ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)
انبیاء علیہم السلام کی میراث اور اہلِ سنت کا موقف
اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقید ہ ہے کہ میراث کے یہ احکام امت کے لیے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ ان احکام سے مستثنیٰ ہے، آپ کے ورثاء میں ترکہ تقسیم نہیں ہو گا، کیوں کہ انبیاء علیہ السلام کے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی۔
آپ علیہ السلام کے انتقال فرما جانے کے بعد آپ کے ترکہ کی حیثیت مسلمانوں پر وقف شدہ مال کی طرح ہو گی، خلیفہ وقت کو اختیار ہے وہ اس میں جیسا چاہے تصرف کرے ،جیسا کہ خلیفہ بلافصل سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار ، ذرہ، ایک مادہ خچر، جسے ”دلدل“کہا جاتا تھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خصوصی طور پر عنایت فرمایا، حالاں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی بھی طریقے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث نہیں بنتے تھے۔ (احکام القرآن للتھانوی،النساء، ذیل آیت:11)
اہل سنت کی دلیل
اس موقف پر سب سے مضبوط دلیل خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، ”لانورث، ماترکنا صدقة“․ (صحیح بخاری، رقم:2346،6728،صحیح مسلم، رقم:4679، سنن ابی داؤد، رقم:2970،سنن النسائی، رقم:14159، جامع الترمذی، رقم:1610 مسند احمد بن حنبل: مسند ابی بکر صدیق)
ہم(یعنی انبیاء کی جماعت) مالی وراثت چھوڑ کر نہیں جاتے، بلکہ ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے، چناں چہ اسی فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ،حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے اپنے عہد خلافت میں مکمل اختیار رکھنے کے باوجود ترکہ نبوی کو تقسیم نہیں فرمایا۔
اہل تشیع کا موقف اور دلیل
اہل تشیع کا موقف یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو مملوکہ اموال اور ترکہ ورثاء میں تقسیم ہوتا ہے اور اس کی دلیل قرآن کریم کی آیت میراث(یوصیکم اللہ فی اولادکم…الخ)
اس آیت میں فوت شدگان کے ترکہ کی تقسیم کا حکم امتیوں کو دیا گیا ہے، یہی حکم آپ علیہ السلام کے ترکہ کا بھی ہے، اس آیت کے حکم سے انبیاء علیہم السلام کے ترکے کو مستثنیٰ کرنا درست نہیں ہے، اس سے آیت کے عمومی حکم میں تخصیص لازم آتی ہے۔
اہل تشیع کی بیان کردہ دلیل کا جواب
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کئی احکام ، عمومی احکام سے مستثنیٰ ہیں ۔مثلاً اس آیت کے سیاق و سباق میں اہل ایمان کو بیک وقت چار نکاح کرنے کی اجازت دی گئی ہے، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم سے مستثنیٰ ہیں، اہل ایمان کے لیے کتابیہ باندی سے استمتاع درست ہے، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ممانعت ہے۔
میراث ہی کے احکام پر نظر کریں تو کئی احکام اس عمومی حکم سے مستثنیٰ ہیں، مثلاً کافر اور مسلمان میں باہمی وراثت تقسیم نہیں ہوتی، حالاں کہ آیت میں تقسیم میراث کا حکم عام ہے، جو شخص اپنے مورث کو قتل کر دے وہ اپنے مورث کے اس حصے سے محروم کر دیا جاتا ہے، حالاں کہ آیت کے عمومی حکم میں اس کا استثناء نہیں ہے، اہل تشیع کے ہاں عورت کو غیر منقولہ جائیداد سے حصہ نہیں دیا جاتا،حالاں کہ حکم عام ہے، چناں چہ کلینی نے ابو جعفر سے بیان کیا۔
عورتیں زمینی جائیداد میں کسی چیز کی وارث نہیں ہوتیں۔
(فروع الکلینی، 7/1678، کتاب المواریث باب: ان النساء لا یرثن : رقم الحدیث:4)
اہل تشیع کے محقق و مجتہد محمد بن حسن طوسی نے اپنی کتاب ”تہذیب الاحکام“ ( جو شیعوں کی چار بنیادی کتابوں میں سے ایک ہے) میں شیخ میسر کا قول نقل کیا ہے، میں نے ابو عبداللہ سے عورتوں کے بارے میں سوال کیا کہ میراث میں عورتوں کا کیا حق ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ان کے لیے میراث میں اینٹ ، لکڑی، عمارت، بانس اور سرکنڈے کی قیمت میں حصے کا استحقاق ہے، جہاں تک زمین اور غیر منقولہ جائیداد کا تعلق ہے،تو اس میں انہیں بطورِ میراث کچھ نہیں ملے گا۔(تہذیب الاحکام، 9/254محمد بن حسن طوسی)
مذکورہ بالا تمام احکام آیت کریمہ کے عمومی حکم سے مستثنیٰ ہیں ،لیکن انہیں آیت کے معارض نہیں سمجھا جاتا، بلکہ آیت کی تفسیر بذریعہ حدیث رسول شمار کی جاتی ہے، اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ کا ورثاء میں تقسیم نہ ہونے کا حکم خود آپ کی حدیث سے ثابت ہے، اس حدیث کے ذریعے آپ کے ترکے کا حکم امتیوں کے ترکے کے حکم سے مستثنیٰ ہوگا۔
ایک شبہ اور اس کا جواب
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی روایت ”نحن معاشر الأنبیاء لا نورث“خبر واحد ظنی ہے اورقرآن کریم کا حکم میراث قطعی ہے، دلیل ظنی کے ذریعے امر قطعی کی تخصیص نہیں کی جاسکتی۔
جواب… مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے احکام القرآن میں اس شبہ کی تردید میں فرمایا:اسے خبر واحد کہنا علوم حدیث سے ناواقف ہونے کی دلیل ہے، کیوں کہ اس حدیث کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ ایک بڑی جماعت نے نقل کیا ہے، ان میں حضرت حذیفہ بن الیمان، حضرت زبیر بن العوام، حضرت ابو الدرداء، حضرت ابو ہریرہ ، حضرت عباس، حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہعنہم جیسے کبار صحابہ کرام شامل ہیں۔
لہٰذایہ خبر واحد نہیں، خبر متواتر ہے اور تواتر قطعیت کا فائدہ دیتا ہے، ایسی خبر متواتر سے قرآن حکیم کے کسی حکم کی تخصیص بالاتفاق جائز ہے، اگر بالفرض اس ساری تفصیل سے تواتر ثابت نہ ہو،تب بھی ہم یہ کہتے ہیں کہ کتاب اللہ کی تخصیص صحیح قول کے مطابق خبر واحد سے بھی جائز ہے، آلوسی رحمہ اللہ نے روح المعانی میں یہی نقل فرمایااور یہی ائمہ اربعہ رحمہ اللہ کا قول ہے، نیز اس کے جواز پر صحابہ کرام کا اجماع دلالت کرتا ہے، کیوں کہ صحابہ کرام خبر واحد کے ذریعے کتاب اللہ کی تخصیص کرتے تھے، خود اہل تشیع نے قرآن کریم کے بہت سے ایسے احکام جن میں ”حکم عام“تھا ان میں خبر واحد کے ذریعے تخصیص کی ہے، چناں چہ اسی مسئلہ میراث میں خبر واحد کی بناء پر عورت کو غیر منقولہ جائیداد سے محروم کرتے ہیں، انہیں حصہ نہیں دیتے، حالاں کہ یہ آیت کے عمومی حکم کے خلاف ہے۔(احکام القرآن للتھانوی، النساء:11)
روافض کی دوسری دلیل
اہل تشیع نے انبیاء علیہم السلام کے مال میں وراثت جاری ہونے میں دوسری دلیل میں یہ آیت پیش کی ہے، ﴿وورث سلیمان داؤد﴾․(النمل:16)
اس آیت سے معلوم ہوا حضرت سلیمان اپنے والد حضرت داؤد علیہ السلام کے وارث ہوئے تھے۔
وراثت روحانی ہونے کے ساتھ ساتھ دنیاوی بھی تھی، کیوں کہ قرآن کریم میں وراثت عام ہے، دونوں کو شامل ہے، صرف روحانی مان کر دنیاوی کا استثنا بلادلیل درست نہیں ہے۔
جواب…یہ وراثت جس کا ذکر قرآن مجید کی آیت ﴿وورث سلیمان﴾ میں ہوا ہے روحانی تھی، اور اس سے مراد علم و نبوت کی میراث ہے، اس کی دلیل یہ ہے حضرت داؤد علیہ السلام کے انیس صاحب زادے تھے، جیسا کہ اہل تاریخ نے ذکر کیا ہے۔(ناسخ التواریخ 1/270میں آپ کے سترہ بیٹوں کا ذکر ہے) لیکن ان میں سے کسی کی وراثت کا تذکرہ نہیں ہوا ،صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کا ہوا ہے، اگر دنیاوی سامان کی میراث کا تذکرہ ہوتا تو سب صاحب زادوں کا تذکرہ ہوتا، کیوں کہ تمام صاحب زادے اس کا حصہ رکھتے تھے، لیکن حضرت داؤد علیہ السلام کے روحانی علم اور نبوت علم کے وارث ان میں صرف حضرت سلیمان علیہ السلام تھے، اس لیے ان کا تذکرہ خاص طور پر کیا گیا۔
نیز قابل ِغور بات یہ ہے کہ یہ آیت حضرت سلیمان علیہ السلام کی مدح پر مشتمل ہے، اگر وراثت سے مالی وراثت مراد لی جائے تو یہ کوئی کمال نہیں ہے ،نہ یہ کوئی امتیازی وصف ہے، کیوں کہ ہر اولاد اپنے والدین کے مال کی وارث بنتی ہے، خواہ وہ نیک ہو یا فاسق، اس میں آپ کی کیا خصوصیت؟
علاوہ ازیں آیت زیرِبحث کے آخری ٹکڑے﴿إن ھذا لھو الفضل المبین﴾کی تفسیر حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے نبوت اور بادشاہت سے کی ہے۔(تفسیر صافی:7332) حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کی اس تفسیر سے واضح ہوا اس آیت میں میراث سے میراث مالی مراد نہیں ہے ،بلکہ نبوت و بادشاہت کی میراث ہے، اس کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے، جس میں آپ نے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
(قال یا ایھا الناس علمنا منطق الطیر)․(النمل:16) کہا سلیمان نے اے لوگو!ہمیں جانوروں کی بولی سکھا ئی گئی ہے۔ آیت کا یہ حصہ بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت سلیمان نے حضرت داؤد علیہ السلام کی وراثت میں علم و نبوت ہی پایا تھا۔
اصول کافی میں حضرت جعفر رحمہ اللہ کی روایت ہے، آپ نے فرمایا:”وورث سلیمان، وورث محمد صلی اللہ علیہ وسلم سلیمان“․ (اصول کافی:ص:137)کہ حضرت سلیمان حضرت داؤد علیہ السلام کے وارث ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سلیمان کے وارث ہوئے۔
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سلیمان کے وارث مالی امور میں نہیں ہوئے، گویا حضرت جعفر صادق کے نزدیک بھی یہ وراثت روحانی تھی ،نہ کہ مالی۔
اس دعوے پر اہل تشیع کی طرف سے ایک دوسری آیت بھی پیش کی جاتی ہے ﴿یرثنی ویرث من اٰل یعقوب﴾․(مریم:6)
اس آیت سے انبیاء علیہم السلام کے ورثاء میں تقسیم میراث پر استدلال کرنا بھی درست نہیں ہے، بلکہ ایسا استدلال احمقانہ پن ہے اور وہمی اور فرضی مقدمات پر مبنی ہے،کیوں کہ اٰل یعقوب سے صرف یعقوب علیہ السلام کی ہی ذات ہو اور ان کی وراثت مراد ہو تو اس سے لازم آئے گا کہ یعقوب علیہ السلام کا حال حضرت زکریا علیہ السلام کے زمانے تک بغیر تقسیم کے باقی رہا، حالاں کہ دونوں جلیل القدر پیغمبروں کے درمیان دو ہزار سال کا فاصلہ ہے، اور اگر اٰل یعقوب سے مراد ان کی اولاد کی وراثت ہو تو اس کا تقاضا ہے کہ یحییٰ علیہ السلام تمام بنی اسرائیل کے وارث ہوئے ،خواہ وہ مرچکے ہوں، خواہ وہ تاحال زندہ ہوں، اس کی شناعت و قباحت تو پہلی صورت سے بھی بڑھ کر ہے۔
دوسری بات یہ ہے حضرات انبیاء علیہم السلام کی بلندنگاہی اولوالعزمی کے سامنے دنیا کے مال و متاع کی حیثیت مچھر کے برابر بھی نہیں ہوتی، ان نفوسِ قدسیہ سے یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتاکہ حضرت زکریا علیہ السلام اولاد کی تمنا اس لیے کریں کہ ان کا مال ان تک پہنچ جائے،بلکہ حضرت زکریا علیہ السلام کی تمنا صرف اس لیے تھی کہ ان کو اندیشہ تھا کہ بنی اسرائیل کہیں میرے بعد کوئی آڑ نا پا کر شریعت الہیہ میں تحریف نہ کریں، اس لیے حفظ دین کی نیت سے علم نبوت و روحانیت کے وارث ہونے کی دعا فرمائی۔
اہل تشیع کی کتابوں سے اہل سنت کے موقف کی تائید
خود شیعہ کتب سے اہل سنت کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی وراثت مالی نہیں ہوتی ، ان کی میراث اخلاق اور علمِ نبوت ہوتی ہے، اصول کافی اہل تشیع کی معتبر کتاب ہے، اس کے مؤلف محمد بن یعقوب، المعروف ابو جعفر کلینی ہے، ا نہوں نے حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کی روایت نقل کی ہے۔
”إن العلماء ورثة الأنبیاء ،وذلک أن الأنبیاء لم یورثوا درھما ولا دیناراً وإنما ورثوا أحادیث فمن أخذ بشيء منھا فقد أخذ بحظٍ وافر“․
بے شک علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں، وہ اس لیے کہ انبیاء اپنی وراثت درہم و دینار میں نہیں چھوڑتے، بلکہ وہ احادیث ہی اپنی وراثت میں چھوڑ جاتے ہیں، پس جس شخص نے احادیث سے کچھ حصہ لے لیا اس نے کافی وافی حصہ لے لیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحب زادے محمد بن حنفیہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
”وتفقہ في الدین، فإن الفقہاء ورثة الأنبیاء، إن الانبیاء لم یورثوا دیناراً ولا درھما ،ولکنھم ورثواالعلم فمن أخذ منہ أخذ بحظٍ وافرٍ“․
دین میں سمجھ بوجھ حاصل کر، کیوں کہ دین میں سمجھ بوجھ رکھنے والے(فقہائے کرام) ہی انبیاء کے وارث ہیں، انبیاء علیہم السلام اپنی وراثت میں درہم و دینار چھوڑ کر نہیں جاتے، وہ اپنے پیچھے علم کی میراث چھوڑ کر جاتے ہیں، جس نے علم دین حاصل کر لیا اس نے وافر حصہ علم میراث کا پا لیا۔
اہل تشیع کی معتبر کتاب خصال بن بابویہ میں ہے:
أتت فاطمہ بنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فی شکواہ الذی توفي فیہ فقالت : یا رسول اللہ!ھذان ابنان ورثھما شیئاً قال:أما الحسن فإن لہ ھیبتی، وأما الحسین فإن لہ جرأتي.(خصال بن بابویہ،ص:39)
حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ،آپ مرض الموت میں تھے، آپ نے عرض کیا یہ دونوں بچے ہیں انہیں کچھ میراث دیجیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسن کے لیے میری ہیبت ہے اور حسین کے لیے میری جرأت ہے۔
اس روایت سے واضح ہوا کہ آپ نے ان کو مالی وراثت دینے کی بجائے اخلاق عطا فرمائے، یہ روایت اہل تشیع کی دیگر معتبر کتابوں میں بھی موجود ہے۔(دیکھئے:مناقب فاخرہ للعسترہ الطاھرة، ص:189، شرح نہج البلاغة جدیدی، جلد دوم، جز شانزدہم ص:261)
اہل تشیع کا ایک شبہ
اہل تشیع کی طرف سے ایک مغالطہ یہ پھیلایا جاتا ہے کہ جب آپ علیہ السلام کی میراث تقسیم نہیں ہو سکتی، تو پھر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما کو حجرے کیوں دے دیے گئے تھے؟ اس مغالطے کا جواب یہ ہے کہ یہ حجرے ان ازواج مطہرات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم زندگی میں ہبہ کر گئے تھے اور زندگی ہی میں انہیں قبضہ بھی عطا فرمایا تھا، اس لیے آپ کے دنیا کے رخصت ہونے کے بعد وہ آپ کے ترکہ میں شامل ہی نہیں۔
قرآن کریم کی آیت :﴿وقرن فی بیوتکن﴾میں بیوت کی نسبت ازواج مطہرات کی طرف ان کی ملکیت پر دلالت کرتی ہے۔
اہلِ سنت اور اہل تشیع کی متفقہ روایات ہیں کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے بوقت وفات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حضور اقدس کے جوارِرحمت میں دفن ہونے کی اجازت طلب فرمائی، اگر یہ حجرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ملکیت نہ ہوتا تو پھر اجازت مانگنے کا کیا مطلب ہوتا؟
آپ علیہ السلام نے اس طرح کے حجرے حضرت اسامہ بن زید اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بھی بنوا کر ان کے قبضے میں دے دیے تھے۔جو انہیں کے پاس رہے۔(ملخص احکام القرآن للتھانوی، النساء، ذیل آیت رقم:11)
خلفائے راشدین کا طرز عمل
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کوپیغام بھیجا کہ فدک کے علاقے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ سے مجھے میری وراثت دی جائے۔(فدک خیبر کا ایک گاؤں ہے، جس میں چشموں اور کھجوروں کے باغ تھے، آپ علیہ السلام کو یہ باغ بغیر لڑائی کے مال فئی کے طور ملے تھے)حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑیں وہ صدقہ ہے اور اللہ کی قسم! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں ذرا بھر بھی تبدیلی نہیں لاؤں گا اور (اس کا خرچ) اسی حال میں رکھوں گا، جیسا عہد نبوی میں تھا، پس آپ نے اس میں سے کچھ بھی بطورملکیت ووراثت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے حوالے نہیں فرمایا(سنن ابی داؤد ،کتاب الخراج رقم الحدیث:1194) اپنے عہد خلافت میں اس باغ سے حاصل ہونے والے غلے اور آمدنی سے اہل بیت کے مصارف پورے کرتے رہتے، اہل تشیع کے معروف عالم ابن المیثم لکھتے ہیں:
حضرت ابو بکر نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:بے شک آپ کو اتنا ملے گا جو آپ کے والد گرامی لیتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فدک کے باغ سے تمہارا خرچ لے کر باقی غربا میں تقسیم فرما دیتے تھے یا مجاہدین کی ضروریات میں خرچ کر دیتے تھے، مزید آپ نے فرمایا: میرا آپ سے وعدہ ہے، میں ایسا ہی تصرف کروں گا، جیسے آپ کے والد گرامی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اللہ کی قسم !کیا آپ ویسا ہی تصرف فرمائیں گے؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اللہ کی قسم !ایسا ہی تصرف کروں گا۔ حضرت فاطمہ نے فرمایا: اے اللہ! تو گواہ ہو جا، چناں چہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس باغ کا کی آمدنی لے کر اہل بیت کی ضروریات پوری فرماتے اور باقی ماندہ حاجت مندوں میں تقسیم کردیتے، یہی طریقہ حضرت عمر نے اپنے دورِ خلافت میں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اپنایا اور یہی طریقہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں اپنا یا اور اسی طریقے پر باغ کا انتظام چلایا۔(شرح نہج البلاغة،5/875، رقم:44، باب المختار من کتب امیر المؤمنین )
الدُّرة النجفیة، شرح نہج البلاغة، ص:332،مطبوعہ تہران․
شیعہ حضرات سے چند سوالات
اگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے باغ کی تقسیم نہ کر کے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر ظلم کیا اورنعوذ باللہ ترکہ نبوی پر قابض رہے، تو یہی جرم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی ہوا، خلیفہ بننے کے بعد وہ بااختیار تھے، سالہا سال سے اللہ تعالی کی جاری شدہ نافرمانی کو بزورِ قوت بدل دیتے، حضرت فاطمہ کی اولاد کو حصص شرعیہ تقسیم فرمادیتے، مگر ہم دیکھتے ہیں، بلکہ خود اہل تشیع اقرار کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے طریقہ صدیقی کو اسوہ بنا کر اسی پر عمل کیا، تمہارے زعم کے مطابق حضرت علی امام معصوم تھے، امام اللہ کی نافرمانی کر کے معصوم کیسے رہ سکتا ہے؟
ایک طرف تم پروپیگنڈہ کرتے ہوکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو باغ فدک کے حصے سے محرو م کیا، دوسری طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب یہ حدیث بھی نقل کرتے ہو۔
جب کوئی شخص فوت ہو جائے تو اس کی غیر منقولہ جائیداد (مکان، باغ، زمین) سے عورت کو وراثت نہیں ملتی۔
ابو جعفرکہتے ہیں:
”اللہ کی قسم! یہ بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے لکھی ہوتی ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی املا کرائی ہوتی ہے۔ (بصائر الدرجات،1/233، باب فی الائمة، بحارالانوار،26/514)
کلینی نے ابو جعفر سے روایت نقل کی ہے عورتیں زمینی جائیداد میں کسی چیز کی وارث نہیں ہوتیں۔(فروع الکلینی ،کتاب المواریث، 7/1678)
لہٰذا ان شیعہ روایات کے مطابق حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حق ہی نہیں بنتا تھاکہ وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے باغ فدک کے حصہ کا مطالبہ کرتیں، بلکہ شیعہ روایات سے تو یہ معلوم ہوتاہے کہ ملکیت میں جو کچھ تھا اس کے مالک وارث ائمہ کرام ہوتے ہیں، چناں چہ محمد بن یحییٰ امام ابو جعفر سے نقل کرتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو پیدا کیا اور جو کچھ انہیں دیا اس کے وارث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، اس کے وارث ائمہ کرام ہیں۔“(اصول الکافی للکلینی، کتاب الحجة، باب أن الارض کلھا للإمام علیہ السلام،1/476)
اور حضرت علی ص شیعہ مذہب کے موافق سب سے پہلے امام ہیں۔
لہٰذا فدک کے باغ کی وراثت کے مطالبے کا حق حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تھا، نہ کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اور تاریخ گواہ ہے انہوں نے کبھی اس کا مطالبہ نہیں کیا۔
اب شیعہ حضرات ہی بتلائیں کہ حق مطالبہ کس کو تھا اور کس کو نہیں تھا؟ جس کا حق تھا اس نے مطالبہ کیوں نہیں کیا اور جس کا حق نہیں تھا انہوں نے مطالبہ کیوں کیا؟
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عطا کردہ سات گاؤں تھے، جن کے نام یہ ہیں ۔
دلال عفاف، برقہ، حسنی، صافیہ، مالام ابراہیم، معبیت، برقہ ، چنانچہ فروع کافی کی جلد ثالث میں مذکور ہے کہ احمد بن محمد نے امام موسی کاظم رحمہ اللہ سے ان سات باغوں کے متعلق دریافت فرمایا،آپ نے جواب دیا، یہ میراث نہ تھے، بلکہ وقف تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مہمان کے خرچ اس میں نکال لیتے تھے، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ ان کی بابت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے تقسیم کا مطالبہ کیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اور دیگر لوگوں نے گواہی دی کہ یہ حضرت فاطمہ پر وقف ہیں، تب انہوں نے مطالبہ ترک کر دیا۔(فروع کافی:3/142)
اس روایت سے مندرجہ ذیل امور میں روشنی پڑتی ہیں:
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس فدک کے علاوہ سات گاؤں تھے۔ یہ وقف تھے۔ آنحضرت کے وصال کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے تقسیم میراث کا مطالبہ کیا۔حضرت علی اور دیگر لوگوں نے وقف ہونے کی گواہی دی اور حضرت عباس کو کچھ نہیں دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گواہی سے حضرت عباس کا حصہ ختم ہو گیا اور اسے کوئی ظلم نہیں کہتا۔پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی گواہی اور حدیث رسول کی وجہ سے اگر حضرت فاطمہ کو باغ فدک کا حصہ بطورِ ملکیت نہیں دیا گیا تو یہ ظلم کیسے ہو گیا؟ کچھ توعدل و انصاف کو آواز دو، آخر تعصب کی بھی حد ہوتی ہے۔
چوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے باغ فدک کے انتظامات صدیقی طریقے پر رکھے اورانہوں نے اپنے عہد خلافت میں اختیار اور قدرت کے باوجود اس میں کوئی ردو بدل نہیں فرمایا،اس لیے شیعہ حضرات پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ عمل بہت بھاری بوجھ ہے اور ان کے زعم کے موافق تو عصمت امام بھی خطرے میں ہے، اس لیے بعض شیعہ یہ جواب دیتے نظر آتے ہیں کہ:
”ترکہ نبوی چوں کہ غصب ہو چکا تھا، اس لیے ائمہ غصب شدہ چیز واپس نہیں لیتے، اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس میں تصرف مناسب نہ سمجھا“۔
اس کا جواب اور اہل تشیع پر ایک سوال یہ ہے کہ خلافت بھی تو آپ کے نزدیک غصب ہو چکی ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ خلافت بلا فصل کے مستحق تھے، مگر تین خلفاء نے اپنے اپنے ادوار میں یہ حق حضرت علی کو نہیں دیا بلکہ غصب کیے رکھا ۔پھر کیا وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلافت جیسی عظیم چیز تو واپس لے لی، مگر ترکہ نبوی میں تصرف کو مناسب نہ سمجھا، اس قضاء و عمل کی کیا توجیہ ہے؟ (جاری)