کیا حکومت کے ٹیکس لینے کی وجہ سےعشر ساقط ہوجائے گا؟

Darul Ifta

کیا حکومت کے ٹیکس لینے کی وجہ سےعشر ساقط ہوجائے گا؟

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بہت بڑا باغ ہے جس میں مختلف قسم کے درخت موجود ہیں ، آم، امرود وغیرہ اور اس باغ کا رقبہ ۱۰۹ ایکڑ ہے اوریہ باغ حکومت کی طرف سے سیراب کیا جاتا ہے او رحکومت مالک باغ سے ٹیکس الگ وصول کرتی ہے او رعشر بھی تخمیناً وصول کرتی ہے اور پانی کا ٹیکس بھی وصول کرتی ہے،لہٰذا اس باغ کا کیا حکم ہے آیا صاحب باغ پر عشر لازم ہے ،یا وہی عشر کافی ہے جو حکومت وصول کرتی ہے؟ نیز اگر عشر لازم ہے تو کیا بیسواں حصہ ہے ،یا دسواں؟نیز یہ زکوٰۃ ادا ہوتی ہے یا نہیں؟

جواب

عشر زمین کی زکوٰۃ ہے اور زکوٰۃ الاموال کی طرح ایک مالی عبادت ہے اوراس کا مصرف بھی وہی ہے جوزکوٰۃ کا مصرف ہے،اس سے معلوم ہوا کہ حکومت زمین داروں یا کاشت کاروں سے جو سرکاری ٹیکس وصول کرتی ہے، اس ٹیکس کی ادائیگی سے عشر ادا نہ ہو گا، بلکہ مسلم مالکان کے ذمہ واجب ہو گا کہ وہ بطور خود عشر نکالیں اور اس کے مصرف پر خرچ کریں۔
البتہ اگر حکومت مسلم لوگوں سے زکوٰۃ کے اصول کے مطابق زکوٰۃ وصول کرے اور اس کے مصارف پر خرچ کرنے کا وعدہ بھی کرے اسی طرح زمینوں کا عشروخراج اسی نام سے اسی کے اصولِ شرعیہ کے موافق وصول کرے او رانہیں کے مصارف پر خرچ کرنے کی پابندی کا اعلان کرے تو یہ زکوٰۃ یا عشر جو حکومت مسلمہ کو دیا جائے گا وہ شرعاً زکوٰۃ وعشر ہی شمار ہو گا اور لوگ زکوٰۃ وعشر کے فریضہ سے سبک دوش ہو جائیں گے، پھراگر حکومت اس کے مصارف پر خرچ کرنے میں کوتاہی بھی کرے تو اس کی ذمہ داری عمالِ حکومت پر رہے گی، اربابِ اموال زکوٰۃ وعشر کے فریضہ سے سب کدوش رہیں گے،جو زمین آسمانی پانی سے یا چشمہ وغیرہ سے سیراب کی جاتی ہو، اس میں عشر ہے اور جو زمین ڈول یا رہٹ یا ٹیوب ویل وغیرہ (یا ایسی نہروں سے جن کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے )سے سیراب  کی  جاتی ہے تو ان میں نصف عشر، یعنی پیداوار کا بیسواں حصہ ادا کرنا واجب ہوتا ہے۔
قولہ:(یجب العشر)ثبت ذلک بالکتاب والسنۃ والإجماع والمعقول أي: یفترض لقولہ تعالیٰ:(وآتوا حقہ یوم حصادہ)فإن عامۃ المفسرین علی أنہ العشر أو نصفہ، وہومجمل بینہ قولہ ـصلی اللّٰہ علیہ وسلمـ''ما سقت السماء ففیہ العشر وما سقي بغرب أو دالیۃ ففیہ نصف العشر''والیوم ظرف للحق لا للإیتاء، فلا یرد أنہ لو کان المراد ذلک فزکاۃ الحبوب لا تخرج یوم الحصاد بل بعد التنقیۃ والکیل لیظہر مقدارہا علی أنہ عند أبي حنیفۃ یجب العشر في الخضراوات، ویخرج حقہا یوم الحصاد أي: القطع.(ردالمحتار، کتاب الزکاۃ،باب العشر: ٢/٣٢٥، سعید)
''وجاز دفع القیمۃ في زکاۃ وعشر وخراج۔۔۔ وتعتبر القیمۃ یوم الوجوب''(الدر المختار،کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الغنم: ٣/٢٥٠، ١٥٢، دارالمعرفۃ)
(قولہ: أي مصرف الزکاۃ والعشر) یشیر إلی وجہ مناسبتہ ہنا، والمراد بالعشر: ما ینسب إلیہ کما مر، فیشمل العشر ونصفہ المأخوذین من أرض المسلم وربعہ المأخوذ منہ إذا مر علی العاشر، أفادہ ح. وہو مصرف أیضا ۔۔۔ وغیر ذلک من الصدقات الواجبۃ کما في القہستاني(رد المحتار، کتاب الزکاۃ، باب المصرف: ٢/٢٣٩،سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer