دین اسلام کی حفاظت کی ذمہ داری الله تعالیٰ نے خود لی ہے۔ اس کے ذرائع واسباب میں ایک بہت بڑا ذریعہ صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کا آپ صلی الله علیہ وسلم کی صحبت کے لیے انتخاب ہے۔ صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین نے دین کو علماً، عملاً، ہر اعتبار سے محفوظ کیا ہے اور اس کو آئندہ نسلوں تک صحیح طریقے سے پہنچایا ہے۔ اس کے لیے جان کی قربانی بھی دی ہے، مال کی قربانی بھی دی ہے اور وقت کو بھی قربان کیا ہے۔ انہوں نے جس طرح کفار سے جہاد کرکے اس کی حفاظت کی ہے، اس طرح فرائض وواحباب اور سنن وآداب پر عمل کرکے بھی اسے محفوظ کیا ہے اور علم روایت کے اعتبار سے بھی اس کی حفاظت کا صحیح حق ادا کیا ہے۔
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے دین سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی صحابہ کرام رضی الله عنہم میں شدید تڑپ تھی۔ اس کہکشاں کے ایک فرد حضرت ابوذر غفاری رضی الله عنہ بھی تھے،جن کا دین پر عمل کا جذبہ مشہور ومعروف ہے۔ انہوں نے ایک مرتبہ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم سے نصیحت کی درخواست کی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو چند نصائح ارشاد فرمائیں:
”وہ فرماتے ہیں کہ میں عرض کیا، اے الله کے رسول! مجھے کوئی نصیحت فرمائیے۔ آپ نے فرمایا، میں تمہیں تقوی یعنی الله سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں، کیوں کہ تقوی تمہارے تمام (دینی ودنیاوی) امور واعمال کو بہت زیادہ زینت وآراستگی بخشنے والا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ مجھے کچھ اور نصیحت فرمائیے، آپ نے فرمایا، تلاوت قرآن اور ذکر الله کو اپنے لیے ضروری سمجھو، کیوں کہ یہ تمہارے لیے آسمان میں ذکر اور زمین میں نور کا سبب ہو گا۔ میں نے عرض کیا کہ کچھ اور نصیحت فرمائیے، آپ نے فرمایا، طویل خاموشی کو اپنے اوپر لازم کر لو، کیوں کہ خاموشی شیطان کو دور بھگاتی اور دینی امور میں تمہاری مدد گار ہوتی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ مجھے کچھ اور نصیحت فرمائیے، آپ نے فرمایا: بہت زیادہ ہنسنے سے پرہیز کرو، کیوں کہ یہ دل کو مردہ کر دیتا ہے اور چہرے کے نور کو کھو دیتا ہے ۔ میں نے کہا مجھے کچھ اور نصیحت فرمائیے، آپ نے فرمایا سچ بات کہو، اگرچہ وہ کڑوی ہو۔ میں نے کہا مجھے کچھ اور نصیحت فرمائیے، آپ نے فرمایا خدا کے دین اور خدا کے پیغام کو ظاہر کرنے اور اس کی تائید وتقویت میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرو۔ میں نے کہا کہ مجھے کچھ اور نصیحت فرمائیے، آپ نے فرمایا، چاہیے کہ وہ چیز تمہیں لوگوں کے عیب(ظاہر کرنے) سے روکے جس کو تم اپنے نفس کے بارے میں جانتے ہو ( یعنی، تمہیں کسی کی عیب گوئی کا خیال آئے تو فوراً اپنے عیوب کی طرف دیکھو اور سوچو کہ خود میری ذات میں اتنے عیب ہیں تو میں دوسرے کی عیب گیری کیا کروں گا، تم خود اپنے عیوب ونقائص کی طرف متوجہ رہو، اور دوسروں کی عیب گوئی سے اجتناب کرو۔)“
صحابہ کرام رضی الله عنہم حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اسلامی تعلیمات واحکامات سیکھنے اور اپنی آخرت کو سنوارنے کے لیے کس قدر فکر مند اور بے تاب ہوا کرتے تھے، اس کی ایک جھلک مذکورہ واقعہ میں نظر آتی ہے۔ یہ تو وہ نصائح ہیں جو آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوذر غفاری رضی الله عنہ کو ایک مجلس میں ارشاد فرمائی ہیں اور بھی کئی صحابہ کرام رضی الله عنہم سے اس طرح کی نصائح منقول ومروی ہیں۔ یہ نصائح حکمت ودانائی سے لبریز ہیں، اور سید الاولین والآخرین کی ارشاد فرمودہ ہیں۔ الله تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضی الله عنہم کے نقش قدم پر چلنے اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خوب صورت تعلیمات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!