اپنے ماضی اور اپنی صحیح تاریخ کے اعتبار سے یہ دنیا انسان کاوطن حقیقی نہیں ہے، یہ اس کے لیے پردیس ہے، اس کا پیدائشی اور آبائی وطن عالم بالا اور جنت ہے۔اور جس طرح ہر شخص اپنے آبائی وطن کی طرف ایک نہ ایک دن واپس جاتا ہے، اسی طرح انسان کو بھی اپنے حقیقی وطن یعنی عالم بالا اور عالم آخرت کی طرف ضرور بالضرور لوٹنا ہے؛ لیکن اس کے لیے دنیا کی طویل آزمائشی زندگی، بعد ازاں قبر وحشر اور حساب وکتاب کے مراحل سے گزرناہر انسان کے لیے لازمی اور ناگزیر ہے، ان مراحل سے کوئی مستثنیٰ نہیں ہے۔
دنیا نامی اس پردیس میں آنے کے بعد ہر انسان کو کیسے زندگی گزارنی ہے، اس کے تمام قواعد وضوابط اور قوانین و دستور خالقِ کائنات کی طرف سے جاری کیے جا چکے ہیں، جو انسان زندگی کے ہر دورانیہ میں اور اس پردیس کے ہر نئے موڑ پر اُن الہٰی قوانین کی پاس داری کرے گا، وہ اپنے آبائی وطن لوٹنے کے بعد خوش حال رہے گا اور بے نظیر خوش حالی، بے مثال نعمتوں، لا زوال آسائشوں اور آرائشوں سے لبریز اپنے وطن حقیقی یعنیجنت میں کبھی نا فنا ہونے والی زندگی اور کبھی نا ختم ہونے والی راحتوں کے ساتھ ہمیشہ رہے گا۔ اور اگر کوئی انسان اس پردیس میں آکر، یہاں کی چکا چوند میں گم ہوکر قانون الہی کی خلاف ورزی کرتا ہے، اللہ تعالی کے باغی گروہ شیطان اور اس کے کارندوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے، ان کی باتوں میں آکر راہ بھٹک جاتا ہے اور وہ اسی حال میں ہوتا ہے کہ اچانک اس کا دنیا میں مزید رہنے کاویزہ ختم ہوجاتا ہے اور چار وناچار اسے اس پردیس سے اپنے آبائی وطن کی طرف واپس جانا پڑجاتا ہے، پھر اپنے جرائم کے اعتبار سے اسے قبر وحشر اور حساب وکتاب کے مراحل میں بھی بڑی تکلیفوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے اور عالم آخرت میں بھی اسے جہنم کی جیل اور اس کی سزا اور عذاب میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ انہیں کے بارے میں اللہ تعالی نے پوری تاکید کے ساتھ فرمایا ہے:﴿لَا جَرَمَ أَنَّہُمْ فِی الْآخِرَةِ ہُمُ الْأَخْسَرُونَ﴾ (سورة ہود: 22)
ترجمہ: یقینا وہ لوگ آخرت میں ناکام اور خسارہ میں رہیں گے۔
اور ان کی سزا بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتے ہیں: ﴿أُولَئِکَ الَّذِینَ لَیْسَ لَہُمْ فِی الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ﴾(سورة ہود: 16)
ترجمہ:یہی وہ لوگ ہیں، جن کے لیے آخرت میں سوائے آگ کے عذاب کے اور کچھ نہیں ہے۔
نیز اپنے آبائی وطن کی خوش حالی کو بحال کرنے اور سزا سے رہائی کے لیے خواہش اور ہزار منت وسماجت کے باجود اسے دوبارہ دنیا میں آنے کا دوسرا موقع بھی نہیں دیا جاتا۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿فَلَا یَسْتَطِیعُونَ تَوْصِیَةً وَلَا إِلَی أَہْلِہِمْ یَرْجِعُونَ﴾․ (سورة یس: 50)
(جب موت کا وقت آئے گا تو نہ اسے کوئی وصیت کرنے کی مہلت ملے گی اور نہ ہی وہ اپنے گھر والوں کی طرف دوبارہ واپس آسکتا ہے۔ )
اور جب وہ وہاں سزا اور عذاب کو دیکھے گا تو حسرت بھرے لہجہ میں کہے گا:﴿أَوْ تَقُولَ حِینَ تَرَی الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِی کَرَّةً فَأَکُونَ مِنَ الْمُحْسِنِینَ﴾․(سورة الزمر58)
(یا جب تو عذاب دیکھے گا تو تمنا کرے گا کہ اے کاش! مجھے دنیا میں دوبارہ واپس بھیج دیا جائے اور پھر میں اچھے کام کرنے والوں میں سے بن جاؤں۔)
اسی خطرہ کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کی کتاب: قرآن اور اپنے قاصدین:انبیاء اور رسولوں (علیہم الصلاة والسلام) کی تشریحات میں انسان کو بار بار اس کا آبائی وطن، یعنی عالم آخرت اور وہاں کی دونوں منزلیں جنت اور جہنم یاد دلائی ہیں، بار بار اس کی توجہ اس جانب موڑی ہے، اسے دعوت فکر وعمل دی ہے؛ بلکہ اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے تصوّرِ آخرت کو بنیادی عقیدہ کی حیثیت عطا کی ہے؛ تاکہ انسان اس پردیس کو اپنا دیس نہ سمجھ بیٹھے اور اس کی بھول بھلیوں میں الجھ کر اپنے حقیقی دیس کو نہ بھلا بیٹھے اور اس طرح اس کی زندگی تباہ وبرباد نہ ہوجائے۔بلکہ وہ اس دنیا میں ہر عمل اس یقین اور اس خوف کے ساتھ کرے کہ مجھے عالم آخرت کی طرف جانا ہے ، وہاں اس کا حساب وکتاب دینا ہے اور اس کی بنیاد پر میری وہاں کی اصل اور حقیقی زندگی میں خوشیاں آئیں گی یا مصیبتوں سے دو چار ہونا پڑے گا۔
اللہ تعالی نے مختلف انداز اور نت نئے اسلوب کے ساتھ قرآن کریم میں تصور آخرت کی طرف انسان کے ذہن کو منتقل کیا ہے اور دنیا کی بے ثباتی کو واضح فرمایا ہے؛ چناں چہ دنیا اور آخرت کے تقابل میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:﴿وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَیْرٌ لِلَّذِینَ یَتَّقُونَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾․(سورة الأنعام32)
(دنیا صرف کھیل تماشے کا گھر ہے، آخرت کا گھر ہی متقی حضرات کے لیے سب سے بہتر ہے، کیا تم عقل نہیں رکھتے!)
﴿تُرِیدُونَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللَّہُ یُرِیدُ الْآخِرَةَ وَاللَّہُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ﴾․ (سورة الأنفال:67)
(تم دنیا کے ساز وسامان کے طلب گار ہو، جب کہ اللہ (تم سے) آخرت کو چاہتا ہے اور اللہ زبردست قوت والا اور حکمت والا ہے۔)﴿إِنَّمَا ہَذِہِ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ ہِیَ دَارُ الْقَرَارِ﴾․(سورة الغافر:39)
(دنیا کی یہ زندگی چند روزہ سامان ہے اور آخرت برقرار رہنے والا گھر ہے۔)
﴿أَرَضِیتُمْ بِالْحَیَاةِ الدُّنْیَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا فِی الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِیلٌ﴾․(سورة التوبة:38)
(کیا آخرت کے مقابلہ میں تم دنیا کی زندگی پر راضی ہوگئے؟ آخرت کے مقابلہ میں دنیاوی زندگی کا مال ومتاع بہت کم ہے۔)
﴿وَفَرِحُوا بِالْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا فِی الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ﴾․(سورة الرعد:26)
(وہ لوگ دنیاوی زندگی پر ہی خوش ہوگئے، جب کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی چند روزہ سامان کی حیثیت رکھتی ہے۔)
دنیا کے طلب گار اور دنیا ہی اپنی تعمیر وترقی کی کوشش کرنے والے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالی نے انہیں دو ٹوک انداز میں متنبہ کیا ہے:
﴿مَنْ کَانَ یُرِیدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَہُ فِیہَا مَا نَشَاء ُ لِمَنْ نُرِیدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہُ جَہَنَّمَ یَصْلَاہَا مَذْمُومًا مَدْحُورًا․وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَی لَہَا سَعْیَہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِکَ کَانَ سَعْیُہُمْ مَشْکُورًا﴾․ (سورة الإسراء : 18 - 19)
(جو انسان حالیہ دنیا کا طلب گار ہوتا ہے تو ہم جس شخص کے لیے جتنا چاہتے ہیں دنیا میں اسے عطا کردیتے ہیں، پھر (آخرت میں)ہم نے اس کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے، جس میں وہ ذلیل وخوار ہوکر داخل کیا جائے گا۔ اور جو شخص آخرت کا طلب گار رہتا ہے اور اس کے لیے کوشش بھی کرتا ہے، ایمان بھی لاتا ہے تو ایسے لوگوں کی کوشش اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہے۔)
﴿یَعْلَمُونَ ظَاہِرًا مِنَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَہُمْ عَنِ الْآخِرَةِ ہُمْ غَافِلُونَ﴾․(سورة الروم:7)
(دنیاوی زندگی کے ظاہر کو تو وہ جانتے ہیں؛ لیکن آخرت سے غافل ہیں)۔
﴿مَنْ کَانَ یُرِیدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَہُ فِی حَرْثِہِ وَمَنْ کَانَ یُرِیدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِہِ مِنْہَا وَمَا لَہُ فِی الْآخِرَةِ مِنْ نَصِیبٍ﴾․(سورة الشوری:20)
(جو آخرت کی کھیتی (یعنی اپنی کوششوں کا نتیجہ آخرت میں دیکھنا) چاہتا ہے، ہم اس کی کھیتی (یعنی اس کے عمل کے بدلہ ملنے والی نعمتوں) میں اضافہ کریں گے اور جو دنیا کی کھیتی (یعنی اپنے اعمال کا پھل صرف دنیا میں حاصل کرنا) چاہتا ہے، تو ہم اس کو کچھ دنیا دے دیتے ہیں، پھر آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔)
﴿کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ﴾․(سورة آل عمران:85)
(ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، قیامت کے دن تم سب کی اجرت پوری پوری دے دی جائے گی؛ لہٰذا جو جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا، وہی کام یاب ہوا اور دنیا کی زندگی تو دھوکہ کا سامان ہے۔)
اسی طرح دیگر انداز اور طریقوں سے بھی اللہ تعالی نے انسان کواللہ کی قدرت و طاقت کو سمجھنے، آخرت کی فکر کرنے،اس کے لیے کوشش کرنے ، وہاں کی باز پرس، حساب وکتاب اور عذاب سے ڈرنے کی تاکید فرمائی ہے، چناں چہ درج ذیل آیات کا بغور مطالعہ فرمائیں:
﴿إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَةً لِمَنْ خَافَ عَذَابَ الْآخِرَةِ﴾․ (سورة ہود:103)
(آخرت کے عذاب سے ڈرنے والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔)
﴿وَابْتَغِ فِیمَا آتَاکَ اللَّہُ الدَّارَ الْآخِرَة﴾․ (سورة القصص: 77)
(اللہ تعالی نے تمہیں جو مال واسباب عطا کیا ہے، اس کے ذریعہ آخرت کے طلب گار بنو۔)
﴿کَیْفَ تَکْفُرُونَ بِاللَّہِ وَکُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیکُمْ ثُمَّ إِلَیْہِ تُرْجَعُونَ﴾․(سورة البقرة:28)
(تم کیوں کر اللہ کا انکار کرتے ہو، جب کہ تم مردے تھے، اللہ نے تمہیں زندہ کیا، پھر اللہ تمہیں موت دے گا، پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم سب اسی کی طرف واپس لوٹوگے؟!)
﴿وَاتَّقُوا یَوْمًا تُرْجَعُونَ فِیہِ إِلَی اللَّہِ ثُمَّ تُوَفَّی کُلُّ نَفْسٍ مَا کَسَبَتْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُونَ﴾․ (سورة البقرة:281)
(تم ایسے دن سے خوف کھاؤ، جب تم اللہ کی طرف واپس لائے جاؤگے، پھر ہر نفس کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے، ان پر کسی طرح کا ظلم نہیں ہوگا۔)
﴿أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَأَنَّکُمْ إِلَیْنَا لَا تُرْجَعُونَ﴾․(سورة المؤمنون:115)
(کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم نے تمہیں بلا مقصد پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف واپس نہیں لائے جاؤگے؟!
﴿أَلَا إِنَّ لِلَّہِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قَدْ یَعْلَمُ مَا أَنْتُمْ عَلَیْہِ وَیَوْمَ یُرْجَعُونَ إِلَیْہِ فَیُنَبِّئُہُمْ بِمَا عَمِلُوا وَاللَّہُ بِکُلِّ شَیْء ٍ عَلِیمٌ﴾ (سورة النور: 64)
(سن لو! یقینا آسمان وزمین کی تمام چیزیں اللہ ہی کی ملکیت ہیں، تمہاری حالت کو اللہ خوب جانتا ہے، جس دن وہ اللہ کے پاس واپس لائے جائیں گے تو وہ ان کے تمام اعمال انہیں بتادے گا؛ کیوں کہ اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔)
﴿وَاسْتَکْبَرَ ہُوَ وَجُنُودُہُ فِی الْأَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوا أَنَّہُمْ إِلَیْنَا لَا یُرْجَعُونَ﴾․(سورة القصص:39)
(اس نے اور اس کے لشکر نے سر زمین پر نا حق تکبر کیا اور ان کا خیال تھا کہ وہ ہمارے پاس واپس نہیں لائے جائیں گے۔)
﴿یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوء ٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَیْنَہَا وَبَیْنَہُ أَمَدًا بَعِیدًا﴾․(سورة آل عمران: 30)
(جس دن ہر نفس اپنے اچھے اور غلط کاموں کو اپنے سامنے دیکھے گاتو وہ خواہش کرے گا کہ کاش !اس کے اعمال اور اس کے درمیان دور دراز کا فاصلہ ہوجاتا ۔)
﴿اللَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ لَا رَیْبَ فِیہِ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّہِ حَدِیثًا﴾. (سورة النساء :87)
(اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، یقینا وہ تم سب کو قیامت کے دن جمع کرے گا، اس میں کوئی شک نہیں ہے اور اللہ سے زیادہ سچی بات کس کی ہو سکتی ہے؟!)
﴿أَلَا یَظُنُّ أُولَئِکَ أَنَّہُمْ مَبْعُوثُونَ، لِیَوْمٍ عَظِیمٍ، یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ ﴾(سورة المطففین:6)
(کیا انہیں اس بات کا علم نہیں کہ ایک بڑے دن میں وہ سب دوبارہ زندہ کیے جائیں گے، جس دن انسان سارے جہاں کے رب کے سامنے (حساب وکتاب کے لیے) کھڑا ہوگا؟!)
اللہ کے آخری رسول صلی الله علیہ وسلم نے اس دنیا میں خود اپنی حیات مبارکہ اپنے وطن کی طرف جلد واپس ہونے والے ایک مسا فر کی طرح گزاری ہے، چناں چہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب مال واسباب کی انتہائی قلت اور اس کی وجہ سے ہونے والی دشواری پر روتے ہوئے اللہ کے نبی صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ! یہ قیصر وکسری باطل ہونے کے باوجود عالی شان محلات میں آرام کی زندگی گزار رہے ہیں اور آپ محبوب رب کائنات ہوکر یہ تنگی کی زندگی میں ہیں؟ تو ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”أما تَرْضَی أَنْ تَکُونَ لَہُمْ الدُّنْیا ولَنا الآخِرَةُ؟“فقال عُمَرُ:بَلَی․ قال: ”فَإِنَّہُ کَذَلکَ“․ (رواہ الإمام أحمد 3/ 139 - 140، والبخاری فی الأدب المفرد(1183، وأبو یعلی 5/67رقم (2782 من طرق عن المبارک بن فضالة بہ)
․ (رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:کیا آپ اس بات پر خوش نہیں ہیں کہ ان کے لیے دنیا ہو اور ہمارے لیے آخرت؟ تو عمر نے عرض کیا:کیوں نہیں !تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:ایسا ہی ہوگا۔)
دیگر مواقع پر بھی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے کثرت کے ساتھ اس کی یاد دہانی کرائی ہے، متعدد احادیث شریفہ میں آخرت کی فکر اور اس کو یاد کرنے کی تلقین ملتی ہے، ذیل میں چند احادیث پیش کی جاتی ہیں، غور سے مطالعہ فرمائیں:
”قَدْ کُنْتُ نَہَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَةِ القُبُورِ، فَقَدْ أُذِنَ لِمُحَمَّدٍ فِی زِیَارَةِ قَبْرِ أُمِّہِ، فَزُورُوہَا فَإِنَّہَا تُذَکِّرُ الآخِرَةَ “․(سنن الترمذی، باب ما جاء فی الرخصة فی زیارة القبور، حدیث نمبر:1054)
(میں نے آپ کو قبرستان جانے سے منع کیا تھا، محمد کو والدہ کی قبر پر جانے کی اجازت مل گئی ہے؛ لہٰذا آپ حضرات بھی قبرستان جایا کریں؛ کیوں کہ اس سے آخرت یاد آتی ہے۔)
”مَنْ کانَ ہَمُّہُ الآخِرَةَ جَمَعَ اللَّہُ شَمْلَہُ، وجَعَلَ غِنَاہُ فِی قَلْبِہِ، وأَتَتْہُ الدُّنْیا وہِیَ راغِمَةٌ، ومَنْ کانتْ ہِمَّتُہُ ونِیَّتُہُ للدُّنْیا فَرَّقَ اللَّہُ عَلَیْہِ ضَیْعَتَہُ، وجَعَلَ فَقْرَہُ بَیْنَ عَیْنَیْہِ، ولَمْ یَأْتِہِ مِنْ الدُّنْیا إِلّا ما کُتِبَ لَہُ“․ (رواہ الإمام أحمد 5/183، وابن ماجہ (4105)، وابن أبی عاصم فی الزہد(163، والدارمی 1/ 302 - 303، وابن عبد البر فی ”جامع بیان العلم وفضلہ 1/ 175، من طرق عن شعبة بہ)
․(جس کی فکریں آخرت کے لیے ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ اسے یکسوئی عطا فرماتے ہیں اور اس کے دل کو غنی بنا دیتے ہیں اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے۔ اور جس کی کوشش اور نیت دنیا کی ہوتی ہے، اللہ تعالی اس کے ذہن کو منتشر کر دیتے ہیں اور اس کی آنکھوں میں غربت رکھ دیتے ہیں اور اسے مقدر بھر ہی دنیا ملتی ہے۔)ومَنْ أرادَ الآخرة ترکَ زینةَ الدُنیا. (رواہ أحمد 1/ 387 (3671) والترمذی( (2458، وأبو یعلی((5047)، والحاکم 4/ 323 وإسنادہ ضعیف)
(جو شخص آخرت کا طلب گار ہوتا ہے وہ دنیا کی چمک دمک کو چھوڑ دیتا ہے۔)
فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللہِ، مَنْ أَکْیَسُ النَّاسِ وأَحْزَمُ النَّاس؟ قالَ: أَکْثَرُہُمْ ذِکْرَاً لِلْمَوْتِ، وَأَکْثَرُہُمُ اسْتِعْدَاداً لِلْمَوْتِ، أُولئِکَ الأَکْیَاسُ ذَہَبُوا بِشَرَفِ الدُّنْیَا وَکَرَامَةِ الآخِرَةِ. (رواہ ابن أبي الدنیا في کتاب الموت، والطبراني فی الصغیر بإسناد حسن، ورواہ ابن ماجہ مختصراً بإسناد جید، والبیہقي في الزہد.)
(دریافت کیا:اے اللہ کے نبی!سب سے زیادہ عقلمند اور محتاط شخص کون ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو سب سے زیادہ موت کو یاد کرے، سب سے زیادہ موت کی تیاری کرے، وہی عقل مندلوگ ہیں ، جو دنیا کی شرافت اور آخرت کی عزت کے مستحق ہوں گے۔)
قالَ رَسُولُ اللہِ صلی اللہُ علیہ وسلم: عُودُوا الْمَرْضَی، واتْبَعُوا الْجَنَائِزَ؛ تُذَکِّرْکُمُ الآخِرَةَ. (رواہ أحمد والبزار وابن حبان فی صحیحہ)
(رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا: بیماروں کی مزاج پرسی کرو اور جنازے کے پیچھے چلو، اس سے تمہیں آخرت یاد آئے گی۔)
لہٰذا ہمیں دنیاوی مشاغل ومصروفیات، یہاں کی چمک دمک، یہاں کی عارضی زندگی، آل واولاد ، مال واسباب اور دنیاوی زندگی کی تعمیر وترقی میں اس طرح نہیں لگ جانا چاہیے کہ ہم اپنے حقیقی وطن اور اپنی آخرت سے غافل ہو جائیں، جو لوگ اس طرح زندگی گزارتے ہیں، انہی کے لیے کہا گیا ہے کہ دنیا دھوکے کا ساز وسامان ہے، اچانک جب موت آئے گی اور اس دنیا سے آنکھیں بند ہوکر دوسری دنیا میں کھلیں گی تو تمام حقیقتیں انسان کے سامنے آجائیں گی اوراس وقت سوائے غیر مفید حسرت وافسوس کے وہ کچھ نہیں کر سکے گا؛ لہذا بالکل چوکنا ہوکر ، آخرت سے باخبر ہوکر اور وہاں کی زندگی ہر وقت نگاہوں کے سامنے رکھ کر اس دنیا کی چند روزہ زندگی گزارنا ہمارے لیے نہایت ضروری ہے۔