اخلاق انسانی رویے کا نام ہے، دنیا کا کوئی ایک مذہب ایسا نہیں جو اخلاقی قدروں کی تعلیم نہ دیتا ہو۔ اسلام کی اخلاقی تعلیمات اعلیٰ ترین ہیں۔اعلیٰ اخلاق کے بغیر انسان نا مکمل ہے،جس طرح پھول رنگ و بو کے بغیر بے کار ہے ، اسی طرح انسان بغیر اخلاق کے بت کے سوا کچھ نہیں۔
اخلاقی قدروں سے عاری شخص صحیح معنوں میں انسان ہی نہیں ہے، یہ نہ ہو تو دنیا کا پر امن رہنا نا ممکن ہے، بد اخلاقی ہر سماجی برائی کی جڑ ہے، اسی سے گھروں کا سکون برباد ہوتاہے اور اس کی بدترین شکل قوموں کو لے ڈوبتی ہے ۔بدترین اخلاق کے باعث قوم حضرت لوط او رقوم حضرت نوح علیہما السلام کو عذاب الہٰی سہنا پڑا، آج ان کا نام و نشان باقی نہیں ۔ اخلاق انسانیت کی روح ہے۔
اخلاقی قدروں سے عاری انسان صحیح معنوں میں انسان ہی نہیں ہے، اسلام سے قبل اخلاق حسنہ کی تکمیل نہیں ہوئی تھی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اعلیٰ ترین اخلاقی قدروں کی تعلیم فرمائی۔اخلاقی اصول و ضوابط ہر ملک میں موجود ہیں۔ اور دنیا کے ہر مذہب نے اخلاقی قدروں کا مجموعہ پیش کیا ہے، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم تک جتنے بھی نبی اور پیغمبر تشریف لائے، جتنے بھی پیشوا، ہادی اور مبلغ ہوئے، وہ سب اخلاقیات کی تبلیغ کرتے رہے ہیں، مگر اخلاق کا جو ہمہ گیر درس اسلام نے دیاہے دیگر مذاہب اس سے خالی ہیں۔انسانی زندگی کے ہر شعبے میں اخلاقی قدروں کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ جب لوگوں کو کسی کام سے فائدہ پہنچتا ہے تووہ اس کام کو پسند کرتے ہیں اور خود کام کرنے والا بھی اس بات کو فطری طور پر چاہتا ہے کہ میرے اچھے کام لوگوں کو معلوم ہوں ۔ اچھے اخلاق سے لوگوں کو فائدہ ہی پہنچے گا اور نیکی وہی ہوسکتی ہے جس سے مخلوق کو فائدہ پہنچے ۔اسلام نے اخلاق کو اعلیٰ ترین مقام پر پہنچایا۔ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ اخلاق کی تکمیل کروں۔
اس حدیث پاک سے واضح ہواکہ اسلام سے قبل اخلاق حسنہ کی تکمیل نہیں ہوئی تھی، بلکہ ہر قوم کو محدود معاشرتی و سماجی مسائل کے مطابق اخلاقیات کی تعلیم دی گئی تھی، مگر چوں کہ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی ذات اقدس پر دین مکمل ہوا تھا ،اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کو دنیا کا سب سے بڑا معلم اخلاق بنا کر بھیجا گیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اعلیٰ اخلاق کا نمونہ تھے، بہت رحم دِل تھے، شفیق تھے، امانت دار تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے کبھی کسی کو تکلیف نہ پہنچی، آپ صلی الله علیہ وسلم صاحب اخلاق تھے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں ،ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم ہے کہ جب تک تم ایمان نہ لاؤ جنت میں داخل نہیں ہو سکتے اور تم ایمان نہیں لاؤ گے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلاؤں کہ جب تم وہ کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو؟ فرمایا کہ تم اپنے درمیان سلام کو پھیلاؤ۔
حسن خلق کے اجزا بیان کرتے ہوئے علامہ خازن اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ لوگوں سے محبت کرنا، معاملات کی درستگی ، اپنوں اور بیگانوں سے اچھے تعلقات رکھنا، سخاوت کرنا، بخل اور حرص سے پرہیز کرنا، تکلیف پہنچنے پر صبر کرنا اور ادب واحترام کے تقاضوں کو پورا کرنا۔ امام غزالی نے حسن خلق کے بارے میں نہایت قیمتی بات کہی ،فرماتے ہیں۔حسن خلق کا ثمرہ الفت ہے اور برے اخلاق کا پھل بیگانگی اور دلوں کی دوری ہے۔
حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم بہت رحم دل تھے ، جو بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آتا (اور سوال کرتا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس کچھ نہ ہوتا) تو اس سے آپ صلی الله علیہ وسلم وعدہ کرلیتے (کہ جب کچھ آئے گا تو تمہیں ضرور دوں گا) اور اگر کچھ پاس ہوتا تو اسی وقت اسے دے دیتے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
آپ خلق عظیم کی بلندیوں پر فائز ہیں۔
قرآن پاک میں ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اپنے رب کی طرف بلاؤ تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقے سے بات کرو جو سب سے بہتر ہو، بے شک تمہارارب خوب جانتا ہے۔رب کریم نے اپنے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کو اچھا یعنی احسن طریقہ اپنانے کی ہدایت کی۔ اخلاق کا اتنا مقام ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بھی حکم خداوندی کے مطابق ہمیشہ دلیل اور اخلاق سے لوگوں کو صراط مستقیم کی جانب بلایا۔اور پھر رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ہر ہر قدر کو نکھارا اور سنوارا اور دنیا کے سامنے ایک مکمل ترین ، جامع ترین نظام اخلاق پیش فرمایا۔جس کو دیکھ کر دنیا کے ہر باشعور فرد نے اس کی عظمت وبلندی کا اعتراف کیا۔حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اخلاق کو جنت میں جانے کا ذریعہ فرمایا۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
انسان ایمان کی حقیقت کو اس وقت پائے گا جب وہ لوگوں کے لیے بھلائی میں وہی پسند کرے جواپنے لیے پسند کرتا ہے۔
یعنی جو شخص چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے ، رحم سے پیش آیا جائے تو وہ بھی خلق خدا کے ساتھ شفقت اور محبت کا برتاؤ روا رکھے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے اخلاق کو ایمان کا ایک جز قرار دیا ہے، اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
وہ مومن نہیں، جس کے ہاتھ او زبان سے لوگ محفوظ نہ ہوں۔
حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اخلاق کے حاملین کو مومن اور برے اخلاق والوں کو منافق قرار دیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
مومن وہ ہے جو وعدہ پورا کرے، جب گفت گو کرے تو اس کی زبان سے سچ ہی نکلے۔ جب اس کو امانت دار بنایا جائے تو وہ ا مین ثابت ہو۔ خیانت نہ کرے۔ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:جو بے وفائی کرے، جھوٹ بولے، خیانت کرے، غیبت اور چغل خوری کرے، وہ منافق ہے۔
یہاں تک کہ بغیر محاسن اخلاق کو اپنائے نماز اور روزہ بھی ذریعہ نجات نہیں ہوں گے، کیوں کہ اخلاق حقوق العباد میں شامل ہے ۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کہ ، تم جانتے ہو کہ میری امت کا مفلس اور نادار شخص کون ہے ؟ صحابہ کرام نے فرمایا کہ جس کے پاس مال و دولت نہ ہو۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
نہیں! و ہ مفلس ہے جو نماز اور روزہ کی بجاآوری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوا ہو، مگر اس نے لوگوں کے حقوق سلب کیے ہوں ،ان کے اموال غصب کیے ہوں ، غیبت اورچغلی کی، خون ناحق کیا، پس جب بارگاہ الٰہی میں لوگ اس کے خلاف فریاد کریں گے تو اس کے سارے نیک اعمال فریادیوں کو دے دیے جائیں گے اور اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔
ایک مرتبہ ایک صحابی نے عرض کیا،ہمارے پڑوس میں دو خواتین رہتی ہیں۔ایک تو شب و روز عبادت میں مصروف رہتی ہے، لیکن پڑوسی اس کی بد اخلاقی سے ناخوش ہیں ، نالاں ہیں۔ دوسری خاتون فرائض او ر واجبات ادا کرتی ہے اور پڑوسی بھی اس سے خوش ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جس کے پڑوسی خوش ہیں وہ ا چھی ہے اور جنت میں جانے والی ہے۔
حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ نیکی اور گناہ کیا ہے؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تم اس بات کو برا سمجھو کہ لوگ اس پر مطلع ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں باہمی معاملات کے آداب قرآن مجید میں سکھائے ہیں، باہمی معاملات میں باہمی رضا مندی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ باہمی رضا مندی جتنی گرم جوشی، دیانت داری اور خلوص پر مبنی ہو گی۔ لین دین کے معاملات اتنے زیادہ مضبوط قابل اعتماد اور منافع بخش ہوں گے، اس لیے کہ باہمی رضا مندی تمام تجارتی امور کی پہلی بنیادی اینٹ ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:اے ایمان والو!تم آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ، مگر یہ کہ باہمی رضا مندی سے تجارت ہو۔
اسی طرح غصہ بھی بد اخلاقی کا ایک عنصر ہے، حضرت ابوہریرہسے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: پہلوان اور طاقت ور وہ شخص نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے، بلکہ طاقت ور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو پالے۔
مفاد، ذاتی اصولوں اور خواہشات کی مخالفت پر آنے والا غصہ دبانا اور بجھانا ضروری ہے ۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے متقین کی ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی:﴿ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظ﴾(وہ لوگ جو غصہ کو بجھانے والے ہوتے ہیں) ۔ متقی کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس پر قابورکھتا ہے۔
کسی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے، اس سے منع فرمایا گیا ہے۔ حضرت واثلہ بن اسقع سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بھائی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار مت کرو، (اگر ایسا کرو گے تو ہوسکتاہے کہ ) اللہ تعالیٰ اس کو اس مصیبت سے نجات دے دے اور تم کو مبتلا کردے۔
ریا کاری سے بھی بچیے،حضرت جندب سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا کہ جو شخص کوئی عمل (دوسروں کو)سنانے اور شہرت کے لیے کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو شہرت (اس عمل کی تشہیر )دے گا اور جو کوئی دکھاوے کے لیے نیک عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو خوب دکھائے گا۔
دکھاوے اور شہرت کی غرض سے نیک اعمال کرنے والوں کو ایک سزا ان کے اس عمل کی مناسبت سے یہ بھی دی جائے گی کہ ان کی اس ریاکاری اور منافقت کو خوب مشہور کیاجائے گا اور سب کو مشاہد ہ کرادیاجائے گا کہ بدبخت لوگ یہ نیک اعمال اللہ کے لیے نہیں کرتے تھے ، بلکہ نام ونمود اور دکھاوے اور شہرت کے لیے کیاکرتے تھے۔
دل کی قساوت مسلمان کا شیوہ نہیں ۔حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے اپنی قساوت قلبی (سخت دلی )کی شکایت کی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو اور مسکین کو کھانا کھلایا کرو۔سخت دلی اور تنگ دلی ایک روحانی مرض اور انسان کی بدبختی کی نشانی ہے، سائل نے حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے اپنے دل اور اپنی روح کی اس بیماری کا حال عرض کرکے آپ سے علاج دریافت کیاتھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو دو باتوں کی ہدایت فرمائی، ایک یہ کہ یتیم کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا کرو اور دوسرا یہ کہ فقیر مسکین کو کھانا کھلایا کرو۔
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا بتلایا ہوا یہ علاج علم النفس کے ایک خاص اصول پرمبنی ہے، بلکہ کہنا چاہیے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات سے اس اصول کی تائید اور توثیق ہوتی ہے ، وہ اصول یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے نفس یا قلب میں کوئی خاص کیفیت نہ ہو اور وہ اس کو پیدا کرنا چاہے تو ایک تدبیر اس کی یہ بھی ہے کہ اس کیفیت کو اور لوازم کو وہ اختیار کرے، انشاء اللہ کچھ عرصہ کے بعد وہ کیفیت بھی نصیب ہوجائے گی۔ دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کے لیے کثرت ذکر کا طریقہ جو حضرات صوفیائے کرام میں رائج ہے اس کی بنیاد بھی اسی اصول پر ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر کاربند رہنے کی توفیق عطا فرمائے ،آمین!