یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر ویڈیوز بناکر پیسے کمانے کا حکم

یوٹیوب اور ٹک ٹاک پرویڈیوز بناکر پیسے کمانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل بہت سے لوگ یوٹیوب یوٹیوب (yotube)فیس بک (Facebook)اور ٹک ٹاک (Tiktok)پرفنی ویڈیوز یا بیانات وغیرہ، مختلف قسم کی ویڈیوز کے ذریعے چینلز اور پیچزوغیرہ  چلاتے ہیں اور اس کے ذریعہ وہ پیسے کماتے ہیں ،کیا یہی پیسے ان لوگوں کے لیے جائز ہیں یا نہیں ؟ شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

یوٹیوب (yotube)فیس بک (Facebook)اور ٹک ٹاک (Tiktok)فنی  ویڈیوز اپلوڈ  کر کے چینل یا پیج بنا کر اس کے ذریعے پیسے  کمانا درج ذیل وجوہات کی بنا  پر ناجائز ہے ۔

۱۔جاندار کی تصویر یا وہ ویڈیو جس میں جاندار کی تصویر ہوتی ہے اس کو اپلوڈ کرنا ۔

۲۔اپنے چینل سے مختلف غیر شرعی اور میوزک ، موسیقی والے اشتہارات چلانے کی اجازت  دینا،  گویا گناہ کے کاموں پر تعاون ہے،جوکہ معصیت ہے ۔

۳۔ حرام اور ناجائز چیزوں کی تشہیرکا  ذریعہ بننا لازم آتا ہے  ۔

۴۔ شرعا اس معاملے کی صورت اجارہ کی ہے  ، اس میں اجرت مجہول ہے ، اس لئے کہ ویڈیو ز اپ لوڈ کرنا یا اشتہارات لگانے پر جو پیسے ملیں گے ، وہ متعین نہیں ہیں ، بلکہ دیکھنے والوں کی تعداد پر معلق ہے ، لہذا یہ معاہدہ شرعا درست نہیں ہے ۔

لمافی رد المختار :

وفی المنتفی :امراۃ نائحۃ او صاحبۃ طبل او زمر اکتسبت مالا ردتہ علی اربابہ ان علمو ا والا تتصدق بہ.(کتاب الاجارۃ ، مطلب : فی الاستجارۃ علی الطاعات، ۹/۳۹، ط:رشیدیہ )

وفیہ ایضا

وظاہرکلام النووی فی شرح مسلم الاجماع  علی تحریم تصویرالحیوان، وقال: وسواء صنعہ  لما یمتھن او لغیرہ ،فصنعتہ حرام بکل حال،لان فیہ مضاھاۃ لخلق اللہ تعالیٰ وسواء کان فی ثوب او بساط او درھم واناء وحائط وغیرھا اھ  فینبغی ان یکون حراما  لا مکروھا ان ثبت الاجماع او قطعیۃ الدلیل بتواترۃ  اھ کلام البحر ملخصا.(کتاب الصلاۃ ، باب ما یفسد الصلاۃ ، وما یکرہ ، ۲/ ۵۰۲ط: رشیدیہ )

وفی التنویر مع الدر:

تفسد الاجارۃ بالشروط المخالفۃ لمقتضی العقد فکلما افسد البیع مما مر یفسدھا کجھالۃ ماجور او اجرۃ اومدۃ او عمل ( کتاب الاجارۃ  باب الاجارۃ الفاسدۃ ، ۹ /۷۷ ، ط رشیدیہ)

وفی البحر الرائق :

ھی بیع منفعۃ باجر معلوم ....وشرطھا ان تکون الاجرۃ والمنفعۃ معلومتین،لان جھالتھما تفضی الی المنازعۃ ...ومحل العقد  ھنا المنافع  وھی معدومۃ ، والمعدوم لا یصلح محلا ... (باجر معلوم ) عما اذا کان مجھولا کما اذا استاجر عبدا باجر معلوم وبطامعہ لایجوز (کتاب الاجارۃ ، ۷ /۵۰۶۔۵۰۸،:ط رشیدیہ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر: 176/162