ہیلتھ کارڈ کے ذریعہ علاج و معالجہ کرنا

ہیلتھ کارڈ کے ذریعہ علاج و معالجہ کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل ایزی پیسہ والوں نےایک آفررکھی ہے(ہیلتھ)کےنام سے،اس میں ہوتایہ ہےکہ جوبھی ایزی پیسہ استعمال کرتاہے، اس سےشروع میں دوہزار(2000)روپے کاٹتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ یہ شخص ان کا ایپ (ایزی پیسہ) بھی استعمال کرتا رہے، تو اس کے لیے ہیلتھ کارڈ جاری کرتے ہیں، اس کارڈ کی وجہ سےایک لاکھ تک کا علاج فری میں ہوگا، اب آیا یہ درست ہے یا نہیں؟ قران وحدیث اور فقہ کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
وضاحت:یہ معاہدہ ایک سال کے لیے ہی ہوتا اور ایک سال بعد تجدید معاہدہ کے لیےازسر نو رقم جمع کرانی پڑتی ہے، دی ہوئی رقم واپس نہیں کی جاتی۔

جواب

واضح رہےکہ علاج و معالجہ شرعا مطلوب ہےاور اس مطلوب کو حاصل کرنے کے لیے جائز اور حلال ذرائع، وسائل کا اختیار کرنا ضروری ہے، کسی ایسے طریقہ سےعلاج کرانے کی اجازت نہیں ہے جو شرعا ناجائز اورحرام ہو،سوال مذکور میں ایزی پیسہ اکاؤنٹ ہولڈر کا ایک سال کے لیے دوہزار کی رقم علاج کے لیے جمع کرانا اور بیمارنہ ہونےکی صورت میں اس رقم کا واپس نہ ملنا میسر(جوا) ہے، نیزیہ رقم ایک امر موہوم اورمعدوم کے لیے جمع کی جارہی ہے جس میں غرر(دھوکہ) ہے، مزید یہ کہ بیمار ہونےکی صورت میں کم رقم کے بدلے زیادہ مالیت کےعلاج کا معاہدہ ہے جو کہ ربا(سود) ہےاورشرعاجوا،غرراورسود ناجائز اورحرام ہے، لہذاصورت مسئولہ میں ایسے طریقے سےعلاج کرناجس میں جوا، غرراور سود جیسے سنگین جرائم اور گناہ کا ارتکاب کرنا پڑتا ہو قرآن وحدیث اورفقہ کی روسے ناجائز اور حرام ہے۔
لمافي التنزيل العزيز:
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾.(سورة المائدة،الآية:90)
وفيه أيضا:
﴿يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ﴾.(سورة البقرة،الآية:276)
وفيه أيضا:
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ﴾.(سورة البقرة،الآية:278)
وفي حجة الله البالغة:
’’الربا: وهو القرض على أن يؤدي إليه أكثر أو أفضل  مما أخذ ســـــحت باطل‘‘.(البيوع المنهي عنها:646/2:بيروت)
وفي الرد:
’’رأيت في جواهر الفتاوى إذا كان مشروطا صار قرضا فيه منفعة وهو رباوإلا فلا بأس به‘‘.(كتاب البيوع،مطلب  كل قرض جر نفعا حرام:415/7،رشيدية)
وفي كتاب التعريفات:
’’الغرر ما يكون مجهول العاقبة لا يدرى أيكون أم لا‘‘.(باب الغين، الغرر،ص:164:دارالكتب العلمية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/44