کمالِ آدمیت کو داغ دار بنانے اورجوہرِ انسانیت کو بے رنگ ونور کردینے والے اسباب میں ایک جمود و تعطل بھی ہے، جو انسان سے حس وحرکت، جوشِ عمل اورجہدِ مسلسل کو ختم کردیتا ہے۔جمود صرف یہ نہیں ہے کہ انسان فکر معاش سے غافل رہے،کھانے کمانے کے جائز وسائل اختیار نہ کرے اور بے وجہ دوسروں کے لیے بوجھ بنارہے؛بلکہ یہ چیز بھی جمودمیں داخل ہے کہ آدمی کسب حلال سے فراغت کے بعد کسی دوسری مشغولی سے جی چُرائے، اپنی ذات کو سنوارنے،باطن کو نکھارنے اور علم و عمل میں درجہٴ کمال حاصل کرنے کے لیے کسی طرح کی کوئی جدوجہد نہ کرے۔یہ تعطل و بے کاری انسانی صلاحیت واستعداد کو ناکارہ کردیتی ہے،قوت فکر وعمل کو فنا کے گھاٹ اتاردیتی ہے اور عمر نوح پانے کے باوجود بھی انسان اپنے اندر چھپے اَن مول جواہرکی قیمت وصول نہیں کرپاتا اور اللہ تعالی کی دی ہوئی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتاہے۔
ان دنوں نہ صرف وطن عزیز؛بلکہ دنیابھر میں کرونا وائرس کی دوسری لہر نے دہشت مچارکھی ہے؛جس کے سبب لاکھوں افراد موت کا لقمہٴ تر بن چکے ہیں،کروڑوں انسان اس وبا سے بری طرح متاثر ہیں اور اربوں لوگ ایسے ہیں جومسلسل خوف و ہراس کے سایے تلے زندگی گزاررہے ہیں۔اس وبائی بیماری کی روک تھام کے لیے مختلف ممالک میں کہیں ایک ماہ اور کہیں دو تین ماہ کے لیے لاک ڈاوٴن(مکمل بند) کا اعلان ہوچکاہے،نیزحالات کی سنگینی کے پیش نظراعلان کردہ مدت میں مزیدتوسیع کے امکانات بھی ہیں۔
پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ سے بند کے عمومی ماحول کے باوجود نوجوانوں کی بڑی اکثریت گلیوں میں گھومنے پھرنے،قانون شکنی کے ذریعہ انتظامیہ کو تنگ کرنے اور سوشل میڈیا پر اپنا وقت ضائع کرنے میں مصروف نظرآرہی ہے،حال آں کہ یہ قیمتی وقت پڑھائی لکھائی اور دیگر اہم خدمات(خانگی امور میں گھر والوں کی معاونت،دینی ودنیوی کتابوں کا مطالعہ،فاقہ مستوں،مسکینوں اورمحتاجوں کی امدادوغیرہ) کی انجام دہی کے ذریعہ کار آمدبنایا جاسکتاہے۔ سیدناعلی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے سچ فرمایا،جب آپ سے پوچھنے والوں نے پوچھاکہ ہم پر جو مختلف نوعیتوں کی آفتیں اور مصیبتیں آتی ہیں،ہمیں کیسے پتہ چلے کہ یہ اللہ کا عذاب و عتاب ہے یاآزمائش و امتحان ؟حضرت علی نے فرمایاکہ نازل شدہ آفات و مصائب کے نتیجہ میں اگر قلب اللہ تعالیٰ کی جانب متوجہ ہوجاتاہے تو وہ آزمائش وامتحان ہے اور اگر جمود و تعطل اسی طرح برقرار رہتا ہے اور قومی و اجتماعی مزاج میں کسی طرح کا کوئی تغیر و تبدل واقع نہیں ہوتا ہے تویقین کرلیجیے کہ وہ اللہ کا عذاب و عتاب ہے۔
وقت کی اہمیت اورکتاب و سنت
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے ،جس سے وقت کی بے پناہ اہمیت اجاگر ہوتی ہے؛ کیوں کہ اللہ عزوجل کبھی بھی کسی کمتر چیز کی قسم نہیں کھاتے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة الفجر میں‘وقت فجر اور عشرہٴ ذوالحجہ’کی قسم کھائی اورارشادفرمایا:”اس صبح کی قَسم (جس سے ظلمتِ شب چھٹ گئی) اور دس (مبارک) راتوں کی قَسم“۔(الفجر)ایک اور مقام پررات اور دن کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا:”رات کی قَسم جب وہ چھا جائے(اور ہر چیز کو اپنی تاریکی میں چھپا لے) اور دن کی قَسم جب وہ چمک اٹھے“۔ (اللیل)اورسورة الضحیٰ میں ’چاشت کے وقت اور رات‘ کی قسم کھاتے ہوئے یوں فرمایا:”قَسم ہے چاشت کے وقت کی (جب آفتاب بلند ہو کر اپنا نور پھیلاتا ہے) اور قَسم ہے رات کی جب وہ چھاجائے“۔(الضحیٰ)پھرسورة العصر میں ’زمانہ کی قسم‘ کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا:”زمانے کی قَسم (جس کی گردش انسانی حالات پر گواہ ہے)بے شک انسان خسارے میں ہے (کہ وہ عمرِعزیز گنوا رہا ہے)“۔(العصر) امام رازی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ بزرگوں میں کسی کا قول ہے کہ میں نے سورہ عصر کامطلب ایک برف فروش سے سمجھا، جو بازار میں آوازیں لگارہا تھا کہ،رحم کرو اس شخص پر، جس کا سر مایہ گھلا جارہا ہے! رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایہ گھلا جارہا ہے۔اس کی یہ بات سن کر میں نے کہا، یہ ہے: ﴿إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ ﴾کا مطلب۔ عمر کی جومدت انسانوں کو دی گئی ہے وہ برف کے گھلنے کی طرح تیزی سے گزر رہی ہے۔ اس کو اگرضائع کیا جائے یا غلط کاموں میں صرف کردیا جائے تو انسان کاخسارہ ہی خسارہ ہے۔(تفسیر کبیر)
مذکورہ تمام آیات مبارکہ میں اللہ رب العزت نے فجر، صبح، چاشت، رات، دن اور زمانہ کی قسم کھاکروقت کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ اصول ہے کہ وہ ہمیشہ غیر معمولی چیزکی قسم کھاتا ہے۔ لہٰذاان آیات میں جو اس نے مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے،یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے؛بلکہ اس کے ذریعے درحقیقت ہمیں جھنجھوڑا جا رہا ہے کہ اپنی زندگی کے اوقات کو معمولی اورحقیر نہ سمجھو، اس کے ایک ایک لمحہ کا تم سے حساب ہونا ہے۔
آ ج ہمارے معاشر ے میں سب سے سستی اور بے قیمت چیز اگر ہے تو وہ نظم و ضبط اور فرصت و فارغ البالی ہے،اس کی قدر وقیمت کا ہمیں قطعاً احساس نہیں؛ یہی وجہ ہے کہ وقت کے لمحات کی قدر نہ کرنے سے منٹوں کا، منٹوں کی قدر نہ کر نے سے گھنٹوں کا،گھنٹوں کی قدر نہ کرنے سے ہفتوں کا، ہفتوں کی قدر نہ کر نے سے مہینوں کااور مہینوں کی قدر نہ کر نے سے سالوں اورعمروں کا ضائع کر نا ہمارے لیے بہت آسان ہو گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر زندگی میں وقت کی قدر نہ کی جائے اور اسے غفلت، سستی و کاہلی میں گزارتے ہوئے برائی اور شر کی نذر کر دیا جائے تو کل مایوسی اور ندامت کا سامنا کرنا پڑے گا،سورة الفاطرمیں ارشاد ربانی ہے،قیامت کے دن بندے سے سوال ہوگا:” کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو شخص نصیحت حاصل کرنا چاہتا، وہ سوچ سکتا تھا اور (پھر) تمہارے پاس ڈر انے والا بھی آچکا تھا،پس اب (عذاب کا) مزا چکھو، سو ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہ ہوگا۔“دنیا دارالامتحان ہے ،یہاں کیے ہوئے ہر عمل کا حساب دینا ہے،یہی وہ بنیادی فلسفہ ہے جس کے باعث اسلام میں نظم و ضبط اوروقت کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے، نیزاسے ضائع کرنے کے ہر پہلو کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ ایک موقع پرحضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”قیامت کے دن بندہ اس وقت تک (اللہ کی بارگاہ میں) کھڑا رہے گا جب تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے:
اس نے اپنی زندگی کیسے گزاری؟ ۔ اپنے علم پر کتنا عمل کیا؟۔ مال کہاں سے کمایا اور کیسے خرچ کیا؟۔ اپنا جسم کس کام میں کھپائے رکھا؟۔“(جامع ترمذی) اس حدیثِ پاک میں ہر صاحب ِ ایمان کے لیے یہ تعلیم ہے کہ اس فانی زندگی کے اوقات کو بہت دھیان اور توجہ کے ساتھ گزارے، زندگی کو مرنے سے پہلے غنیمت سمجھے اور اس بات کا استحضار رکھے کہ کل روزِ قیامت اس کی ہرہر چیز کا حساب ہو گا، اس سے ہر چیز کے بارے میں باز پُرس ہو گی اور اسے اپنے ہر ہر قول و فعل کا جواب دینا ہے اورقیامت کے دن اس کے اعمال نامے کو تمام اوّلین و آخرین کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
وقت بڑی قیمتی دولت ہے، اس سے جو فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے، وہ کر لیا جائے، آج صحت و تن در ستی ہے، کل نہ معلوم کس بیماری کا شکار ہوجائے،آج مال و دولت کی فراوانی ہے، کل خدا جانے فقر و تنگ دستی کا منھ دیکھنا پڑجائے؛اسی لیے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اگر قیامت قائم ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا چھوٹا سا پودا ہو تو اگر وہ اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ وہ حساب کے لیے کھڑا ہونے سے پہلے اسے لگا لے گا تو اسے ضرور لگانا چاہیے۔“(مسنداحمد بن حنبل)یہ آپ صلی الله علیہ وسلم امت کو کس طرح وقت کی اہمیت اور اعمال صالحہ کا احساس دلارہے ہیں کہ اگر قیامت قائم ہو جائے اورکوئی اس نفسا نفسی کے عالم میں بھی ذرہ بھر نیکی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو اس میں بھی غفلت کا مظاہرہ نہ کرے؛بلکہ فوراً نیکی کر ڈالے۔
وقت کے حقیقی قدرداں
اگر ہم مشاہیر وقت اور علمائے امت کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو یہ بات نمایاں ہوکر سامنے آئے گی کہ انہوں نے اپنے وقت کی حقیقی معنی میں قدر کی، تبھی تو صدیاں گزرنے کے باوجود وہ تاریخ کے اوراق میں زندہ وتابندہ ہیں۔ وقت کی اہمیت پر ان عظیم ہستیوں کے چند اقوال و احوال بھی ملاحظہ فرماتے چلیں!
جلیل القدر صحابی حضرت ابن عمرفرماتے ہیں:جب صبح کرے تو شام کا انتظار نہ کر، جب شام کرے تو صبح کا خیال دل میں مت لا اور بیماری سے پہلے اپنی صحت میں سے حصہ لے لے اور موت سے پہلے زندگی سے فائدہ اٹھالے، کیوں کہ اے عبد اللہ! تو نہیں جانتا کہ کل تیرا نام کیا ہوگا،مردہ یا زندہ۔عامر بن قیس ایک زاہد تابعی تھے،جب ایک شخص نے ان سے کہا:آؤ! بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں!تو انہوں نے جواب دیا کہ پھر سورج کو بھی ٹھہرالو۔ فتح بن خاقان مشہور عباسی خلیفہ المتوکل کے وزیر تھے،وہ اپنی آستین میں کوئی نہ کوئی کتاب رکھتے تھے اور جب انہیں سرکاری کاموں سے فرصت ملتی تو آستین سے کتاب نکال کر پڑھنے میں لگ جاتے۔ اسماعیل بن اسحاق القاضی کے گھر جب بھی کوئی جاتا تو انہیں پڑھنے میں مصروف پاتا۔ البیرونی کے شوق علم کا یہ عالم تھا کہ حالت مرض میں مرنے سے چند منٹ پہلے وہ ایک فقیہ سے (جو ان کی مزاج پرسی کے لیے آیا تھا)میراث کامسئلہ پوچھ رہے تھے۔علامہ ابن جوزی کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد ایک ہزارہے، وہ اپنی عمر کا کوئی لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے تھے،نیز اپنے قلم کے تراشے سنبھال کر محفوظ رکھتے تھے، چناں چہ ان کی وفات کے بعد ان تراشوں سے گرم کردہ پانی سے انہیں غسل دیا گیا۔ وہ اپنے روزنامچے ”الخاطر“ میں ان لوگوں پر افسوس کرتے ہیں جو کھیل تماشے میں لگے رہتے ہیں، ادھر ادھر بلامقصد گھومتے رہتے ہیں،بازاروں میں بیٹھ کر آنے جانے والوں کو گھورتے ہیں اور قیمتوں کے اتار چڑھاو پرتبادلہٴ خیال کرتے رہتے ہیں۔امام فخر الدین رازی کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد ایک سو سے کم نہ ہوگی۔ صرف تفسیر کبیر تیس سے زائد جلدوں میں ہے، وہ کہا کرتے تھے کہ کھانے پینے میں جو وقت ضائع ہوتا ہے میں ہمیشہ اس پر افسوس کرتا رہتا ہوں۔ (ملخص از عملی زندگی:222)
دن بھر کا ایک نظام العمل بنائیں!
وقت کی پابندی اور حرکتِ عمل انسان کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ آج وہی قومیں ترقی کی انتہا پر ہیں جنہوں نے وقت کی قدر کی،وقت کی قدر نہ کرنے والی قومیں ناکام اور نامراد رہتی ہیں۔ جو لوگ وقت کی اہمیت سے واقف ہیں وہ اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں ہونے دیتے اور آج کا کام کل پرنہیں چھوڑتے۔اگر ہم اپنے اِرد گِرد ایک نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ ساری کی ساری کائنات پابندیٴ وقت کی زنجیر میں جکڑی ہوئی ہے، دن اور رات کا اپنے وقت پرنمودار ہونا، چاند اور سورج کا اپنے وقت پر طلوع اور غروب ہونا ،موسموں کاتبدیل ہونا اور کھیتوں میں فصل کا پکنا، سب کے مقررہ اوقات کار ہیں۔ فطرت کے ان تمام عناصر میں کبھی کوئی بے قاعدگی نہیں ہوتی۔ یہ سارا نظامِ کائنات ہمیں وقت کی پابندی کا ہی درس دیتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ لاک ڈاؤن کی موجودہ صورت حال میں ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنا ایک نظام العمل مرتب کریں، صبح اٹھنے سے لے کر رات میں سونے تک ہر کام کے لیے ایک وقت اور ہر وقت کے لیے ایک کام طے کریں۔ساراوقت خواب غفلت میں سوتے رہنے اور سوشل میڈیا وغیرہ پر ضائع کرنے کے بجائے، کتابوں کا مطالعہ،نوافل کی کثرت، تلاوت کلام پاک کا اہتمام، ذکرو اذکار اور توبہ و استغفارکا التزام کریں۔ اس سے ان شاء اللہ حالات بھی درست ہوں گے اور اخروی نجات بھی حاصل ہوگی۔
آسی یہ غنیمت ہیں تری عمر کے لمحے
وہ کام کر اب، تجھ کو جو کرنا ہے یہاں آج