وکیل بالشراءکاکسی چیز کو مؤکل کے لیے خرید کر پھر اس کو اپنے لیے خریدنا

Darul Ifta mix

وکیل بالشراء کا کسی چیز کو مؤکل کے لیےخرید کر پھراس کواپنے لیے خریدنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ زید کو گاڑی کی ضرورت ہے، تو بکر زید سے کہتا ہے کہ یہ لو گاڑی  کی قیمت  تم میرے لیے مثلاً : پانچ لاکھ روپے کی خریدو ،پھر چھ لاکھ روپے کی مجھ  سے اپنے لیے خرید لو ،کیا یہ جائز ہے؟ واضح رہے کہ بکر قطر میں ہے اور زید پاکستان میں معاملہ سارے کا سارا زید ہی کرے گا ، شریعت کی روشنی میں مکمل رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں زیدکابکرکی جانب  سےوکیل بالشراءبن کربکرکیلئےگاڑی خریدنامتعینہ قیمت(پانچ لاکھ روپے)پر،پھرخریدکرقبضہ کرنےکےبعدزیدکااس گاڑی کومتعینہ قیمت (چھ لاکھ روپے)پر اپنے لیے  خریدناجائز ہے،بشرطیکہ پہلے عقد میں خریداری کی شرط نہ لگائی  گئی  ہو،اور زید کواس پر مجبور نہ کیاجاتاہو۔

لمافي "البحرالرائق":

"الوكيل بالبيع لايملك شرائه لنفسه لأن الواحد لا يكون مشتريا وبائعا فيبيعه من غيره ثم يشتريه منه وإن أمره الموكل أن ببيعه من نفسه أو أولاده الصغار أو ممن لا تقبل شهادته فباع منهم جاز."(كتاب الوكالة؛باب الوكالة بالبيع والشراء،7/282،ط:رشيدية)

وفي التاتارخانية:

اذا دفع الى رجل دراهم وقال اشتر لي بهذا وبع ولم يقل لي كان توكيلا جائزا.(كتاب الوكالة،12/321،ط:فاروقية)

وفي الرد:

فشرائط العقد اثنان:العقل والعددفلاينعقدبيع مجنون وصبي لايعقل ولا وكيل من الجانبين.(كتاب البيوع،مطلب: شرائط البيع،7/13،رشيدية)

۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 173/152