کفریہ کلمات کہنے والے کو فورا بتاناضروری ہے،یا بعد میں؟

Darul Ifta mix

کفریہ کلمات کہنے والے کو فورا ٹوکناضروری ہے،یا بعد میں بتایا جائے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ کوئی شخص غصے میں کوئی کفریہ الفاظ بول دے ،تو جس شخص نے سنا ہے وہ اسے اشتعال کی حالت میں نہ بتائے ،تو اس کا  کیا حکم ہے؟ کیا اسے بعد میں بتانا ضروری ہے ؟ شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

اگر کوئی شخص غصے کی حالت میں کفریہ الفاظ بول دے اور سننے والے کو گمان ہو کہ اگر میں اس کو روکو ں ،تو وہ ‘‘مشتعل’’ ہو کر اور کفریہ الفاظ بولے گا ، تو سننے والا اس کو اسی حالت میں نہ  روکے ، اور اگر اس کو گمان ہو کہ اگر میں اس کو روکو ں، تو وہ میری بات مانے گا ، تو سننے والے پر اس کا روکنا واجب ہے ،اوراگر نہ روکا ،تو ترک واجب کا گناہ گار ہو گا،اگر سننے والے کو گمان ہو کہ میرے روکنے سے وہ مجھےمارے گا ،یامجھے گالیاں دے گا ، اور  میں ان کو برداشت بھی نہیں کرسکتا، یا میرے روکنے سے لڑائی اور فتنہ پیدا ہو گا ، تو اس کو نہ روکنا افضل ہے ،لیکن  اگر وہ اس کی گالیاں یا مار پیٹ برداشت کر سکتا ہے ، تو اس کا روکنا افضل ہے ،اور اگر نہ روکا ،تو اس پر کچھ گناہ نہیں

،اگر اس کا غالب گمان ہو کہ وہ میری بات نہیں مانے گا ، لیکن گالیاں وغیرہ بھی نہیں دے گا ، تو اس کو اختیار ہے ،چاہے اس کو روکے یا نہ روکے ،تاہم  روکنا افضل ہے ،باقی رہا بعد میں اس کو بتانا،تو سننے والے کو چاہئے کہ اس کو بعد میں نصیحت کر کے سمجھائے،تا کہ وہ توبہ کرے ،البتہ بعد میں بتانا سننے والے کے ذمے واجب نہیں ، کیونکہ گناہ کرنے کے بعد  اس کو بتانا تغییر منکر نہیں ، بلکہ توبہ کی ترغیب ہے ۔

لما في الهندية:

"ذکر الفقيه ‘‘فی کتاب البستان’’ أن الأمر بالمعروف علی وجوہ:إن کان یعلم بأکبر رأيه أنه لو أمرہ بالمعروف ،یقبلون ذالک منه ویمنعون عن المنکر ،فالأمرواجب عليه ،ولا یسعه تركه ،ولو علم بأکبر رأيه أنه لو أمرهم بذالک،قذفوہ وشتموہ،فتركه أفضل،وکذالک لو علم أنهم یضربونه ولا يصبر علی ذالک،ویقع بینهم عداوةويهيج منه القتال ،فتركه أفضل،ولو علم أنهم لو ضربوه،صبر علی ذالک ولا یشکو إلی أحد، فلا بأس بأن ینهى عن ذالک وهو مجاهد،ولو علم أنهم لا یقبلون منه ولا یخاف منه ضرباولا شتماً،فهو بالخیار،والأمر أفضل. "(کتاب الکراهية  :5/407 ،ط:دار الفکر)

وفي البزازية:

"رأی منکرا ،وهو ممن یرتکبه ینهاه؛لأن الواجب عليه شیئان،فلترک أحدهما لا یترک الآخر.ویحل الأمر بالمعروف ،وان یلحقه الضرر غالبا فيه ، فان علم أنهم لا يترکونه ،فهو في سعة من الترک،وان علم أنهم یترکونه،لا یحل له ترک الأمر بالترک."(کتاب الکراهية: 3/201 ، ط:دار الفکر)

وفي مرقاۃ المفاتيح:

"(من رأى منكم منكرا)...وخلاصة الكلام:من أبصرما أنكره الشرع(فليغيره بيده)أي:يمنعه بالفعل،بأن يكسر الآلات ويريق الخمر."(كتاب الأداب،باب الأمر بالمعروف،الفصل الأول:8/861،ط:رشيدية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 175/121،123