وکیل بالشراء کا مبیع سے منفعت لینے کا حکم

وکیل بالشراء کا مبیع سے منفعت لینے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کسی دوسرے شخص سے یہ کہتا ہے کہ میں تمہیں یہ مال خرید کر دیتا ہوں اور جتنے کا یہ مال ہو گا اُس پر پانچ ہزار روپے منافع لوں گا، آیا یہ صورت بیع کی جائز ہے یا کہ نہیں؟ تسلی بخش جواب سے نوازیں۔

جواب

مذکورہ صورت میں اگر دو بیع ہوتی ہیں کہ ایک مشتری بائع سے خریدتا ہے اور خریدنے کے بعد مشتری اوّل بائع بن جاتا ہے اور مشتری ثانی پر بیچتا ہے تو یہ صورت بیع کی درست ہے او راس صورت میں بائع کو اجازت ہے کہ جتنا بھی منافع لے،اور اگر بصورت دیگر مذکورہ شخص خود مال خریدنے کے لیے نہیں جاتا بلکہ دوسرے شخص کو رقم دے دیتا ہے کہ یہ رقم لے جاؤ اور اس سے خود مال خرید لینا اور مجھے اس پر مبلغ پانچ ہزار روپے منافع دے دینا تو یہ سود ہے اور ناجائز ہے اور اگر رقم قرض دیتا ہے اور قرض میں دی ہوئی رقم سے زیادہ وصول نہیں کرتا تو یہ صورت جائز ہے۔

''(المرابحۃ)۔۔۔(بیع ماملکہ)من العروض۔۔۔(بما قام علیہ وبفضل)مؤنۃ وإن لم تکن من جنسہ کأجر قصار ونحوہ، ثم باعہ مرابحۃ علی تلک القیمۃ جاز، مبسوط.(قولہ: ثم باعہ مرابحۃ)أی بزیادۃ ربح علی تلک القیمۃ التي قوم بھا الموھوب ونحوہ مع ضم المؤنۃ إلیھا؛ لأن کلامہ في ذلک''.(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ: ٥/١٣٢-١٣٤، سعید)

''لقولہ علیہ السلام: (کل قرض جر منفعۃ) إلی المقرض (فہو ربا) أي في حکم الربا، فیکون عقد القرض باطلا، فإذا شرط في عقدہ ما یجلب نفعاً إلی المقرض من نحو زیادۃ قدر أو صفۃ، بطل''.(فیض القدیر: ٩/٤٤٨٧، مکتبۃ نزار مصطفی الباز)

''کل قرض جر نفعا حرام:أي إذا کان مشروطا''.(رد المحتار، کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ، فصل في القرض:٥/١٦٦، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی