عمرہ اسکیم/قرعہ اندازی میں نام نکلنے پر باقی اقساط معاف کرنے کا حکم

عمرہ اسکیم/قرعہ اندازی میں نام نکلنے پر باقی اقساط معاف کرنے کا حکم

سوال

مفتیان کرام سے ایک مسئلے کے متعلق رہنمائی درکار ہے کہ ایک عمرہ اسکیم ہے جس کا طریقہ کار کی مندرجہ ذیل تفصیل ہے:

جو بھی شخص ممبر بننا چاہتا ہے وہ فوری رابطہ کرے عمرہ اسکیم بذریعہ قرعہ اندازی مکمل پیکیج بائی ائر کھانے کے ساتھ 50 ممبران کی کمیٹی ہر ممبر کو ہر ماہ 25 ریال دینے ہوں گے۔

ہر ماہ قرعہ اندازی کے ذریعے ایک خوش نصیب کا نام نکالا جائے جس کا نام نکلے گا اس سے باقی قسط نہیں لی جائے گی وہ خوش نصیب صرف 25 ریال میں عمرہ کرے گا دوسرے ماہ میں جس کا نام نکلے گا وہ 50 ریال میں اور تیسرے ماہ 75 ریال چوتھے ماہ 100 ریال میں یعنی ایسے ہی ہر ماہ جس نام نکلے گا اس سے بقایا قسطیں نہیں لی جائیں گی۔ اس کمیٹی کی مدت 12 ماہ ہوگی 7 قسط مکمل ہونے کے بعد کوئی شخص عمرہ کرنا چاہتا ہے تو کروا دیں گی کمیٹی چلتی رہے گی جب اس کا نام نکلے گا باقی قسطیں نہیں دینی ہوگی جس شخص کا نام نہیں نکلتا آخر میں وہ شخص عمرہ ادا کرے یا پیسے لے اس کی مرضی ہے جو شخص راستہ میں کمیٹی چھوڑے اس کی بقایا رقم آخر میں ملے گی۔

اگر کوئی فیملی کے ساتھ ممبر بنے گا اس کا دو سال سے کم عمر کا بچہ فری جائے گا۔

اس کمیٹی کا نکالنے کا طریقہ کار

سب ممبران کا واٹساپ گروپ بنایا جائے گا کمیٹی نکالنے کے وقت ویڈیو بنا کر گروپ میں ڈال دی جائے گی سب ممبران دیکھ لیں گے۔

جو ممبر موقع پر آنا چاہتا ہے وہ قرعہ اندازی کے وقت آجائے۔

ان شاء اللہ ابھی بہت جلدی سبب ممبران سے پیسے لے کر کمیٹی نکال دی جائے گی۔

نوٹ:۔ اس کمیٹی کے متعلق کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں حرام ہے یا حلال ہم نے یہ سوال شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد عبد اللہ نورانی الرفاعی صاحب پاکستان کراچی جو کہ حال ہی میں عمان کے دورے پر تھے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا اس میں کوئی حرج نہیں جائز ہے۔

اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے یہ جائزہے یا نہیں؟ ا سکی وضاحت فرمادیں۔

جواب

عمرہ اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے، جو بے پناہ برکتوں اور رحمتوں کا ذریعہ ہے اور اللہ تعالی پاکیزہ چیزوں کو پسند فرماتے ہیں، اس لیے عمرہ بھی جائز طریقہ اور ہر طرح کی حرام آمیزش سے پاک مال سے ادا کیا جائے۔

کمیٹی کے سربراہان کے پاس قسط وار جمع کی گئی رقوم کی حیثیت قرض کی ہے، اور قرض پر منافع لینا (خواہ پیسوں کی صورت میں ہو، یا کسی اور شکل میں) سود ہے، چناں چہ قرعہ اندازی میں نام نکلنے کے بعد باقی اقساط کا معاف کیا جانا، یہ بھی ایک قسم کا نفع ہے، نیز اس میں جوا ہونے کا بھی پہلو ہے، یہ ممکن ہے کہ کم رقم زیادہ نفع لے کر آئے اور یہ بھی ممکن ہے کہ پوری رقم جمع کروانی پڑے، اس لیے مذکورہ عمرہ اسکیم کا ممبر بننا جائز نہیں ہے۔

لما في الشامية:

"وفي الأشباه کل قرض جر نفعا حرام".

وقال الشامي تحته: رأيت في "جواهر الفتاوى" إذا كان مشروطا صار قرضًا فيه منفعة فهو ربا". (الشامية، البيوع، فصل في القرض: 7/315، رشيدية)

وفي إعلاء السنن:

عن أمير المؤمنين مرفوعًا:"كل قرض جر منفعة فهو ربا".قال ظفر العثماني في شرحه:وكل قرض شرط فيه الزيادة فهو ربا بلا خلاف، قال ابن المنذر:"أجمعوا على أن السلف إذا شرط على المستسلف زيادة أو هدية، فأسلف على ذلك أن أخذ الزيادة على ذلك ربا، وقد روي أبي بن كعب وابن عباس، وابن مسعود: "أنهم نهوا عن قرض جر منفعة ...ولا فرق بين الزيادة في القدر أو في الصفة". (باب: كل قرض جر منفعة فهو ربا: 14/513، إدارة القرآن)

وفي الدر مع الرد:

"(إن شرط المال) في المسابقة (من جانب واحد وحرم لو شرط) فيها (من الجانبين) لأنه يصير قمارًا.

قوله: (لأنه يصير قمارا) لأن القمار من القرمر القذي يزاد تارة وينقص آخري، وسمي قمارًا، لأن كل واحد المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص. (كتاب الحظر والإباحة: 9/664، رشيدية)

وفي أحكام القرآن:

"قال قوم من أهل العلم: "القمار كله من الميسر"….وحقيقته تمليك المال على المخاطرة، وهو أصل في بطلان عقود التمليكات الواقعة على الأخطار".(سورة المائدة، باب تحريم الخمر: 2/653، قديمي).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 155/15