پارک کی جگہ پر قبضہ کرکے گھر یا مدرسہ بنانا

Darul Ifta mix

پارک کی جگہ پر قبضہ کرکے گھر یا مدرسہ بنانا

سوال

:  کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ میر ا گھر ایک باؤنڈری وال سوسائٹی  میں ہے ،سوسائٹی کے نقشے کے مطابق پارک کی جگہ الگ ہےاور مسجد کی جگہ الگ ہے،پارک اور مسجد ساتھ ساتھ ہیں ،لیکن سوسائٹی  کے کچھ لوگوں نے پارک کی جگہ  گھر بنا لیا ہے اور اس میں امام مسجد کو رہائش دے دی ہے،ہم نے اس جگہ گھر اس لیے لیا  تھا کہ یہاں ہوا کا گذر بہت ہے ،جوکہ میری نحیف والدہ کے لیے بہت ضروری ہے،اس تعمیر سے میری والدہ کو بہت شدید تکلیف ہے،سوسائٹی کے لوگوں کو بھی اعتراض ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا پارک کی جگہ پر قبضہ کرکے گھر بنانا اور امام کو رہائش دینا شرعی اعتبار سے درست ہے یا نہیں؟

اور پارک کی جگہ قبضہ کرکے مدرسہ بنانا کیسا ہے؟قرآن و سنت کی  روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں  پارک کی زمین  پر قبضہ کرکے  تعمیرات کرنا، شرعی اعتبار سے درست نہیں ،کیونکہ سوسائٹی کے نقشے میں یہ جگہ  پارک کے لیے متعین کی گئی ہے،لہذا پارک کی یہ زمین مشترکہ ہے اور ہر شخص اس سے انتفاع  حاصل کرسکتا ہے۔

اس کی متبادل صورت بھی ممکن ہے کہ سوسائٹی کے افرا داور مسجد کے ذمہ داران امام صاحب کی رہائش کے لیے کوئی متبادل جگہ دیکھ لیں ،جس سے امام کی رہائش کا مسئلہ بھی حل ہوجائے اور کسی کو تکلیف بھی نہ ہو ،اس لئے کہ فائدہ حاصل کرنے سے بہتر ہے تکلیف سے بچا جائے۔

اسی طرح پارک کی زمین پر سوسائٹی کے ممبران کی اجازت کے بغیر قبضہ کرکے مدرسہ بنانا بھی درست نہیں،کیونکہ اس جگہ کو نقشے کے مطابق پارک کے لیے مختص کیا گیا ہے،لہذا بہتر یہی ہے کہ ایسی تعمیرات سے بچا جائے۔

وفي التنويرمع الدر:

 (فإذا تم ولزم لايملك ولا يعار ولا يرهن . اهـ

قال العلامة ابن عابدين ـ رحمه الله ـ

قوله ( لا يملك ) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه ولا يعار ولا يرهن لاقتضائهما الملك. (كتاب الوقف،6540،ط: رشيديه)

وفي البحرالرائق:

وبهذا علم أن قولهم شرط الواقف كنص الشارع ليس على عمومه قال العلامة قاسم في فتاواه أجمعت الأمة أن من شروط الواقفين ما هو صحيح معتبر يعمل به.(كتاب الوقف،5411،ط:رشيدية)۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر:170/42