وکیل بالشراء کا بغیر بتائے کمیشن لینے کا حکم

وکیل بالشراء کا بغیر بتائے کمیشن لینے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ میں گاڑی کا کام کرتا ہوں، کبھی کبھی میرے پاس ریت کا گاہک آجاتا ہے، تو میں اس کو ریتی والے کے پاس لے جاتا ہوں ، تو ریتی والے سے میں ریت اس کے لیے لے لیتا ہوں مثلاً٩٠٠ روپے کا اور گاہک کو کہتا ہوں کہ ١٠٠٠روپے ہیں، جب کہ گاہک کو یہ معلوم نہیں کہ اس نے ٩٠٠کا خریدا ہے اور اب ہم کو ہزار روپے بتاتا ہے، لیکن فروخت کرنے والے کو اور مجھ کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایک سو روپے منافع میں اپنے لیے رکھتا ہوں اور دلال کا بھی یہ حساب ہے کہ وہ بھی اسی طرح کرتا ہے جیسا کہ میں کرتا ہوں ، لیکن میرے پاس تو کبھی اچانک کوئی آجاتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ میرے لیے ریت خرید لو، جب کہ دلال کا تو یہی کام ہے، اب سوال یہ ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے یا ناجائز ہے؟ وضاحت فرمائیں۔

جواب

بیان کردہ صورت میں آپ کا گاہک کو بتائے بغیر کسی قسم کا منافع حاصل کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر پہلے سے گاہک کو بتا دیا جائے کہ میں ریتی خرید کر دینے کی صورت میں اتنا کمیشن لوں گا، تو درست ہے۔

''وشرطھا کون الأجرۃ والمنفعۃ معلومتین؛ لأن جھالتھما تفضي إلی المنازعۃ''. (الدر المختار، کتاب الاجارۃ: ٦/٥، سعید)

''ومنھا (أي من شروط صحۃ العقد) أن تکون الأجرۃ معلومۃ''. (الفتاویٰ العالمکیریۃ، کتاب الإجارۃ، الباب الأول: ٤/٤١١، رشیدیۃ)

''وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل،وما تواضعوا علیہ أن في کل عشرۃ دنانیر کذا،فذلک حرام علیہم. وفي الحاوي:سئل محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار، فقال: أرجو أنہ لا بأس بہ وإن کان في الأصل فاسدا لکثرۃ التعامل، وکثیر من ہذا غیر جائز، فجوزوہ لحاجۃ الناس إلیہ''.(رد المحتار، کتاب الإجارۃ، مطلب في أجرۃ الدلال: ٦/٦٣، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی