اذان لغت میں خبر دینے کو کہتے ہیں او راصطلاح شریعت میں چند مخصوص اوقات میں نماز کی خبر دینے کے لیے چند مخصوص الفاظ کے دہرانے کو ”اذان “ کہا جاتا ہے۔ ”اذان“ کی مشروعیت کا پس منظر کچھ اس طرح سے ہے کہ حضور ِ اقدس صلی الله علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے اور وہاں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا او رمسجد بنائی گئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے مشورہ کیا کہ نماز کے وقت اعلان کے لیے کوئی ایسی چیز متعین کی جانی چاہیے جس کے ذریعے تمام لوگوں کو ”اوقات ِ نماز“ کی اطلاع ہو جایا کرے، تاکہ سب لوگ، وقت پر مسجد میں حاضر ہو کر باجماعت نماز ادا کر سکیں ، چناں چہ بعض صحابہ کرام رضی الله عنہم نے یہ مشورہ دیا کہ نماز کے وقت کسی بلند جگہ پر ”آگ“ روشن کر دی جایا کرے، تاکہ اُسے دیکھ کر لوگ مسجد میں جمع ہو جایا کریں۔ بعض نے کہا کہ نصاری کی طرح ”ناقوس“ بنالیا جائے اور بعض نے کہا کہ یہود کی طرح ”سینگ“ بنا لیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔
چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان تجاویز کے سلسلے میں عرض کیا کہ ”آگ“ تو مجوسی اپنی عبادت کے وقت اعلان کے لیے روشن کرتے ہیں، اسی طرح ”ناقوس“ نصاری اپنی عبادت کے وقت اعلان کے لیے بجاتے ہیں، اور سینگ یہودی استعمال کرتے ہیں لہٰذا ہمیں یہ طریقے اختیار نہ کرنے چاہییں کہ اس سے یہود ونصاریٰ اور مجوس کی مشابہت لازم آتی ہے، بلکہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ سوچنا چاہیے! بات معقول تھی، اس لیے بغیر کسی فیصلہ کے مجلس برخاست ہو گئی او رصحابہ کرام رضی الله عنہم اپنے اپنے گھر تشریف لے گئے، ایک صحابی حضرت عبدالله بن زید رضی الله عنہ نے جب یہ دیکھا کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم اس سلسلے میں بہت زیادہ فکر مند ہیں اور کوئی بہتر طریقہ سامنے نظر نہیں آرہا تو وہ بہت پریشان ہوئے، اُن کی دلی خواہش تھی کہ یہ مسئلہ کسی نہ کسی طرح جلد از جلد طے ہوجائے، تاکہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی فکر وپریشانی دور ہو جائے، چناں چہ یہ اسی سوچ وفکر میں گھر آکر سو گئے، رات کو خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک فرشتہ اُن کے سامنے کھڑے ہو کر اذان کے کلمات کہہ رہا ہے۔
جب صبح ہوئی تو اُٹھ کر بارگاہ ِ رسالت صلی الله علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اوراپنا خواب بیان کیا، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”بلاشبہ یہ خواب سچا ہے“ اور فرمایا کہ : ”بلال (رضی الله عنہ) کو اپنے ہم راہ لو اور جو کلمات خواب میں تم کو تعلیم کیے گئے ہیں وہ ان کو بتاتے رہو، وہ انہیں زور زور سے ادا کریں گے ،کیوں کہ وہ تم سے بلند آواز ہیں۔“ ( مظاہر حق جدید، شرح مشکوٰة شریف) چناں چہ جب حضرت بلال رضی الله عنہ نے اذان دینا شروع کی اور اُن کی آواز شہر میں پہنچی تو حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ دوڑتے دوڑے آئے او رعرض کیا کہ : ”یا رسول الله! قسم ہے اُس ذات پاک کی کہ جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، ابھی جو کلمات ادا کیے گئے ہیں میں نے خواب میں ایسے کلمات سنے ہیں۔“ یہ سن کر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ منقول ہے کہ اُسی رات میں دس، گیارہ یا چودہ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے ایسا ہی خواب دیکھا تھا، بہرحال اذان کی مشروعیت میں صحیح اور مشہور یہی ہے کہ اس کی ابتدا حضرت عبدالله بن زید انصار ی او رحضرت عمر فاروق رضی الله عنہما کا یہی خواب تھا،جو انہوں نے اس رات دیکھا تھا۔
اس میں شک نہیں کہ ”اذان “الله تعالیٰ کے اذکار میں سے ایک عظیم ترین او رایک اہم ترین ذکر ہے، جس میں الله تعالیٰ کی وحدانیت اور حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت کا اعلان کیاجاتا ہے، لوگوں کو کام یابی وکم رانی کی طرف بلایا جاتا ہے اور اسلام کی شان وشوکت کا ایک بہترین عملی مظاہرہ کیا جاتا ہے، جس کی مثال دُنیا کے کسی بھی مذہب میں نہیں پائی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ”اذان“ دینے کی اہمیت وفضیلت اور اس کا اجروثواب احادیث وروایات میں بہ کثرت ہوا ہے۔
چناں چہ حضرت معاویہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے سرورکائنات صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن سب سے اُونچی گردنوں والے لوگ” مؤذن“ ہوں گے۔ (صحیح مسلم) حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ”مؤذن“ کی انتہائی آواز کو جو بھی سنتا ہے خواہ انسان ہو یا جن یا اور کوئی بھی چیز ہو تو وہ سب قیامت کے دن اس (کے ایمان) کی گواہی دیں گے ۔“ (صحیح بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رحمت کائنات صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :”اذان دینے والے کی بخشش اُس کی آواز کی انتہا کے مطابق کی جاتی ہے۔ ہر خشک وتر چیز اور نماز میں آنے والے آدمی اس کے (ایمان کے) گواہ ہو جاتے ہیں۔ پچیس (25) نمازوں کا ثواب (اس کے زائد اعمال میں ) اس کے لیے لکھا جاتا ہے اور ایک سے دوسری نماز کے درمیان اُس سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں وہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔“(احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ) حضرت ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ”جو شخص (مزدوری اور اُجرت کے لالچ کے بغیر) محض ثواب حاصل کرنے کی نیت سے سات سال تک اذان دے تو اُس کے لیے جہنم سے نجات لکھ دی جاتی ہے۔“(ترمذی وابن ماجہ)
حضرت عقبہ بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ہادیٴ عالم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :” تمہارا رب راضی ہوتا ہے پہاڑ کی چوٹی پر بکریاں چرانے والے سے، جو نماز کے لیے اذان دیتا ہے او رنماز پڑھتا ہے، پس الله عزوجل (ملائکہ مقربین سے) فرماتے ہیں کہ :” میرے اس بندے کی طرف دیکھو کہ یہ پابندی سے اذان دیتا ہے اور (پابندی کے ساتھ ) نماز پڑھتا ہے او رمجھ سے ڈرتا ہے، پس میں نے اپنے ( اس) بندے کے گناہ بخش دیے ہیں او رمیں اس کو جنت میں داخل کروں گا۔“ (ابوداؤد ونسائی)
حضرت عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :”جب مؤذن”الله أکبر، الله أکبر“ کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص”الله أکبر، الله أکبر“ کہے ، پھر جب مؤذن ”أشہد أن لا ألہ إلا الله“ کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ”اشہد ان لا ألہ إلا الله الله“ کہے، پھر جب مؤذن”أشہد أن محمد رسول الله“ کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص”أشہد أن محمد رسول الله“ کہے ، پھر جب مؤذن”حی علی ٰ الصلوٰة“ کہے تو تم میں سے ہر شخص ”لا حول ولا قوة إلا بالله“ کہے ،پھر جب مؤذن ”حی علی الفلاح“ کہے تو تم میں سے ہر شخص ”لاحول ولا قوة إلا بالله“ کہے، پھر جب مؤذن ”الله أکبر، الله أکبر“ کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ”الله اکبر الله اکبر“ کہے، پھر جب مؤذن ”لا إلہ إلا الله“ کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ”لا إلہ الا الله“ کہے۔ پس جس نے (اذان کے کلمات کے جواب میں یہ کلمات ) صدق دل سے کہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔“ (صحیح مسلم)
حضرت عبدالله بن عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :”جب تم مؤذن کی آواز سنو تو اُس کے الفاظ کو دہراؤ او رپھر (اذان کے بعد) مجھ پر درود بھیجو، کیوں کہ جو شخص ایک مرتبہ مجھ پر دورد بھیجتا ہے الله تعالیٰ اس کے بدلہ میں دس مرتبہ اس پر رحمت نازل فرماتا ہے، پھر ( مجھ پردرود بھیج کر ) میرے لیے(الله تعالیٰ کے وسیلے سے) دعا کرو!” وسیلہ“ جنت کا ایک (اعلیٰ) درجہ ہے، جو الله تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا او رمجھ کو امید ہے کہ وہ خاص بندہ میں ہی ہوں گا، لہٰذا جوشخص میرے لیے وسیلہ کی دعا کرے گا(قیامت کے دن) اس کی سفارش مجھ پر ضروری ہو جائے گی۔“ (صحیح مسلم)
حضرت ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :”قیامت کے دن تین آدمی مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے، ایک وہ غلام کہ جس نے الله تعالیٰ کے بھی حقوق ادا کیے او راپنے آقا کے بھی حقوق ادا کیے اور دوسرا وہ شخص جو لوگوں کو نماز پڑھاتا ہو اور لوگ اس سے خوش ہوں اور تیسرا وہ شخص جو روزانہ پانچ نمازوں کے لیے اذان کہتا ہو۔“ (جامع ترمذی)
الغرض اذان دینے کے فضائل وبرکات اور ان پر گراں قدر اجر وثواب کا ملنا احادیث وروایات میں بہ کثرت وارد ہوا ہے، جن پر صحیح طرح سے عمل پیرا ہونا اور انہیں ٹھیک ٹھیک بجالانا انسان کی بخشش ومغفرت کے لیے کافی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اندھیروں میں جا کر مسجدوں کو آباد کرتے ہیں، ان میں کلام پاک کی تلاوت کرتے ہیں ،الله تعالیٰ کا ذکر اوراس کی تسبیحات کرتے ہیں اور لوگوں کو الله کا منادی بن کر روزانہ صبح وشام پانچ مرتبہ نماز کی طرف او رکام یابی وکام رانی کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں۔