پچھلے زمانے کے تین نوجوانوں کا ایک مشہور واقعہ صحیحین یعنی بخاری و مسلم میں آیا ہے، جس میں ان کا اچانک ایک غار میں پھنس جانا اورپھر نیک اعمال کی برکت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے باہر نکل آنا مذکور ہے۔حضرت ابن عمرسے روایت ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:پچھلے زمانے میں تین آدمی کہیں راستے میں جا رہے تھے کہ اچانک بارش نے انھیں گھیر لیا۔ وہ تینوں پہاڑ کے ایک غار میں چلے گئے، (جب وہ اندر چلے گئے) تو غار کا منھ بند ہوگیا۔ اب تینوں آپس میں کہنے لگے کہ اللہ کی قسم!تمھیں اس مصیبت سے اب تو صرف سچائی ہی نجات دلاسکتی ہے، بہتر یہ ہے کہ اب ہر شخص اپنے کسی ایسے عمل کو بیان کر کے دعا کرے، جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ عمل اس نے خالص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے کیا تھا۔
مزدور کی مزدوری دینے والا
چناں چہ ان میں سے ایک نے اس طرح دعا کی:اے اللہ! تجھے خوب معلوم ہے کہ میں نے ایک مزدور رکھا تھا، جس نے ایک فرَق (تین صاع) چاول کی اُجرت پر میرا کام کیا، لیکن وہ شخص (کسی وجہ سے غصّے میں آ کر) چلا گیا اور اپنے چاول چھوڑ گیا۔ میں نے اس ایک فرق چاول کو لیا اور کاشت کی۔ پھر اس سے اتنا کچھ ہوگیا کہ میں نے پیداوار میں سے گائے بیل خرید لیے۔ اس کے بہت دن بعد وہ شخص مجھ سے اپنی مزدوری مانگنے آیا۔میں نے کہا:یہ گائے بیل کھڑے ہیں، ان کو لے جا۔اس نے کہا: میرا تو صرف ایک فرق چاول تم پر ہونا چاہیے تھا۔میں نے کہا: یہ سب گائے بیل لے جا، کیوں کہ یہ اسی ایک فرق کی آمدنی ہے۔آخر وہ گائے بیل لے کر چلا گیا۔اے اللہ ! اگر یہ ایمان داری میں نے صرف تیرے ڈر سے کی تھی تو، تو غار کا منھ کھول دے۔ چناں چہ اسی وقت وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔
والدین کی خدمت کرنے والا
دوسرے نے اس طرح دعا کی:اسے اللہ!تجھے خوب معلوم ہے کہ میرے ماں باپ جب بوڑھے ہوگئے تو میں ان کی خدمت میں روزانہ رات میں اپنی بکریوں کا دودھ لا کر پلایا کرتا تھا۔ ایک دن اتفاق سے میں دیر سے آیا، وہ سو چکے تھے۔ ادھر میرے بیوی بچے بھوک سے بلبلا رہے تھے، لیکن میری عادت تھی کہ جب تک والدین کو دودھ نہ پلا وں، بیوی بچوں کو نہیں دیتا تھا۔ مجھے انھیں بیدار کرنا پسند تھا اور نہ چھوڑنا(کیوں کہ یہی ان کی غذا تھی)۔ میں ان کا وہیں انتظار کرتا رہا، یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ اگر میں نے یہ کام تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا، تو ہماری مشکل دور کر دے۔ اس وقت وہ پتھر کچھ اور ہٹ گیا اور اب آسمان نظر آنے لگا۔
زنا سے رُک جانے والا
تیسرے نے اس طرح دعا کی:اے اللہ!میری ایک چچا زاد بہن تھی، جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی۔ میں نے ایک بار اس سے زنا کرنا چاہا، اس نے انکار کیا، مگر (وہ کسی مجبوری میں) اس شرط پر تیار ہوگئی کہ میں اسے سو اشرفی لا کر دے دوں۔ میں نے یہ رقم حاصل کرنے کے لیے کوشش کی، آخر کار مجھے مل گئی، تو میں اس کے پاس آیا اور وہ رقم اس کے حوالے کردی، اس نے مجھے اپنے نفس پر قدرت دے دی۔ جب میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان بیٹھ گیا تو اس نے کہا: اللہ سے ڈر اور مُہر کو بغیر حق کے نہ توڑ۔ میں کھڑا ہوگیا اور سو اشرفیاں بھی واپس نہیں لیں۔ اگر میں نے یہ عمل تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا، تو ہماری مشکل آسان کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مشکل دور کردی اور وہ تینوں باہر نکل آئے۔
عبرت کے پہلو
اس مختصر قصے میں عبرت کے کئی پہلو ہیں:صرف سچائی ہی نجات دلا سکتی ہےاعمال وہی مقبول ہیں جو اخلاص کے ساتھ کیے جائیں مزدور کی مزدوری یا بندوں کے حقوق کا ادا کرنا بہت بڑی نیکی اور نجات کا باعث ہےوالدین کی خدمت کرنا عظیم سعادت مندی اور قربِ خداوندی کا باعث ہے اللہ کے خوف سے زنا یا گناہ سے رُک جانا اور کسی مجبور کی مجبوری کا ناجائز فائدہ نہ اٹھانا، یہ عمل اللہ کو محبوب ہے۔اس واقعے میں یہی تعلیم دینا مقصود ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ان امور کو جس فصاحت و بلاغت کے ساتھ بیان کیا گیا،وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا معجزہ ہے۔بہ طور خاص یہ جملہ:”اتَّقِ اللَّہَ وَلَا تَفُضَّ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّہِ“اللہ سے ڈر اور مہر کو بغیر حق کے نہ توڑ۔اس میں خطیبوں اور لکھاریوں کے لیے بڑا سبق ہے کہ کس طرح حیا کے ساتھ مقصود کو بیان کیا جاتا ہے۔
حالاتِ حاضرہ
آج یہ تینوں گناہ دھڑلّے سے کیے جا رہے ہیں:مزدور کی مزدوری یا کم زور کا حق مارنابیوی بچوں کے مقابلے میں والدین کے حقوق ادا نہ کرنا کسی کی مجبوری کا ہر ممکن فائدہ اٹھانا، ناجائز طریقوں سے شہوانی خواہش پوری کرنا۔رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے پندرہ صدیاں قبل اس واقعے کو بیان کر کے امت کو یہ تعلیم دی کہ ان نوجوانوں کے یہ اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور ایسے مقبول ہوئے کہ ان کے وسیلے سے دعا کرنے پر ان کی بہ راہِ راست مدد کی گئی۔ آج بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضاومحبت کے لیے گناہوں سے اجتناب کیا جائے، اس کا فائدہ ہمیںآ خرت میں تو ملے گا ہی، دنیوی پریشانیاں بھی دور اور مشکلات حل ہوں گی۔ہاں!اخلاص شرط ہے۔اس واقعے میں ہر نوجوان کی دعا کے آخر میں یہ جملہ:”فَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنِّی فَعَلْتُ ذَلِکَ مِنْ خَشْیَتِکَ“اگر میں نے یہ عمل تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا۔ یہ سبق دیتا ہے کہ ہم زندگی میں جو کچھ کریں، ہمارے پیش نظر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہونی چاہیے۔ آدمی مخلوق کو تو دھوکا دے سکتا ہے، لیکن خالق کے ساتھ اس کی چال بازیاں نہیں چل سکتی۔