گانے کی کیسٹیں فروخت کرنےاورکمائی کےاستعمال کا حکم

گانے کی کیسٹیں فروخت کرنے اور کمائی کے استعمال کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ

۱۔ کیسٹوں کے کاروبار او راس کے منافع کے بارے میں ایک سوال پوچھنا ہے،اگر کسی دکان میں دونوں قسم کی کیسٹ دستیاب ہو اگرچہ گانوں والی زیادہ ہو تو اس کی کمائی کیسی ہے ؟

۲۔ نیز صبح کے وقت تلاوت اس لیے لگانا ،تاکہ اسی کاروبار میں برکت ہو۔

۳۔اور اس سے حاصل ہونے والی کمائی مسجد میں صرف کرنا یہ کہہ کر کہ اس کمائی سے مسجد کی لیٹرین بنائی جائے۔

۴۔ نیز ایسے کاروبار میں مبتلا لوگوں کے ساتھ کھانا صحیح ہے یا نہیں؟

۵۔ اگر ان کی کمائی سے دینی کتابیں خریدی جائیں تو کیا ان کو ثواب ملے گا۔

۶۔ اگر وہ اسی کمائی سے خیرات ، صدقہ، ختم وغیرہ کریں تو اس کا کیا حکم ہے، اس صدقے کا کھانا کیسا ہے؟

۷۔اس میوزک سینٹر میں بیٹھ کر ختم قرآن کا حکم واضح فرمائیں ۔

۸۔ نیز اس دکان کو نظرِ بد سے بچانے کے لیے اور خوب کمائی کے لیے تعویذ لگانا کیسا ہے؟

جواب

۱،۴صورت مسؤلہ میں چوں کہ گانے کی کیسٹیں زیادہ ہیں اس لیے یہ کاروبار اور اس کا منافع جائز نہیں اور ایسی آمدنی میں سے کھانا بھی درست نہیں۔

۲۔حرام کاروبار میں برکت کے لیے کلام اﷲ کی تلاوت گناہ کبیرہ ہے اور کفر کا اندیشہ ہے۔

۳۔ اس آمدنی کو مسجد کے کاموں (چاہے وہ لیٹرین ہی ہو)میں صرف کرنا جائز نہیں اور جب گانے کی کیسٹیں زیادہ ہیں تو ایک صورت میں یہ پیسہ دینا جائز ہو سکتا ہے وہ یہ کہ گانے اور تلاوت کی کیسٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی الگ الگ رکھی جائے مثلاً ان کا گلہ علیحدہ علیحدہ ہو تو اس صورت میں صرف اس رقم سے مسجد میں دیا جاسکتا ہے جو تلاوت کی کیسٹوں سے حاصل ہوئی ہو اور اس صورت میں اس رقم سے کھانا بھی درست ہو گا،کیسٹوں کی ایک تیسری قسم بھی ہے یعنی خالی کیسٹ، ان کی آمدنی بھی درست ہے بشرطیکہ بیچتے وقت یہ معلوم نہ ہو کہ خریدنے والا اسے گناہ کے کام میں استعمال کرے گا۔ اگر علم ہو تو پھر مکروہ ہے۔

۵،۶۔جائز نہیں، اگر ثواب کی نیت ہو تو کفر کا اندیشہ ہے۔

۷۔ جائز نہیں ، گناہ کبیر ہ ہے۔

۸۔ جائز نہیں، جب اس میں ”کاربد” ہوتا ہے تو اس کو نظر بد سے بچانے کے لیے آیات قرآنی وغیرہ پر مشتمل جائز تعویذ لگانا گناہ کبیرہے اور اس میں کفر کا خطرہ ہے۔

''قلت: وأفاد کلامھم أن ما قامت المعصیۃ بعینہ یکرہ بیعہ تحریماً وإلا فتنزیھاً. نہر.وفي الرد:(قولہ: نہر)عبارتہ:عرف بھذا أنہ لا یکرہ بیع ما لم تقم المعصیۃ بہ کبیع الجاریۃ المغنیۃ والکبش النطوح''.(الدر المختار مع الرد، کتاب الجھاد، باب البغاۃ، مطلب في کراھیۃ بیع ما تقوم المعصیۃ بعینہ:٤/٢٦٨، سعید)

''أنّ ماقامت المعصیۃ بعینہ یکرہ بیعہ، وما لا فلا، ولذا قال الشارح:إنہ لا یکرہ بیع الجاریۃ المغنیۃ والکبش النطوع والدیک المقاتل والحمامۃ الطیارۃ''.(البحر الرائق، کتاب السیر، باب البغاۃ: ٥/٢٤٠، رشیدیۃ)

''فإن علم البائع أو غلب علی ظنہ أنہ یقصد استعمالہ في المعصیۃ کرہ تحریماً وإلا جاز ویؤیّد کلام المبسوط الذي صرح فیہ بالجواز بعد تصریحہ بالحرمۃ قبل ذلک حیث علم بہ البائع''. (جواہر الفقہ:٢/٤٤٤، دارالعلوم کراچی)

''وفي الشامیۃ نقلا عن الظہیریۃ:رجل دفع إلی فقیر من المال الحرام شیأا، یرجوبہ الثواب یکفر، ولو علم الفقیر بذلک، فدعالہ، وأمن المعطي کفرا أجمیعًا ۔۔۔قلت:الدفع إلی الفقیر غیر قید بل مثلہ فیما یظھر لوبنی من الحرام بعینہ مسجداً ونحوہ مما یرجوبہ التقرب؛ لأن العلۃ رجاء الثواب فیما فیہ العقاب، ولا یکون ذلک إلا باعتقاد حلہ''.(رد المحتار، کتاب الزکاۃ، مطلب في التصدق من المال الحرام: ٢/٢٩٢، سعید)

قال اللّٰہ تعالی:(ومن الناس من یشتري لہو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم)(لقمان: ٦)

وقال تعالی: (یأیہا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحًا) (المؤمنون: ٥١)

''أما لو أنفق في ذلک ما لا خبیثًا وما لا سببہ الخبیث والطیب فیکرہ؛لأن اللّٰہ تعالی لا یقبل إلا الطیب، فیکرہ تلویث بیتہ بما لا یقبلہ، اھ شرنبلالي''. (رد المحتار، کتاب الصلاۃ، مطلب:کلمۃ ''لا بأس''دلیل علی أن المستحب غیرہ:١/٦٥٨، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی