ٹھیکہ پر دی گئی زمین میں عشر کس پر ہوگا؟

ٹھیکہ پر دی گئی زمین میں عشر کس پر ہوگا؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ زید  اپنی زمین بکر کو ٹھیکہ پر دیتا ہے اور بکر اس زمین میں کاشت کرتا ہے ، اب زمین سے جو پیداوار حاصل ہوگی توا س کا عشر کس پر لازم ہوگا ؟ زید پر جو مالک زمین ہے، یا بکر پر جنہوں نے زمین ٹھیکہ پرلی ہے ؟ اور اگر عشر ٹھیکہ دار پر لازم ہے، تومالک زمین پرکیا لازم ہے ؟ برائے کرم شرعی نصوص کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔جزاکم اللہ خیرا

جواب

واضح رہے کہ حضرات فقہائے کرام نے ٹھیکہ پر دی گئی زمین میں عشر کے واجب ہونے میں تفصیل بیان فرمائی ہے کہ اگر مالک زمین اجرت بہت زیادہ لیتا ہے اور ٹھیکہ دار کے پاس بہت کم بچتا ہے توعشر  مالک زمین پر لازم ہے اور اگر مالک زمین اجرت کم لیتا ہے اور ٹھیکہ دار  کو بچت زیادہ ہوتی ہے تو عشر ٹھیکہ دار پر لازم ہے، اس زمانے میں عموما اجرت کم لی جاتی ہے اور ٹھیکہ دار کو آمدنی زیادہ ہوتی ہے ،اس لیے عشر ٹھیکہ دار پر لازم ہے ۔

باقی جہاں تک مالک زمین کا تعلق ہے تو ان پر عشر لازم نہیں ہے ، البتہ مالک زمین کو جو رقم ٹھیکہ میں حاصل ہوئی ہے تو اس میں زکاۃ واجب ہوسکتی ہے ،جس کی تفصیل یہ ہے کہ مالک زمین اگر پہلے سے نصاب کا مالک نہیں تھا اور اس رقم کی وجہ سے وہ نصاب کا مالک ہوا ہے تو اب  قمری سال کے گزرنے کے بعد اس رقم پر زکوٰۃ واجب ہوگی،اور اگر وہ پہلے سے نصاب کا مالک تھا تو نصاب پر جب  سال گزرے گا تو اس رقم کو بھی نصاب میں شامل کرکے اس کی بھی زکاۃ ادا کی جائے گی ۔

لما فی المبسوط  للسرخی :

(قال ) : رجل استاجر ارضا من ارض العشر وزرعہا، قال : عشر ما خرج منہا علی رب الارض بالغا ما بلغ ، سواء کان اقل من الاجر،اواکثر فی قول ابی حنیفۃ رحمہ اللہ وقال ابو یوسف ومحمد رحمہمااللہ : العشر فی الخارج علی المستاجر ۔ وجہ قولھما : ان الواجب جزء من الخارج  والخارج کلہ للمستاجر  فکان العشر علیہ کا لخارج  فی ید المستعیر للارض وابو حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی یقول : وجوب العشر باعتبار منفعۃ الارض ، والمنفعۃ سلمت للٓا جر ، لانہ استحق بدل المنفعۃ،وھی الاجرۃ ، وحکم البدل حکم الاصل ۔ اما المستاجر،فانما سلمت لہ المنفعۃ بعوض ، فلا عشر علیہ کالمشتری للزرع ، ثم العشر مؤنۃ الارض النامیہ کالخراج ، وخراج  ارض المواجر علی المواجر  فکذالک العشر علیہ ۔ (باب عشر الارضین :3/5،دار الفکر بیروت )

وفی الدر :

والعشر علی المؤجر  کخراج موظف ، وقالا :علی المستاجر کمستعیر مسلم ، وفی الحاوی :وبقول لھما ناخذ.

(قولہ  : وبقولہما ناخذ) قلت :لکن افتی  بقول الامام جماعۃ من المتاخرین کالخیر الرملی فی فتاواہ ،وکذا تلمیذ الشارح الشیخ اسماعیل الحائک مفتی دمشق ... قلت : لکن فی زماننا عامۃ الاوقاف من القری والمزرع لرضا المستاجر بتحمل غراماتھا ومؤنھا یستاجرھا بدون اجر المثل بحیث لاتفی الاجرۃ ولا اضعافہا بالعشراوخراج المقاسمہ ، فلا ینبغی العدول عن الافتاء بقولھما فی ذالک لانھم فی زماننا یقدرون اجرۃ المثل بناء علی ان الاجرۃ سالمۃ لجھۃ الوقف،ولا شیئ علیہ من عشروغیرہ۔ اما لو اعتبر دفع العشر من جھۃ الوقف وان المستاجر لیس علیہ سوی الاجرۃ  فان اجرۃ المثل تزید اضعافا کثیرۃ کما لا یخفیٰ ، فان امکن اخذ الاجرۃ کاملۃ یفتی بقول الامام والا فبقولھما ، لما یلزم علیہ من الضرر الواضح الذی لایقول بہ احد ، واللہ تعالیٰ اعلم ، (کتاب الزکاۃ ، باب العشر :2/334 ،سعید ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر :170/278