گٹکے،تمباکو وغیرہ کے کاروبارکا حکم

گٹکے،تمباکو وغیرہ کے کاروبارکا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ کیا گٹکے کا کاروبار جائز ہے؟ جس میں مندرجہ ذیل اشیاء استعمال ہوتی ہیں:چونا، چھالیہ، کتھا، تمباکو، ملتانی مٹی، کریم، جائفل، لونگ، جاوتری، صندل کا برادہ، بادیان پھول،نیز اس گٹکے کا کھانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

شریعتِ مطہرہ میں کسی چیز کی حرمت کی علت چار چیز یں ہیں:نجس ہونا، مضر ہونا ، خبیث ہونا اور نشہ آور ہونا،جب مضر وغیر مضر چیزیں ملائی جائیں اور ملانے سے نقصان جاتا رہے تو حرمت بھی جاتی رہے گی اور اگر نقصان باقی رہے تو حرمت بھی باقی رہے گی،اس سے معلوم ہو گیا کہ گٹکے میں اگرچہ چونا او رملتانی مٹی جیسی مضر چیزیں اور جائفل جیسی نشہ آور چیز شامل ہے، لیکن اتنی کم مقدار سے نہ ضرر شدید پہنچتا ہے اور نہ ہی آدمی کو نشہ ہوتا ہے،لہٰذا اس کی خریدوفروخت اور استعمال مباح ہے۔

''قلت،وألف في حلہ أیضا سیدنا العارف عبد الغني النابلسي رسالۃ سماھا. ( الصلح بین الإخوان في إباحۃ شرب الدخان)۔۔۔۔فإنہ لم یثبت إسکارہ ولا تفتیرہ، ولا إضرارہ،بل یثبت لہ منافع، فھو داخل تحت قاعدہ الأصل في الأشیاء الإباحۃ، وإن فرض إضرارہ للبعض لا یلزم منہ تحریمہ علی کل أحد، فإن العسل یضر بأصحاب الصفرآء الغالبۃ، وربما أمرضھم مع أنہ شفاء بالنص القطعی ولیس الاحتیاط في الافتراء علی اﷲ تعالیٰ بإثبات الحرمۃ أو الکراھۃ اللذین لا بد لہما من دلیل بل في القول بالإباحۃ التي ہي الأصل، وقد توقف النبي - صلی اﷲ علیہ وسلم- مع أنہ ھو المشرع في تحریم الخمر أم الخبائث حتی تزل علیہ النص القطعي، فالذي ینبغي للإنسان إذا سئل عنہ۔۔۔أن یقول ھو مباح،لکن رائحتہ تستکرھھا الطباع فھو مکروہ طبعا الشرعا إلی آخرما أطال بہ رحمہ اﷲ تعالی.( ردالمحتار، کتاب الأشربۃ: ٦/٤٥٩، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی