کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ امام نے جہری نماز میں اگر آیت سجدہ تلاوت کی اور فوراً رکوع کرلیا، تو آ یا یہ رکوع سجدہ تلاوت کی طرف سے سب کے لیے کفایت کرجائے گا یا نہیں؟
اگر امام رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت کرلے، توراجح قول کے مطابق امام کی نیت مقتدی کی طرف سے بھی کافی ہوجائے گی، لیکن بہتر یہ ہے کہ امام رکوع میں نیت نہ کرے، بلکہ سجدہ کرے تاکہ امام و مقتدی دونوں کا سجدہ بلا خلاف ادا ہوجائے، نیز مقتدی کے لیے بہتر یہ ہے کہ اگر اس کو آیت سجدہ کا علم ہو، تو وہ رکوع میں نیت کرلے، اس احتمال پر کہ امام نے رکوع میں نیت کرلی ہوگی۔لما في الرد:’’قوله: (لو ركع وسجد لها) أي للصلاة فورا ناب أي سجود المقتدي عن سجود التلاوة بلا نية تبعا لسجود إمامه لما مر آنفا أنها تؤدى بسجود الصلاة فورا وإن لم ينو والظاهر أن المقصود بهذا الاستدراك التنبيه على أنه ينبغي للإمام أن لا ينويها في الركوع لأنه إذا لم ينوها فيه ونواها في السجود أو لم ينوها أصلا لا شيء على المؤتم لأن السجود هو الأصل فيها‘‘.(كتاب الصلاة، باب سجود التلاوة، 2 /707،708، رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:190/252