واقف کا مسجد بناتے وقت مسجدمیں اسکول بنانے کی نیت کرنے کا حکم

Darul Ifta mix

واقف کا مسجد بناتے وقت مسجدمیں اسکول بنانے کی نیت کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ سوات میں واقع ایک دارالافتاء میں ایک مہتمم صاحب آئے  اور فتوی طلب کیا ،کہ مسجد میں اسکول بنانا  جائز ہے، یا نہیں ؟ دارالافتاء کی طرف سے جواب ملا  کہ جائز نہیں  ہے،انہوں نے دوبارہ استفسار کیا،کہ میں نے جب مسجد کو وقف کیا تو میری نیت یہ تھی کہ  اس میں مستقل سکول ہوگا،اور دارالعلوم کراچی کے ایک فتوی ٰ سے جواز معلوم ہوتا ہے،جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مسجد میں ابتدائی طور پر مسجد کے حدود میں ہسپتال لائیبریری بنانا جائز ہے،دارالافتاء  کی طرف سے دوبارہ جواب ملا کہ اسکول کی نیت مسجد  کی تعمیر کے وقت درست نہیں تھی ،لیکن پھر بھی وہ مطمئن نہیں ہوا،اور مطالبہ کیا کہ بڑے دارالافتاؤں سے مجھے جواب چاہیے ، لہذا آپ حضرات مہربانی فرماکر جواب ارسال فرمادیں۔ شکریہ

جواب

شرعی نقطہ نظرسےواقف اگراپنی زمین مسجد کےلیےوقف کردےاوراس میں کوئی شرط لگادے،تواس کی شرط کااعتبار اس وقت جائزہوتاہے جب وہ شریعت کےمخالف نہ ہو،اورنہ مقتضائےوقف اوراس کی مصلحت کےخلاف ہو۔

         لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ مہتمم صاحب کامسجدمیں سکول بنانےکی شرط لگانادرست نہیں ،اس وجہ سےمسجد میں سکول بنانا شرعاً جائزنہیں ۔

لمافي "حاشية ابن عابدين":

"فإن شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع". (كتاب الوقف،مطلب: شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع،6/526،ط:رشيدية)

وفي "الفتاوى التاتارخانية":

"إذاجعل أرضاله مسجداوشرط من ذلك لنفسه شيئا لايصح بالإجماع،وفي وقف الخصاف: إذا جعل  أرضه مسجدا وبناه وأشهد أن له إبطاله وبيعه فهو شرط باطل".(كتاب الوقف ،الفصل الحادى والعشرون في المساجد،8/163،ط:فاروقية)

وفي "المحيط البرهاني":

"إذا جعل أرضاله مسجدا وشرط من ذلك شيئا لنفسه لايصح بالإجماع".(كتاب الوقف،الفصل الحادى والعشرون في المساجد ،9/127،ط:المجلس العلمي)

وفي "البحرالرائق":

"وإنما الكلام الآن في شروط الواقفين فقد أفادوا هنا: أنه ليس كل شرط يجب اتباعه فقالوا هنا :إن اشتراطه أن لا يعزله القاضي شرط باطل مخالف للشرع، وبـهذا علم أن قولهم "شرط الواقف كنص الشارع" ليس على عمومه، قال العلامة قاسم في فتاواه :أجمعت الأمة أن من شروط الواقفين ما هو صحيح معتبر يعمل به ومنها ما ليس كذلك، ونص أبو عبد الله الدمشقي في كتاب الوقف عن شيخه شيخ الإسلام قول الفقهاء: نصوصه كنص الشارع يعني في الفهم والدلالة لا في وجوب العمل"(كتاب الوقف،5/411،ط:رشيدية)

وفي "البحرالرائق" مع حاشية منحة الخالق":

  "قالوا إذا شرط الواقف أن لا يكون للقاضي أو السلطان كلام في الوقف أنه شرط باطل وللقاضي الكلام لأن نظره أعلى، وهذا شرط فيه تفويت المصلحة للموقوف عليهم وتعطيل للوقف فيكون شرطا لا فائدة فيه للوقف ولا مصلحة فلا يقبل".وقال العلامة ابن عابدين تحت قوله:( وهذا شرط إلى قوله فلايقبل) قال الرملي: هذا صريح في أن كل شرط كذلك لا يقبل ونرى كثيرا من هذا في شروط الواقفين فيحكم بعدم قبوله".(كتاب الوقف،5/375،374،ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 174/03