آج ہم جس پھل کو متعارف کروارہے ہیں وہ دراصل آڑو ہے، آڑو جسے پورے کشمیر او رہزارے میں آرہ، جب کہ پورے صوبہ سرحد میں شفتا لو کہتے ہیں۔ آڑو کے پھولوں کا عرق شاید گلاب کیوڑہ کے بعد سب سے زیادہ اچھی اور پسندیدہ خوش بو والا ہوتا ہے۔ پشاور کے قدیم اطباء عرق بہار تیار کرتے تھے، موسم گرما میں پیٹ میں درد ہو، قے او رمتلی ہو ، دست ہوں یا کھٹی ڈکاریں ہوں، معدے میں جلن ہو تو پشاوری حکیم کا امرت دھارا عرق بہار ہوتا تھا۔
اگر آدمی کی تحقیق ہو تو دواؤں سے زیادہ فائدے اور شفایابی پھلوں میں نظر آتی ہے۔ آڑو کے فوائد پر دو طرح سے لکھا جاسکتا ہے، ایک توموسم گرما کے حوالے سے او رایک عام حوالے سے۔ موسم گرما کے حوالے سے اگر آڑو کا ذکر کیا جائے تو اس کے فوائد میں سرفہرست اس کی وہ خاصیت یا افادیت ہے، جو گرمی اور حرارت کو زائل کرنے کی اس میں قدرت نے رکھی ہے۔
ہم نے بارہا تجربہ کیا کہ جب گرمی میں پیاس کی شدت ہو، بار بار پانی پینے کو دل چاہے او رپانی پی پی کر پیٹ آپھر جائے، مگر سیری نہ ہو تو ایسے میں آڑوں کاا ستعمال ساحری کرتا ہے۔ بہت دفعہ ہم نے دیکھا کہ لوگ پیاس بجھانے کے لیے لیموں، سوڈا واٹر یا لیموں کی سکنجبین کا استعمال کرتے ہیں، مگر حقیقت میں یہ عارضی طور پر تشنگی کو کم کرنے کا سامان تو ضرور ہے، مگر مستقل طور پر تشنگی کو زائل کرنے والی چیز آڑوسے بہتر کوئی نہیں ہے۔
تجربہ شاہد ہے کہ لیموں کا شربت یا لیموں کی سکنجبین یا سوڈا واٹر میں لیموں کا استعمال اس طرح سے پیاس کو زائل نہیں کرتا جس طرح آڑو کرتا ہے۔ کتنی ہی لو اور پیاس ہو، حلق میں کانٹے ہوں، ایک عمدہ پکا ہوا آڑو کھا کر دیکھیے پانی کی طلب مٹ جائے گی۔ یہ بات مشروبات میں کہاں ؟ مشروبات شربت وغیرہ تو پیاس کو بھڑکاتے ہیں۔
ایک تجربہ راقم کو ابھی حال ہی میں ہوا، ایک مریضہ مطب میں آئی۔ دریافت کرنے پر بتایا کہ دو ماہ سے بخار آرہا ہے، رات کو کم ہو جاتا ہے، صبح کو نارمل ہوتا ہے، دوپہر کو تیز ہوتا ہے او رشام تک خوب تیز ہو جاتا ہے۔ ٹائیفائیڈ کا علاج بھی کیا ،اور بھی بہت علاج ہوئے، کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔
راقم نے پہلے سفوف طبا شیر خمیرہ مروارید او رپھر اسی قماش کی دوسری ادویات دیں، مگر حالت میں تھوڑی بہت تبدیلی کے سوا کچھ نہ ہوا، تب اچانک ذہن میں آڑو کا خیال آیا اور دواؤں کے ساتھ راقم نے ہدایت کی کہ پھلوں میں صرف آڑو کا استعمال رکھا جائے۔ پانچویں دن مریضہ نے بتایا کہ بخارا تر گیا اور طبیعت بھی بحال ہے، تب راقم نے دوائیں بند کر دیں اور غذائی ہدایات پر اکتفا کرتے ہوئے آڑوکھانے کی تلقین کی، جس سے ہفتہ بھر میں مریضہ کا نہ صرف بخار جاتا رہا ،بلکہ مریضہ کو بے حد توانائی اور فرحت بھی محسوس ہوئی۔
ایک بزرگوار مطب میں آئے، معلوم ہوا بلڈ پریشر ہائی رہتا ہے، اس کی تو انگریزی دوائیں چل رہی ہیں، مگر ادھر کچھ روز سے حیرت انگیز طور پر کم زوری محسوس ہونے لگی اور وزن بھی تیزی سے گر رہا ہے۔ شوگر کا شک ہوا، جس کا پوراپورا امتحان کروایا گیا، مگر شوگر نہیں نکلی، تب ڈاکٹر حضرات نے ٹانک تجویز کیے، مگر ان سے بڑے میاں کی حالت او رخراب ہوگئی اورپاخانے شروع ہو گئے، جس سے مزید کم زوری بڑھی، ساتھ ہی رات کی نیند بھی رخصت ہوئی۔
راقم نے نبض کا معائنہ کیا تو صفرا کا کیمیاوی عمل، یعنی جگر میں شدید تحریک پائی۔ بڑے میاں نے دوا لینے سے انکار کر دیا، بہت سمجھایا گیا کہ بد ذائقہ دوائیں نہیں ہیں، خمیرہ جات ہیں اور بے حد خوش بو دار اور خوش ذائقہ ادویات ہیں، مگر وہ نہ مانے، تب مجبوراً میں نے کہا کہ پھر ایسے کریں کہ ایک آڑو صبح کھائیں، ایک آڑو بہت عمدہ قسم کا دوپہر کو کھائیں او رایک آڑو رات کو کھائیں، غذا میں صرف دلیہ، کسٹرڈ، فرنی، کدو، توری، لوکی کا شوربہ پئیں، اس میں مرچ مسالہ نہ ڈالیں۔ سرپر کدو اور خشخاش کا تیل ہم وزن مالش کریں، آٹھ روز کے بعد مطلع کریں۔
آٹھ دن کے بعد بڑے میاں نے مطلع کیا کہ تمام عوارض میں افاقہ ہوا ہے، توانائی محسوس ہوئی ہے، گھبراہٹ نہیں ہے، بھوک لگتی ہے، نیندآنے لگی ہے۔
گرمی اور آڑو کے حوالہ سے ایک مشاہدہ بھی یاد آیا۔ دوبئی سے ایک مریضہ نے ٹیلیفون کیا کہ پیشاب میں سخت جلن ہے او رپیشاب بہت کم آتا ہے، اگر کوئی دوا ذہن میں ہو تو بتا دیں۔ مجھے سخت تکلیف ہے، کیوں کہ دوا کے آنے جانے میں تو بہت دیر ہو جائے گی۔ میں نے کہا کہ صبح، دوپہر اوررات دو دو آڑو کھائیں۔ غذا میں چاول، کدو، توری، لوکی وغیرہ بغیر مرچ مصالحہ کھائیں۔ دوسرے دن ٹیلیفون آیا او رمریضہ نے بیان کیا کہ کافی فائدہ ہے، تب میں نے ہدایت کی کہ جب تک مستقل شفایابی نہ ہو آڑو کا استعمال جاری رکھیں۔ آڑوں کا ایک اور فائدہ گرمی کے حوالہ سے یہ بھی ہے کہ گرمی کے سبب سے اگر سر میں درد ہو جائے، یہ درد عموماً نازک مزاجوں کو بہت ہوتا ہے، ذرا گرمی میں گئے سر درد شروع ہو گیا، ذرا چولہے کے پاس گئے سر درد شروع، ذرا کہیں شور میں گئے سردرد شروع، تو اس قسم کے سردرد کا آڑو بہت اچھا علاج ثابت ہوا ہے، اگر عین سردرد کی حالت میں آڑو کھایا جائے تو درد سرفوراً ساکن ہو جاتا ہے۔
گرمی کی وجہ سے اگر منھ کا ذائقہ تلخ ہو جاتاہو، منھ سوکھتا ہو تو اس کیفیت میں آڑو کا استعمال حیرت انگیز طور پر مفید ہے، اس کے کھانے سے نہ صرف یہ کہ تلخی ختم ہو جاتی ہے، بلکہ منھ کی خشکی بھی جاتی رہتی ہے۔
صفرا کی وجہ سے پیٹ میں جلن ہو یا پیٹ میں بے چینی محسوس ہوتی ہو، پاخانہ جلن سے اور جھاگدار زرد رنگ یا سرسوں کے تیل کے رنگ کا آتا ہو تو ایسی کیفیت میں بھی آڑو کا استعمال فائدہ کرتا ہے او رجملہ شکایات زائل ہو کر پیٹ میں سکون ہو جاتا ہے۔ اسی طرح پیشاب کی جلن اور رکاوٹ میں آڑو کا استعمال مفید پایا گیا ہے۔
گردے کے مریض اور یرقان کے مریضوں کو آڑو سے فائدہ ہوتا ہے، عام طور پر مریض طبیب سے خوراک وغذائی ہدایات کے بعد دریافت کرتے ہیں کہ پھلوں میں کیا کھائیں تو ایسے مریضوں کے لیے پھلوں میں آڑو بہترین پھل ہونے کے علاوہ ایک غذائی دوا بھی ہے ،یعنی غذائی علاج ہے۔
آڑو کے استعمال سے صفرا کی حدت اور شدت ٹوٹ جاتی ہے اور حرارت غیر طبعی میں تیزی سے کمی آجاتی ہے، جس کی وجہ سے صفرا کی وجہ سے حائل رکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں۔ مجاریٰ بدنی کھل جاتے ہیں،پسینہ آتا ہے، پیشاب خوب آتا ہے اور قبض نہیں رہتا۔ آڑو میں ریشہ بھی موجود ہے، وہی ریشہ جسے آنتوں کی جھاڑو کہا جاتا ہے چناں چہ آڑو کے استعمال سے پیٹ کی عفونت اور غلاظت صاف ہو جاتی ہے۔ بعض لوگ جن کی اجابت میں بو زیادہ ہوتی ہے آڑو کے استعمال سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
آڑو میں یہ بھی خاصیت ہے کہ یہ منھ کی بدبو کو دور کرتا ہے، خاص طور پر وہ بوجوبھوکے پیٹ زیادہ آتی ہے یا گرمی میں سفر کی وجہ سے زیادہ محسوس ہوتی ہے یا پیاس کی حالت میں منھ میں زیادہ بدبو پیدا ہونے کی شکایت ہو تو آڑو کے مسلسل استعمال سے یہ شکایت جاتی رہتی ہے۔
بعض مقرر حضرات یہ شکایت کرتے ہیں کہ مسلسل تقریر کرنے سے ان کے منھ میں خاص قسم کی بو پیدا ہو جاتی ہے، جو حاضرین کو ناگوار گزرتی ہے، میں نے ہمیشہ ان حضرات کو آڑو کھانے کا مشورہ دیا، جس سے انہیں فائدہ ہوا۔
گرمی کے حوالہ سے آڑو کے فائدے یا عام فوائد دراصل تکنیکی طور پر وہ تمام فائدے اس بنا پر ہیں کہ آڑو حقیقت میں جگرکی گرمی کی شدت کو توڑتا ہے او رخشکی کورفع کرتا ہے، چناں چہ اطباء نے اس کی طبیعت سرد ترلکھی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آڑو معدل صفراء ہے۔
اصل میں آڑو کا مرکزی خاصہ یہ ہے کہ یہ بدن میں فراوانی سے رطوبت پیدا کرتا ہے۔ بدن میں جب صالح رطوبت فراواں ہو گی تو ظاہر ہے کہ بدن کی خشکی رفع ہو جائے گی اور بدن میں تری پیدا ہو گی، اس کے ساتھ ہی گرمی بھی زائل ہوگی۔
آڑو کا ایک عام فائدہ یہ دیکھا ہے کہ اس کے استعمال سے بھوک کھل جاتی ہے، خاص طور پر بخار کے بعد ، طویل بیماری کے بعد جن مریضوں کی بھوک بند ہو جاتی ہے، ان کی بھوک آڑو کے استعمال سے کھل جاتی ہے تو اصل میں اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ آڑو سے آنتوں کی خشکی او رگرمی زائل ہو جاتی ہے۔ بھوک اگر گرمی کی وجہ سے زائل ہو تو آڑو اس کا بہترین مداوا ہے۔ اس سے فائدہ ضرور اٹھانا چاہیے۔ایک اور مشاہدہ بھی ہے کہ آڑو سے خون پتلا رہتا ہے، آڑو استعمال کرنے والے حضرات خون کے گاڑھے پن کا شکار کم ہی ہوتے ہیں۔ یہ تجربہ یوں ہوا کہ ایک صاحب مطب میں آئے، میں نے نبض پر ہاتھ رکھا تو ایک سو ساٹھ سے تجاوز کر رہی تھی، ان کا قول تھا کہ دو سو سے تجاویز کر جاتی ہے، کوئی علاج نہیں چھوڑا، نہ سبب معلوم ہوا ،نہ علاج کار گر ہوا۔ البتہ خون میں گاڑھا پن بتایا گیا ہے ،جس کے لیے دوا دی ہوئی ہے۔ راقم نے نسخہ تجویز کر دیا اورآڑو کی موجودگی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہدایت کی۔ چند روز کے بعد موصوف آئے تو کہنے لگے کہ علاج سے تو جو کچھ بھی افاقہ ہوا ،مگر سچی بات یہ کہ آڑو سے مجھے بہت فائدہ ہوا۔
پندرہ دن کے بعدد وبارہ آئے او رکہنے لگے حکیم صاحب! میں نے آپ کی دوا کو چھیڑا بھی نہیں، بس آڑوکھا رہا ہوں او رالله کے فضل سے چاق وچوبندہوں، وہ خون کو پتلا کرنے والی گولیاں بھی چھوڑ دی ہیں، کیوں کہ میرے خون میں اب گاڑھا پن بھی نہیں ہے۔ اس کے بعد متعدد تجربات نے یہ بات بالآخر ثابت کر دی کہ آڑو خون کو اس اعتبار سے نارمل رکھنے میں بے بہا اہمیت کا حامل ہے۔
آڑو میں ایک اور فائدہ بھی دیکھنے میں آیا، ایک صاحب کو کھانا کھانے کے بعد گھبراہٹ ہو جاتی تھی، جس کی وجہ سے وہ کبھی ٹہلتے تھے، کبھی کوئی چورن کھاتے تھے، مگر کسی طور پر تکلیف رفع نہیں ہوتی تھی او ردل کی رفتار بھی بڑھ جاتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک کھانا تحلیل نہ ہو جائے یہ کیفیت رہتی ہے، کھانا تحلیل ہوتے ہی آپ سے آپ آرام آجاتا ہے۔ میں نے نبض دیکھی ،وہی صفرا کا اجتماع۔ جگر میں حدت حرارت کی زیادتی، آڑو تجویز کیا گیا، اسی سے ان کی یہ کیفیت جاتی رہی۔
راولپنڈی کے مطب میں وہاں کے مریض تبخیر معدہ کی بہت شکایت کیا کرتے تھے۔ ہر تیسرے چوتھے مریض کو تبخیر معدہ کی شکایت تھی۔ شروع میں تو میں دوائیں تجویزکرتا رہا، اس کے بعد اگر آڑو کا موسم ہوتا تو میں مریض کو آڑوکھانے کی ہدایت کرتا۔ کھانے کے بعد آڑو کا استعمال گویا اس تبخیر معدہ کا ایسا کارگر علاج ثابت ہوا کہ برسوں کے مریض ہفتوں عشروں میں صحت یاب ہو گئے۔
آڑو کا ایک اور فائدہ بھی ان ہی دنوں دیکھنے میں آیا۔ وہاں پر روز دو چار مریض پیروں کی جلن کے ضرور آیا کرتے تھے۔ ان کی شکایت یہ تھی کہ ان کے پیروں کے تلوے ہر وقت جلتے رہتے تھے، کچھ مریض یہ بھی کہتے تھے کہ ان کے پیروں کے تلوے رات کو بہت جلتے ہیں، کچھ مریضوں کا بیان تھا کہ سخت سردیوں میں،حتی کہ برفوں میں بھی وہ پیروں کو لحاف سے باہر نکال کر سوتے ہیں۔ بعض مریضوں کا بیان تھا کہ ان کے پیروں میں اس قدر تپش ہوتی ہے کہ زمین پر رکھتے ہیں تو زمین گرم ہو جاتی ہے۔ بعض مریض پیروں پر پانی ڈالتے رہتے تھے۔
اس طرح کی کچھ تکالیف تھیں، میں نے شروع میں مفرح شیخ الرئیس، مفرح بارد، جوارش شاہی، شربت وغیرہ تجویز کیے۔ صندل طباشیر الائچی گل سرخ وغیرہ کے مرکبات تجویز کیے، مگر کوئی فائدہ نہ دیکھا تو ایک دن آڑو کے موسم میں آڑوکھانے کا مشورہ دیا۔ اس سے ان مریضوں کو بہت فائدہ ہوا۔
یہ بات تو قارئین جانتے ہیں کہ سرخ پھلوں میں وٹامن اے بہت زیادہ پایا جاتا ہے، آڑو کی سرخی تو بہت ہوتی ہے، اس میں وٹامن اے بھی سرخی کی مناسبت سے خوب ہو گا۔