ایک محتاط اندازے کے مطابق دُنیا بھر میں تیس کروڑ ساٹھ لاکھ افراد اندھے پن کے مرض میں مبتلا ہیں، جب کہ صحت کے ایک جریدے ”LANCET GLOBAL HEALTH“ میں شائع شدہ ایک رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر بینائی سے متعلق طبّی مسائل میں اضافے کی یہ رفتاررہی تو2050ء تک دنیا بھر میں اندھے پن کے شکار افراد کی تعداد ایک ارب پندرہ کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ امراضِ چشم کے مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے، جہاں دو کروڑ افراد بینائی کے مختلف عوارض کا شکار ہیں، جن میں تیس لاکھ بچے بھی شامل ہیں، جب کہ ان مریضوں میں سے80 فی صد مریض موتیا کے مرض میں مبتلا ہیں۔
یوں تو آنکھوں کی بے شمار بیماریاں ہیں، مگر ہمارے یہاں نظر کی کم زوری، سفید اور کالا موتیا زیادہ عام ہیں۔ سفید موتیا ایک ایسا عارضہ ہے، جس میں آنکھ کا عدسہ بتدریج دھندلا ہو کر بینائی تک ضائع ہونے کا سبب بن جاتا ہے۔ اصل میں عمر کے ساتھ آنکھ کے عدسے میں ٹوٹ پھوٹ سے گدلا پن تو آتا ہے، لیکن بعض اوقات یہ اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ آنکھ کے اندر مکمل طور پر روشنی ہی نہیں پہنچ پاتی، جس کے باعث افراد اور چیزیں غیر واضح نظر آنے لگتی ہیں، یہاں تک کہ روز مرہ امور انجام دینا دشوار ہوجاتا ہے، تاہم سفید موتیے کی ایک قسم ایسی بھی ہے، جس میں مریض کے معمولات زندگی متاثر نہیں ہوتے۔
کالا موتیا اس کے بالکل بر عکس ہے۔ کالا موتیا جسے طبّی اصطلاح میں ”گلو کوما“(GALUGOMA)کہتے ہیں۔ چشم کے مُہلک امراض میں شمار ہوتا ہے۔ اگر اس کے سبب ایک بار بینائی ضائع ہوجائے تو پھر کسی صورت بحال نہیں ہوتی، تاہم بر وقت تشخیص اور علاج سے بینائی مکمل طور پر ضائع ہونے سے بچائی جاسکتی ہے۔ ہمارے یہاں یہ تصور عام ہے کہ سفید موتیا دائمی ہوجائے تو کالے موتیے میں بدل جاتا ہے، جو قطعاً درست نہیں۔ موتیے کا عارضہ عمر کے کسی بھی حصے، خصوصا بڑی عمر میں لاحق ہوتا ہے۔ بعض کیسوں میں یہ موروثی بھی ہوتا ہے۔
سفید موتیے کے علاج کے لیے بذریعہ آپریشن آنکھ کی جھلّی نکال کر اس کی جگہ مصنوعی لینز لگادیا جاتا ہے، تاکہ زندگی معمول کے مطابق بسر کی جاسکے، جب کہ کالے موتیے کا علاج بروقت تشخیص ہی سے ممکن ہے، لہٰذا جب عمر چالیس سال سے زیادہ ہوجائے تو خواہ کوئی تکلیف ہو یا نہ ہو، آنکھوں کا سالانہ طبی معائنہ لازما کروایا جائے اور اگر کالا موتیا فیملی ہسٹری میں شامل ہو تو پھر خاندان کے تمام افراد ہر سال اپنی آنکھوں کا معائنہ کروائیں۔کالے موتیا کا علاج اس کی نوعیت کے مطابق ادویہ، آنکھوں کے قطرے، لیزر شعاعوں اور سر جری کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
نظر کی کم زوری دور کی بھی ہوسکتی ہے اور نزدیک کی بھی۔ گزشتہ چند دہائیوں سے ہر عمر کے افراد، خاص طور پر بچوں میں نظر کی کم زوری کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جس کی بنیادی وجہ انٹرنیٹ، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ ، موبائل اور ٹیبلیٹ وغیرہ کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔ نظر کی کم زوری سے محفوظ رہنے کے لیے ان الیکڑانک ڈیوائسز کا کم سے کم استعمال کیا جائے۔ پھر موجودہ دور میں چوں کہ دفاتر میں بھی کمپیوٹر کا استعمال ضروری ہوگیا ہے، اس لیے ہر پندرہ منٹ بعد کچھ سیکنڈ کے لیے آنکھیں اسکرین سے ضرور ہٹائیں، کیوں کہ مستقل نظریں جمائے رکھنے سے جہاں آنکھیں تھکاوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں، وہیں مزاج میں بھی چڑ چڑ ا پن پیدا ہوجاتا ہے۔ نیز ائر کنڈیشنڈ کمرے بھی آنکھوں کے پردے خشک کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک مرض آشوب چشم بھی ہے، جس میں آنکھ کی سامنے والی جھلّی متاثر ہوجاتی ہے۔ اس کی عام علامات میں آنکھوں سے پانی آنا، آنکھوں کا متورم ہوجانا اور چبھن کا احساس وغیرہ شامل ہیں۔ بعض اوقات سو کر اُٹھنے کے بعد پپوٹے آپس میں چپک جاتے ہیں تو از خود کسی بھی قسم کے آنکھوں کے قطرے وغیرہ استعمال کرنے کے بجائے ماہر معالج سے رجوع کیا جائے۔ علاوہ ازیں بعض امراض بھی آنکھوں پر مضر اثرات مرتّب کرتے ہیں، جیسا کہ ذیا بیطس۔ اس کا اندازہ اس طرح لگائیں کہ اندھے پن کا شکار لگ بھگ ۵۰ فیصد مریض ذیابیطس کا شکار ہوتے ہیں، جب کہ متاثرہ مریضوں میں سفید یا کالے موتیے کے امکانات بھی عام افراد کی نسبت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ ذیا بیطس سے متاثرہ مریض کم ازکم ہر چھے ماہ بعد آنکھوں کا معائنہ ضرور کروائیں ۔ پھر ایک لا علاج مرض رتوندھا ((NYCTALOPIAبھی ہے، جسے عرفِ عام میں ”شب کوری“ کہا جاتا ہے۔ اس بیماری میں اندھیرے اور کم روشنی میں کچھ دکھائی نہیں دیتا، جس کی وجہ آنکھ کے اندرونی پردے کی خرابی ہے۔ یہ مرض رفتہ رفتہ بڑھتا ہے، لہٰذا جن خاندانوں میں شب کوری کا مرض موروثی ہو، وہاں آپس میں شادیاں نہ کی جائیں تو بہتر ہے۔
ہمارے یہاں کانٹیکٹ لینز کا استعمال بھی عام ہے، لیکن اس ضمن میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنا نا گزیر ہے، مثلاً ہمیشہ اعلیٰ معیار کے لینز استعمال کیے جائیں ، ان کا محلول ہر تین دن بعد تبدیل کریں اور ہمیشہ صاف ستھری جگہ پر رکھیں۔ ختم المعیاد تاریخ کے بعد آنکھوں میں لگانے سے گریز کیا جائے۔ لینز اُتارنے اور لگانے سے قبل اچھی طرح ہاتھ دھوئیں، رات کو ہر گز لگا کر نہ سوئیں۔ اگر آنکھ میں سُرخی یا رطوبت ہو، پانی نکل رہا ہو تو لینز ہر گز استعمال نہ کریں، لگانے سے کوئی چبھن یا تکلیف ہو تو فوراً اُتاردیں۔ بصورت دیگر آنکھوں کے سامنے کے حصے میں زخم بن سکتے ہیں اور اگر زخم میں تعدیہ (انفیکشن) ہوجائے تو بینائی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔
اسی طرح موٹر سائیکل سوار کے لیے ہیلمٹ کا استعمال آنکھوں کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ایک تو آنکھوں کو مستقل ہوا لگتی ہے، جس سے وہ خشک ہونے لگتی ہیں، دوم اگر مٹّی یا ریت وغیرہ کا کوئی ذرّہ آنکھ میں چلا جائے تو خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ جو غذائیں جسم کو توانائی فراہم کریں، اُن کا کھانا بینائی کے لیے بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔ بصارت کی کم زوری اور دیگر عوارضِ چشم سے محفوظ رہنے کے لیے آنکھوں کی حفاظت کی جائے اور اس کے لیے احتیاطی تدابیر پر عمل ناگزیر ہے۔