کاروبار کے لیے ملنے والے حکومتی اجازت نامے کو فروخت کرنا

Darul Ifta mix

کاروبار کے لیے ملنے والے حکومتی اجازت نامے کو فروخت کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ

۱۔  ہمارے یہاں  پٹرول ،ڈیزل کا کاروبار بڑے زور پر ہے ،کام کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ گورنمنٹ کی طرف سے ایک پرچی ملتی ہے ، پرچی ا س بندے کو ملتی ہے،جس کے پاس گاڑی ہو اور وہ اس کی رجسٹری کراچکا ہو،گاڑی رجسٹری کرائے بغیر کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی،رجسٹری کرانے پر پرچی ملتی ہے جو کاروبار  کا اجازت نامہ ہوتی ہے،بعض لوگ یہ پرچی دوسروں کو فروخت کرتے ہیں،کیا اس پرچی کو فروخت کرنا جائز ہے؟

۲۔  اگر  پرچی والا پرچی کے ساتھ معمولی چیز دے دے  اس رقم کے عوض جو دوسرا شخص اس پرچی والے کو دیتا ہے،تو کیا یہ صورت جائز ہوگی ؟ شریعت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں ۔

جواب

۱۔ صورت مسئولہ میں گورنمنٹ کی طرف سے جس شخص کے شناختی کارڈ پر پرچی جاری کی جاتی ہے،صرف اس بندہ کو پیٹرول اور ڈیزل کے کاروبار کی اجازت ہوتی ہے،اس کے علاوہ کسی کو اجازت نہیں ہوتی، لہٰذا اس پرچی کا بیچنا جائز نہیں۔

۲۔ صورت مسئولہ میں یہ حیلہ بھی درست نہیں۔

لما في الدر مع الرد:

وفي الأشباه:لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة. قوله:(لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة على الملك)قال في البدائع:الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها أقول:وكذا لا تضمن بالاتلاف قال في شرح الزيادات للسرخسي: وإتلاف مجرد الحق لا يوجب الضمان لأن الاعتياض عن مجرد الحق باطل.(کتاب البیوع،مطلب:لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة،7/31، ط:رشیدیة).

وفي الأشباه:

الحقوق المجردة لا يجوز الاعتياض عنها كحق الشفعة وعلی هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف في الأوقاف.

(الفن الثاني،کتاب البیوع،5/2،ط:قدیمي کتب خانه).

وفي البدائع:

والحاصل أنه ينظر إلى ما يقابل الزيادة من حيث الوزن من خلاف الجنس إن بلغت قيمته قيمة الزيادة أو كانت أقل منها مما يتغابن الناس فيه عادة جاز البيع من غير كراهة وإن كانت شيئا قليل القيمة كفلس وجوزة ونحو ذلك يجوز مع الكراهة وإن كان شيئا لا قيمة له أصلا ككـــف من تــراب ونحـوه لا يجوز البيع أصلا لأن الزيادة لا يقابلها عوض فيتحقق الربا.(کتاب البیوع،7/80،ط:رشیدیه).

وفي تکملة فتح الملهم:

وأن المسلم یجب عليه أن یطیع أمیره في الأمور المباحة:فإذا أمر الأمیر بفعل مباح،وجبت مباشرته،وإن نهى عن أمر مباح،حرم ارتکابه….ومن هنا صرح الفقهاء بأن طاعة الإمام فیما لیس بمعصية واجبة،قال ابن عابدین في باب الاستسقاء من رد المحتار1/792:إذا امر الإمام بالصیام في غیر الأیام المنهية وجب لما قدمنا في باب العیدین من أن طاعة الإمام فیما لیس بمعصية واجبة.

(کتاب الإمارة،باب وجوب طاعة الأمر،3/323،324،ط:دارالعلوم کراتشي).

وفي فیض الباري شرح صحیح البخاري:

فالوجه فيه أنهم صرحوا أن المباح في نفسه قد يصير حراما من حكم الأمير من جهة أن الله أمر بطاعتهم، فقال: {أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولى الامر منكم} فحينئذ لو رأى الأمير أن يمنع الناس عن أكل شيء لمصلحة بدت له، يجب عليهم أن لا يأكلوه، ويحرم عليهم. إلا أن تلك الحرمة تقتصر على مدة إمارته فقط، ولا يتجاوزها.

(کتاب الأذان،2/587،ط:دارالضیاء). فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر:171/160,161