت کے ذمہ ضروری ہے کہ اس کے حکم کی تعمیل کرے۔ (مسند احمد)
نیز شوہر کی حیثیت سے زیادہ خرچ نہ مانگے، کسی ایسی چیز کی فرمائش نہ کرے جس کا مہیا کرنا اس کے بس میں نہ ہو، کسی بات پر ضد نہ کرے اور شوہر کے سامنے اس کو زبان پر نہ لائے، تاکہ مرد کو رنج نہ ہو، شوہر کوئی چیز لائے تو، خواہ پسند آئے یا نہ آئے، ہمیشہ اس پر خوشی ظاہر کرے، یہ نہ کہے کہ یہ چیز اچھی نہیں، اس سے شوہر کا دل نہ چاہے گا، شوہر کو کسی بات پر غصہ آگیا تو ایسی بات نہ کہے کہ جس سے اس کا غصہ اور زیادہ ہو جائے او راگر وہ کسی بات پر ناراض ہو جائے تو خوشامد کرکے اس کو منالے، خواہ قصور اسی کا ہو اور معذرت کرکے اپنا قصور معاف کرانے کو اپنے لیے فخر وعزت سمجھے۔
خلاصہ کلام یہ کہ اگر میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں اور دونوں ہی آپس میں نرمی ومہربانی کا برتاؤ کریں اور ایک دوسرے سے خوش اخلاقی سے پیش آئیں اور آپس کے حقوق کے بارے میں الله سے ڈرتے رہیں تو زندگی دنیا میں ہی جنت کا نمونہ بن سکتی ہے۔ الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!