حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد: فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّیٰ، وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّیٰ﴾․(سورة الأعلیٰ، آیت:19-14)
صدق الله مولانا العظیم․
میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو! آج ہم قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، زکوٰة دیتے ہیں، حج وعمرہ ادا کرتے ہیں اور اسی طرح سے بے شمار نیکیاں کرتے ہیں، یہ ساری کی ساری چیزیں عبادات کے اندر آتی ہیں۔
لیکن آج ہمارا ایک بہت بڑا طبقہ معاشرت کے اعتبار سے بہت پیچھے ہے، آج ہمیں اپنے پڑوسی کی خبر نہیں ہے کہ ہمارے پڑوس میں کون رہتا ہے، لوگ ہمارا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں، ہم سے پوچھتے ہیں فلاں صاحب کہاں رہتے ہیں؟ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں تو معلوم نہیں۔ حالاں کہ وہ ہمارے برابر میں رہتے ہیں۔
سرور کائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے صحابہٴ کرام نے عر ض کیا اے الله کے رسول! ایک عورت ہے جو نمازیں بہت پڑھتی ہے، روزے بہت رکھتی ہے اور صدقہ وخیرات بہت کرتی ہے، لیکن اے الله کے رسول! اس کے پڑوسی اس سے خوش نہیں ہیں تو سرورکائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”ھي في النار“ وہ عورت جہنمی ہے، نمازیں پڑھ رہی ہے، روزے رکھ رہی ہے، لیکن اس کے پڑوسی اس سے خوش نہیں ہیں، تو آپ نے فرمایا:”ھي في النار“ جہنم میں جائے گی ۔آپ سے عرض کیا گیا کہ ایک عورت ہے جو صرف فرائض اور واجبات ادا کرتی ہے، بہت زیادہ عبادت نہیں کرتی، لیکن اس کے پڑوسی اس سے خوش ہیں۔آپ نے فرمایا:”ھي في الجنة“ یہ جنت میں جائے گی۔”عن أبي ھریرة رضي الله عنہ قال قال رجلٌ یا رسول الله! إن فلانة یذکر من کثرة صلاتھا وصیامھا وصدقتھا غیر أنھا تؤذی جیرانھا بلسانہا․ قال: ھي في النار․ قال یا رسول الله! فإن فلانة یذکر من قلة صیامھا وصدقتھا وصلاتھا، وإنھا تصدق بالأثوار من الأقط ولا تؤذي جیرانھا بلسانھا․ قال: ھي في الجنة․(مسند الإمام أحمد بن حنبل، رقم الحدیث:9675)
قال الإمام الحاکم في المستدرک: ھذا حدیث صحیح الإسناد ولم یخرجاہ․ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب البر والصلة، رقم الحدیث:7304)
یہ معاشرت ہے جو ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم نے سکھائی ہے(شریعت مطہرہ نے آداب معاشرت کو بڑے واضح انداز میں بیان فرمایاہے کہ معاشرے میں رہتے ہوئے ایک مسلمان کا دوسروں کے ساتھ کیسا رویہ اور برتاؤ ہو، چناں چہ دنیامیں رہتے ہوئے بسا اوقات ایک انسان کو دوسرے انسان سے مدد کی ضرورت پڑتی ہے، تو شریعت میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی مدد کرے، اس کے کام آجائے #
زتسبیح وسجادہ ودلق نیست
طریقت بجز خدمت خلق نیست
آپ صلی الله علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا ہے کہ جیسے جسم کے کسی بھی عضو میں تکلیف ہو تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے، ایسے ہی مسلمان کو بھی یہ تعلیم ہے کہ دوسرے مسلمان کی تکلیف سے یہ بھی بے چین ہو۔
چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”المسلمون کرجل واحد، إن اشتکی عینہ اشتکی کلہ، وإن اشتکی رأسہ اشتکی کلہ“․ (الجامع الصحیح لمسلم، کتاب البر، باب تراحم المومنین وتعطفھم، رقم الحدیث:6589)
شیخ سعدی رحمہ الله فرماتے ہیں:
بنی آدم اعضاء یک دیگرند
کہ در آفرینش زیک جوہرند
چو عضوے بدرد آورد روز گار
دگر عضوہا را نہ ماند قرار
تو کز محنت دیگراں بے غمی
نہ شاید کہ نامت نہند آدمی
اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے کام آئے، اس کی مدد کرے، اس مدد کرنے پر احادیث میں بڑے فضائل وارد ہوئے ہیں۔
چناں چہ ”بخاری شریف“ کی روایت ہے:
قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:”المسلم أخو المسلم، لا یظلمہ ولا یُسلمہ، ومن کان في حاجة أخیہ کان الله في حاجتہ، ومن فرج عن مسلم کربة فرج الله عنہ کربة من کربات یوم القیامة، ومن ستر مسلما سترہ الله یوم القیامة“․ (الجامع الصحیح للبخاري، کتاب المظالم، باب لا یظلم المسلم ولا یُسلمہ، رقم الحدیث:2442)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر خود ظلم کرے اور نہ اس پر کسی اور کو ظلم کرنے دے اور جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی حاجت میں رہے گا ( یعنی اس کا کام نکالے گا) الله تعالیٰ اس کی حاجت پوری فرمائے گا اور جو شخص کسی مسلمان کی کوئی تکلیف دور کرے گا، تو الله تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا اور جوشخص مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا الله تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔
اسی طرح امام بیہقی رحمہ الله نے حضرت ابن عباس رضی الله عنہما کی ایک روایت نقل کی ہے:عن عطاء عن ابن عباس أنہ کان معتکفا في مسجد رسول الله صلی الله علیہ وسلم، فأتاہ رجل، فسلم علیہ، ثم جلس، فقال لہ ابن عباس یا فلان! أراک مکتئبا حزینا؟ قال نعم یا ابن عم رسول الله، لفلان علي حق ولا وحرمة صاحب ھذا القبر ما أقدر علیہ، قال ابن عباس أفلا أکلمہ فیک؟ قال إن أحببت ، قال: فانتعل ابن عباس ثم خرج من المسجد فقال لہ الرجل أنسیت ماکنت فیہ؟ قال: لا، ولکنی سمعت صاحب ھذا القبر صلی الله علیہ وسلم والعھد بہ قریب، فدمعت عیناہ وھو یقول من مشی في حاجة أخیہ وبلغ فیھا کان خیرا من اعتکاف عشر سنین ومن اعتکف یوماً ابتغاء وجہ الله تعالیٰ جعل الله بینہ وبین النار ثلاث خنادق أبعد ما بین الخافقین․(شعب الإیمان للبیہقي، الرابع والعشرون من شعب الإیمان، وھو باب في الاعتکاف، رقم الحدیث:3965)
حضرت ابن عباس رضی الله عنہما ایک مرتبہ مسجد نبوی میں معتکف تھے، آ پ کے پاس ایک آدمی آیا اور سلام کرکے (خاموش) بیٹھ گیا، حضرت ابن عباس رضی الله عنہما نے اس سے فرمایا کہ میں تمہیں غم زدہ اور پریشان دیکھ رہا ہوں۔ اس نے کہا اے الله کے رسول کے چچا کے بیٹے! میں بے شک پریشان ہوں کہ فلاں کا مجھ پر حق ہے( اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) کہ اس قبر والے کی عزت کی قسم! میں اس حق کو ادا کرنے پر قادر نہیں۔ تو حضرت ابن عباس رضی الله عنہما نے فرمایا کہ کیا میں تیری اس سے سفارش کروں؟ اس نے عرض کیا جیسے آپ مناسب سمجھیں، تو حضرت ابن عباس رضی الله عنہما جوتا پہن کر مسجد سے باہر تشریف لائے، تو اس آدمی نے عرض کیا کہ آپ اپنا اعتکاف بھول گئے؟ فرمایا: بھولا نہیں ہوں اور لیکن میں نے اس قبر والے (رسول الله صلی الله علیہ وسلم) سے سنا ہے او رابھی زمانہ کچھ زیادہ نہیں گزرا، (یہ کہتے ہوئے) حضرت ابن عباس رضی الله عنہما کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے بھائی کے کسی کام میں چلے پھرے اور کوشش کرے، اس کے لیے دس سال کے اعتکاف سے افضل ہے اور جو شخص ایک دن کا اعتکاف بھی الله کی رضا کے واسطے کرتا ہے تو حق تعالیٰ شانہ اس کے او رجہنم کے درمیان تین خندقیں آڑ فرما دیتے ہیں ،جن کی مسافت آسمان اور زمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہے۔
شریعت میں بغیر وجہ کے جانوروں کو تکلیف دینا بھی منع ہے
اور جہاں تک کسی مسلمان کو تکلیف دینے کا تعلق ہے تو شریعت مطہرہ میں تو مسلمان کو تکلیف دینے کا تصور تو دور، کسی جانور کو بھی بغیر وجہ کے تکلیف دینا جائز نہیں۔
چناں چہ بخاری شریف کی روایت ہے:
قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: عذبت إمرأة في ھرّة حبستھا حتی ماتت جوعا، فدخلت فیھا النار، قال فقال واللہ أعلم لا أنت اطعمتھا ولا سقیتھا حین حبستھا ولا أنت أرسلتھا فأکلت من خشاش الأرض․(الجامع الصحیح للبخاري، کتاب المساقاة، باب فضل سقی الماء، رقم الحدیث:2365)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک عورت عذاب میں مبتلا ہو گئی کہ اس نے ایک بلی کو باندھ کر رکھا، یہاں تک کہ وہ بھوک پیاس سے مر گئی، چناں چہ اس بلی کی وجہ سے وہ عورت دوزخ میں داخل ہوئی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الله خوب جانتا ہے، نہ تونے اس کو کھلایا اور نہ اس کو پانی پلایا جب تونے اس کو باندھا اور نہ تونے اس کو چھوڑا کہ وہ زمین کے کپڑے مکوڑے کھاتی۔
اور بخاری شریف ہی کی روایت ہے:
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی راستے میں جارہا تھا اور اس کو پیاس لگ گئی، چناں چہ وہ کنویں میں اترا اور پانی پی کر، نکل آیا، تو اس نے دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی وجہ سے ہانپ رہا ہے اور پیاس کے مارے کیچڑ چاٹ رہا ہے، تو یہ آدمی اس کتے کی حالت دیکھ کر دوبارہ کنویں میں اترا او راپنا موزہ پانی سے بھرا اور اس کو منھ میں تھام کر کنویں سے باہر نکل آیا اور کتے کو پانی پلایا، تو الله تعالیٰ نے اس کے اس کام کی قدر کی اور اس کو بخش دیا۔ یہ سن کر صحابہ نے عرض کیا اے الله کے رسول! کیا جانوروں کو پانی پلانے میں بھی ہم کو ثواب ملے گا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہرتازے جگر والے میں ثواب ہے ۔(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب المساقاة، باب فضل سقي الماء، رقم الحدیث:2364)
مسلمان کو تکلیف سے بچانا بڑے ثواب کا کام ہے
بخاری شریف کی حدیث ہے:قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: بینما رجل یمشي بطریق وجد غصن شوک علی الطریق فأخذہ فشکر الله لہ فغفرلہ․(الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الأذان، باب فضل التھجیر إلی الظھر، رقم الحدیث:652)
رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایک آدمی نے راستے پر جاتے ہوئے کانٹوں والی ٹہنی راستے میں پڑی ہوئی دیکھی، تو اس ٹہنی کو راستے سے ہٹا دیا (تاکہ کسی کے پاؤں میں نہ چبھے اور کسی کو تکلیف نہ ہو ) تو الله تعالیٰ نے اس کو اس کے اس عمل کابدلہ دیا کہ اس کو بخش دیا۔
دوسروں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے؟
اگر آدمی چاہے کہ وہ اس طرح زندگی گزارے کہ اس کی ذات سے کسی کو تکلف نہ ہو، تو اس بارے میں اسلام میں ایک راہ نما اصول موجود ہے کہ اس پر عمل کرتے ہوئے انسان معتدل زندگی گزار سکتا ہے۔
اور وہ اصول یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”لایؤمن أحدکم حتی یحب لأخیہ ما یحب لنفسہ․“( الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الإیمان، باب من الإیمان أن یحب لأخیہ ما یحب لنفسہ، رقم الحدیث:13)
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے اس چیز کو پسند نہ کرے جس کو اپنے لیے پسند کرتا ہو۔
مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں رہتے ہوئے جب کسی کے ساتھ کوئی برتاؤ، معاملہ کرے تو انسان یہ سوچ لے کہ اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو کیا میں اسی چیز، معاملے ،برتاؤ کو پسند کرتا جو میں اس کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں۔
دوسروں کو تکلیف دینا منع ہے
حدیث میں ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ․“
مسلمان وہ ہے جس کی زبان او رہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الإیمان، باب المسلم من سلم المسمون من لسانہ ویدہ، رقم الحدیث:10)
شنیدم کہ مردان راہ خدا
دل دشمنان ھم نکردند تنگ
ترا کے میسر شد ایں مقام
کہ با دو ستانت خلافست وجنگ
دنیا میں ظلم اور زیادتی کا حساب آخرت میں ضرور ہو گا
دنیا میں اگر انسان دوسروں کو تکلیف دیتا رہا، دوسروں کے حقوق تلف کرتا رہا تو ایک دن ضرور اُسے ان ساری زیادتیوں کا حساب دینا پڑے گا اور اس حساب سے اس انسان کو اس کی دوسری نیکیاں اور نیک اعمال نہیں بچا سکیں گے، انسان کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو، لیکن اگر دوسروں کے حقوق کے حوالے سے لا پرواہی کی تو ضرور گرفت ہو گی۔ بلکہ وہ تو ایسا انصاف کا دن ہو گا کہ دنیا میں اگر ایک جانور نے بھی دوسرے جانور کے ساتھ زیادتی کی ہو گی حالاں کہ جانور غیر مکلف ہیں، تو قیامت کے دن جانور کا بدلہ بھی لیا جائے گا۔
چناں چہ حدیث میں ہے:آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”لتؤدن الحقوق إلی أھلھا یوم القیامة حتی یقاد للشاة الجلحاء من الشاة القرناء“․(الجامع الصحیح لمسلم، کتاب البر، باب تحریم الظلم، رقم الحدیث:6580)
قیامت کے دن اہل حقوق کے حقوق دلوائے جائیں گے، یہاں تک کہ بے سینگ والی بکری کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلا یا جائے گا۔
اسی طرح ایک حدیث میں ہے:” قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: الدواوین ثلاثة: دیوان لا یغفرہ الله، الإشراک بالله، یقول الله عزّوجل: إن الله لا یغفر أن یشرک بہ، ودیوان لا یترکہ الله: ظلم العباد فیما بینھم حتی یقتص بعضھم من بعض، ودیوان یعبأ الله بہ، ظلم العباد فیما بینھم وبین الله، فذاک إلی الله، إن شاء عذبہ وإن شاء تجاوز عنہ“․(مشکوٰة المصابیح، کتاب الآداب، باب الظلم، رقم الحدیث:5133، والمستدرک علی الصحیحین، کتاب الأھوال، رقم الحدیث:8717، وشعب الإیمان للبیہقی، فصل في ذکر ماورد من التشدید في الظلم، رقم الحدیث:7069)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: رجسٹر تین ہیں، ایک وہ ہے جس کو الله تعالیٰ معاف نہیں کرے گا اور وہ الله تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا ہے۔
اور ایک دفتر وہ ہے جسے الله تعالیٰ نہیں چھوڑے گا، وہ بندوں کا آپس میں ظلم وزیادتی کرنا ہے، یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے سے بدلہ لے لیں او رایک دفتر ایسا ہے جس کی الله تعالیٰ پرواہ نہیں کرتے اور وہ ظلم ہے جو بندوں کا اپنے اور رب کے درمیان ہے، اس کا معاملہ الله تعالیٰ کے حوالے ہے،خواہ وہ معاف کرے خواہ وہ عذاب دے۔
اسی طرح بخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے :”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من کانت لہ مظلمة لأخیہ من عرضہ أو شيء فلیتحللہ منہ الیوم قبل أن لا یکون دینار ولادرہم، إن کان لہ عمل صالح أخذ منہ بقدر مظلمتہ وإن لم تکن لہ حسنات أخذ من سیئات صاحبہ فحمل علیہ․( الجامع الصحیح للبخاري، کتاب المظالم، باب من کانت لہ مظلمة عند الرجل فحللھا لہ ھل یبین مظلمتہ؟ رقم الحدیث:2449)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے ذمے کسی بھائی کا کچھ حق ہو اس کی آبرو کے متعلق یا اور کسی قسم کا، وہ اس سے آج معاف کرالے، ایسے وقت سے پہلے کہ نہ اس کے پاس دینار ہو گا نہ درہم ، اگر اس کے پاس کچھ عمل صالح ہو گا وہ بقدر اس کے حق کے اس سے لے کر صاحب حق کو دے دیا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں تو اس کے فریق کے گناہ لے کر اس پر لا د دیے جائیں گے۔
اسی طرح ”مسلم شریف“ کی روایت ہے:
قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: أتدرون ما المفلس؟ قالوا المفلس فینا من لادرھم لہ ولا متاع․ فقال: إن المفلس من أمتي من یأتی یوم القیامة بصلاة وصیام وزکوٰة، ویأتی قد شتم ھذا وقذف ھذا، وأکل مال ھذا، وسفک دم ھذا، وضرب ھذا، فیعطی ھذا من حسناتہ ھذا من حسناتہ فإن فنیت حسناتہ قبل أن یقضی ما علیہ أخذ من خطایاھم فطرحت علیہ، ثم طرح في النار․(الجامع الصحیح لمسلم، کتاب البر، باب تحریم الظلم، رقم الحدیث:6579)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا کہ مفلس ہم میں سے وہ شخص ہے جس کے پاس نہ درہم ہو نہ مال واسباب۔ تو آپ صلی الله علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: میری امت میں حقیقت میں مفلس وہ ہے کہ وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ مقبول نمازیں ، روزے زکوٰة وغیرہ عبادتیں اس کے پاس ہوں گی اور وہ اس حال میں آئے گا کہ کسی کو گالی دی ہوگی اور کسی پر تہمت لگائی ہو گی اور کسی کا مال کھا یا ہو گا اور کسی کو ناحق قتل کیا اور کسی کو ناحق مارا، پس صاحب حق کو اس کی نیکیوں کا ثواب دیا جائے گا اور اس (طرح) اس کی تمام نیکیاں ختم ہو جائیں گی اور ابھی اہل حقوق کے حقوق اس کے ذمے ہوں گے تو اہل حقوق کے گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے او رپھر اس شخص کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔
حقوق العباد کی اہمیت
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ الله فرماتے ہیں: ایک کوتاہی جس میں عوام تو کیا خواص بھی مبتلا ہیں کہ اعمال واجبہ کی وہ عظمت اور وقعت قلوب میں نہیں جو غیر واجبہ کی ہے، مثلاً حقوق العباد وغیرہ کی فکر نہیں او رنوافل وظائف کی کثرت کو زیادہ موجب قرب حق سمجھتے ہیں اور جو اصل مقصود تھا اسی کو حقیر سمجھا جاتا ہے، کتنا بڑا ظلم عظیم ہے۔
اسی طرح حضرت حکیم الامت رحمہ الله کے طریقہ اصلاح میں جو چیز شامل تھی وہ یہ تھی کہ فرماتے: میر ی محبت کے لیے کوئی لمبی چوڑی شرطیں نہیں، بس صرف یہ ہے کہ جس طرح میں چاہوں اس طرح چلے اور میں کوئی دشوار کام بھی نہیں کراتا، میں کوئی مجاہدہ بھی نہیں کراتا، رات کو جگاتا نہیں، کھانا پینا کم نہیں کرتا، بس تھوڑا سا ذکر بتا دیتا ہوں، اس کو ہمیشہ کرے اورمعاصی کو بالکل چھوڑ دے اور عادات کی اصلاح کرے اور عادات کی اصلاح کا بس خلاصہ یہ ہے کہ اس کا خیال رکھے کہ کسی کو اس کے قول یا فعل سے کوئی تکلیف یا الجھن نہ ہو اور الله تعالیٰ کے بھروسہ پر میں کہتا ہوں کہ جو شخص اتنا کرے گا ہر گز محروم نہیں رہ سکتا۔
اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
ہمارے یہاں تو بس اپنی نیند سوؤ، چین کی زندگی بسر کرو، ہاں! حدود کے اندررہو، یہاں بحمد الله نہ کسی کی لگائی، نہ کسی کی بجھائی، آزادی بڑی ہے، ذاکرین، شاغلین کی بابت اس کی بھی نگرانی نہیں کرتا کہ کون شخص جماعت میں شریک ہے ، کون نہیں۔
ہاں! اس بات کاخیال رکھتا ہوں کہ کوئی ایسا فعل نہ کیا جاوے جس سے دوسروں کو تکلیف یا ایذا پہنچے۔
آج میرے دوستو! یہ تو پڑوسیوں کی بات ہے، یہاں تو میاں بیوی کے مسئلے بنے ہوئے ہیں، یہاں تو باپ بیٹے کے مسئلے بنے ہوئے ہیں، یہاں تو بھائی بھائی کے مسئلے بنے ہوئے ہیں، یہاں تو ایک خون، ایک خاندان اور قبیلے کے مسئلے بنے ہوئے ہیں، یہ اس کی شکل کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں، وہ اس کی شکل کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں، یہ سب واقعات ہیں، جو ہمارے اندر موجود ہیں۔
میرے دوستو! یہ معاشرت ہے، نماز پڑھنا بہت آسان ہے، اس معاشرت پر عمل کرنا بہت مشکل ہے۔
میرے دوستو! ہم اس کا اہتمام کریں کہ اپنے گھروں کے اندر آپ صلی الله علیہ وسلم کی معاشرت کو قائم کریں، ہم آپ صلی الله علیہ وسلم جو دین اور شریعت لائے ہیں اس پر عمل کریں۔ اس سے ہمارے اندر جوڑ پیدا ہو گا، اس سے محبت پیدا ہو گی۔
آج کل عموماً جب گھر میں بات کی جائے کہ آج فلاں پھپھو کے ہاں جانا ہے تو فوراً دو تین طرف سے جواب آئے گا کہ و ہ ہمارے ہاں کب آتے ہیں؟! میرے دوستو! یہبہت افسوس ناک صورت حال ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صل من قطعک․(مسند الإمام أحمد بن حنبل، رقم الحدیث:17452، وشعب الإیمان للبیہقي، باب في صلة الأرحام، رقم الحدیث:7957)
یہ بوجھ آپ برداشت کریں الله کی رضا کے لیے کہ میرا فلاں عزیز ، فلاں بھائی، فلاں بہن، میری پھوپی، میری خالہ، میرے ماموں، میرے فلاں وہ میرے ہاں نہیں آتے، میں ان کے یہاں جاؤں گا، بچوں کو سمجھائیں کہ یہ صلہ رحمی ہے۔
ہمارے پیغمبر صلی الله علیہ وسلم ایسا مبارک دین دے کر گئے ہیں۔ الله تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ربنا تقبل منا إنک أنت السمیع العلیم، وتب علینا، إنک أنت التواب الرحیم․