کسی دکان کی اچھی شہرت یا چلت کو کرایہ پر دینا

Darul Ifta mix

کسی دکان کی اچھی شہرت یا چلت کو کرایہ پر دینا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارا پیشہ ہوٹل سے وابستہ ہے، یعنی ہم ہوٹل پر خرچہ کر کے اس کو کامیاب کرتے ہیں،پھر چالو کاروبا کسی پارٹی کو ٹھیکہ پر دیتے ہیں ،کیا یہ شرعاً اس طرح  کاروبار  درست ہے،اس میں کوئی خرابی تو نہیں ہے،واضح رہے کہ اس جگہ کا اصل مالک کوئی اور ہے،اس کو الگ ماہانہ کرایہ دینا پڑتا ہے،لیکن ہم صرف چالو کاروبار دینے کا ماہانہ دو لاکھ روپے لیتے ہیں،جبکہ باقی کرایہ اور بل  وغیرہ ان پر الگ ہے

جواب 

کسی دکان کی اچھی شہرت، یا چلت ایک ایسی چیز ہے،جس کا  نہ خارج  میں کوئی وجود ہے،اور نہ ہی اس پر  شرعاً مال کی تعریف صادق آتی ہے،بلکہ یہ محض ایک حق ہے،جس کو فقہی اصطلاح میں حق مجرد کہا جاتا ہےاور حقوق مجردہ کی کا بیچنا یا اس کے معاوضے میں کوئی رقم وغیرہ لینا شرعاً جائز نہیں ہے،چنانچہ صورتِ مسئولہ میں  کسی ہوٹل کو کامیاب کر کے صرف اس کی شہرت یا چلت کو بیچنا یا ٹھیکہ پر دینا شرعاً جائز نہیں ۔

البتہ مذکورہ صورت میں اگر کرایہ دار  نے ہوٹل کو  کامیاب بنانے میں علیحدہ سے کوئی خرچہ کیا ہو،مثلاً ہوٹل کی آرائش اور اس میں خوبصورتی کے لیے اس میں شیشے ،بلب ،الماری  وغیرہ لگائے ہوں ،یا ہوٹل کے ضروری سامان مثلاً : ٹیبل ،کرسی ،اور برتن وغیرہ اس میں رکھ دئیے ہوں،تو اس صورت میں اگر کرایہ دار کسی دوسرے شخص کو تنہا چالو کاروبار کرایہ پر دینے کی بجائے ہوٹل کا  مذکورہ  سامان کرایہ پر دے دیں،اور چالو کاروبار کی وجہ سے اس سامان کے کرایہ میں تھوڑا سا اضافہ  کرلیں،تو اس کی شرعا ً گنجائش ہے۔

لما في الدر مع الرد:

(وفي الأشباه لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة) (قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها. أقول: وكذا لا تضمن بالإتلاف قال: في شرح الزيادات للسرخسي وإتلاف مجرد الحق لا يوجب الضمان؛ لأن الاعتياض عن مجرد الحق باطل.(كتاب البيوع،مطلب: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة،731،رشيدية) فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 172/189