پرندوں کا کاروبار کرنے کا حکم

پرندوں کاکاروبار کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ایک کام یعنی کاروبار شروع کیا ہے ،یہ کاروبار پرندوں کا ہے،یہ پرندے مختلف ممالک کے ہیں ،یہاں پاکستان میں نہیں پائے جاتے، ان پرندوں کو باہر سے لایا جاتا ہے، اس لیے ان پرندوں کو پنجروں میں بند رکھتے ہیں، یہ پرندے پنجرے میں ہی انڈے دیتے ہیں اور اپنی تعداد بڑھاتے ہیں، اگر ان کو آزاد کیا جائے ،کسی نہ کسی کے ہاتھ میں آجاتے ہیں، وہ پھر ان کو قید کر لیتے ہیں،بعض پرندوں کو کوّ ا،یا کوئی اور جانور کھا جاتا ہے،ان پرندوں کا کاروبار ہوتاہے،ان کی خرید وفروخت ہوتی ہے ، میں بھی یہ کاروبار کرنا چاہتا ہوں، کیا ان کا کاروبار جائز ہے؟۔

جواب

سوال میں مذکورہ صورت کے مطابق پرندوں کا کاروبار کرنا درست ہے۔

''لکن في الخانیۃ: بیع الکلب المعلم عندنا جائز وکذا السنور، وسباع الوحش والطیر جائز معلّما أو غیر معلّم۔۔۔ونقل السائحاني عن الھندیۃ: ویجوز بیع سائر الحیوانات سوی الخنزیر وھو المختار وعلیہ مشی في الھدایۃ وغیرھا''.(رد المحتار،کتاب البیوع،باب البیع الفاسد، مطلب في بیع دودۃ القرمز:٥/٦٨، ٦٩، سعید)

''(ولا بیع الطیرفي الہوائ)؛ لأنہ غیر مملوک قبل الأخذ،وکذا لو أرسلہ من یدہ؛لأنہ غیر مقدور التسلیم،الہدایۃ. قال العلامۃ الزیلعي: وہذا إذا کان یطیر ولا یرجع، وإن کان لہ وکر عندہ منہ في الہواء ثم یعود إلیہ جاز بیعہ؛ لأنہ یمکن أخذہ من غیر حیلۃ''.(تبین الحقائق، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد: ٤/٣٦٥، دار الکتب العلمیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی