کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں بانی ونگران GHERفاؤنڈیشن لاہورہوں، ہمارا ادارہ 2013سے لاہور میں رجسٹرڈ فلاحی ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے، جس کا مقصد مستحق خواتین کی تعلیم، صحت، تربیت، اخلاقی رہنمائی اور حقوق کی فراہمی ہے، ہماری کوشش ہے کہ ایسی خواتین جو معاشرتی طور پر محروم، بے سہارایا کمزور حالات کا شکار ہیں، ان کی مدد کی جائے تاکہ وہ باعزت خود مختار زندگی گزار سکیں، ہم آپ سے مؤدبانہ سوال کرتے ہیں اگر GHERفاؤنڈیشن کا یہ کام مستحق خواتین کی تعلیم، تربیت، صحت اور اصلاح کے لئےہو تو کیا زکوٰ ۃکی رقم اس ادارے کو دی جاسکتی ہے؟ اور کیا اس ادارے کو زکوٰۃ، صدقات یا عطیات دینا شرعاً جائز ہوگا؟ ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ زکوٰۃ کے پیسے صرف مستحق اور مستحقہ خواتین پر خرچ ہوں، براہ کرم رہنمائی فرمائیں تاکہ ہم شریعت کے مطابق کام جاری رکھ سکیں۔
واضح رہے کہ جو فلاحی ادارے زکوۃ جمع کرتے ہیں وہ زکوۃ کی رقم کے مالک نہیں ہوتے بلکہ زکوۃ دینے والوں کے وکیل اور نمائندے ہوتے ہیں، زکوۃ اور صدقات واجبہ کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ مستحق شخص کو مالک بنا کر دی جائے وہ اس پر قبضہ کرے اور مالکانہ انداز میں جس طرح چاہے اس کو خرچ کرنے کا اختیار حاصل ہو، لہذا صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ ادارہ مستحقِ زکوۃ شخص کو نقد رقم یا کوئی سامان یا دوائی وغیرہ مالک بنا کر دے رہا ہےتو اس ادارے کو زکوۃ دینا جائز ہے، لیکن اگر اس ادارے میں زکوۃاور غیر زکوٰۃ کا حساب الگ نہیں ہوتا یا ادارہ زکوۃ کو مذکورہ بالا طریقے پر خرچ نہیں کرتا تو اس ادارے کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہوگا، اور اس ادارے کو زکوٰۃ دینے سے زکوۃ اد انہیں ہو گی۔
صدقات نافلہ اور عطیات میں مذکورہ بالا شرائط نہیں ہے، اس لئے ادارہ جس طرح مناسب سمجھے ان کو مستحقین پر خرچ کرسکتا ہے، اور اس ادارے کو صدقات نافلہ اور عطیات وغیرہ دینا جائزہے۔لما في التنوير مع الدر:’’ويشترط أن يكون الصرف(تمليكا)لا إباحة كما مر لا)يصرف (إلى بناء) نحو(مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه)‘‘.(كتاب الزكوة، باب المصرف: 342/3، رشيدية)وفي شرحه للسرخسي:’’(ولا يجزئ إلخ)والأصل فيه أن الواجب فيه فعل الإيتاء في جزء من المال ولا يحصل الإيتاء إلا بالتمليك فكل قربة خلت عن التمليك لا تجزئ عن الزكاة‘‘.(كتاب الزكوة، باب العشر: 269/1،غفارية)وفي الأصل:’’قلت: أرأيت الرجل يشتري النسمة من زكوة ماله فيعتقها أيجزيه ذلك؟ قال:لا، قلت: أرأيت الرجل يحج عن الرجل من زكوة ماله أو يكفنه أو يبني مسجدا من زكاة ماله هل يجزيه ذلك؟ قال:لا.محمد عن أبي يوسف، قال: حدثنا الحسن بن عمارة عن الحكم عن إبراهيم أنه قال: لا يعطى من زكوة ماله في حج، ولا في غيره، ولا يقضى منه دين الميت ولا يعتق منه رقبة تامة، ولا يعطى في رقبة، ولا في كفن ميت، ولا في بناء مسجد‘‘.(كتاب الزكوة، باب العاشر: 2 /104،103، دارابن حزم).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 191/231