چلتے کاروبار میں شرکت کا حکم، منافع کی تقسیم کا طریقہ

Darul Ifta mix

چلتے کاروبار میں شرکت کا حکم، منافع کی تقسیم کا طریقہ

سوال

حضرات مفتیان کرام ایک مسئلہ کے بارے میں آپ حضرات سے رہنمائی مطلوب ہے ، میں نے ایک کاروبار میں اپنے ڈھائی لاکھ روپے لگائے ہیں، اور اس کاروبار میں ساڈھے سات لاکھ دوسرے فریق کے ہیں ، کل ملا کر دس لاکھ روپے کاروبار میں ہیں جس میں سے میرے ڈھائی لاکھ ہیں ، میری طرف سے اس کاروبار میں اس ڈھائی لاکھ کے علاو کوئی محنت نہیں ہے ، البتہ دوسرا فریق کاروبار کے تمام اخراجات ، انتظامات اور ہر قسم کی محنت برداشت کرتا ہے ، سارا عمل دوسرے فریق ہی کی طرف سے ہے ،

۱۔ برائے مہربانی مجھے یہ بتائیں کہ اس میں میرا شرعی اعتبار سے کتنے فیصد نفع ہونا چاہیے ؟

۲۔ کیا یہ نفع ہر سال مجھے لینا چاہیے یا ہر ماہ؟

۳۔ اس میں میرے نفع کی زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم فیصد شرعی اعتبار سے کیا ہونی چاہیے ؟

جواب 

۱،۳۔صورت مسئولہ میں مذکورہ معاملہ شرکت کا ہے،اور شرکت  کے جواز کا حیلہ یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو اس طور پر چلتے کاروبار میں شریک کرسکتا ہے کہ ایک شریک اپنے سامان کا کچھ فیصدی حصہ دوسرے شریک پر بیچ دے،پھر جب دوسرا شریک پہلے والے شریک کے ساتھ شریک ہوجائے،اس کے بعد  یہ دونوں شریک آپس کی رضامندی سے نفع ونقصان کا تناسب فیصدی اعتبار سے طے کرلیں،تو یہ شرکت درست ہوگی،اور نفع طے شدہ ہوگا،نقصان بقدر سرمایہ ہوگا۔

۲۔نفع کی تقسیم سال،اورماہ کے ساتھ خاص نہیں،بلکہ جب بھی نفع حاصل ہوجائے،خواہ وہ نفع دن،ہفتہ،ماہ،اور سال میں جتنی بار حاصل ہوجائے،تو اس کو معاہدے کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔

وفي التنوير مع الدر:

"(و)لذا(تصح)عاماوخاصاومطلقاومؤقتاو(مع التفاضل في المال دون الربح وعكسه، وببعض المال دون بعض…..وتحته:قوله(ومع التفاضل في المال دون الربح)أي:بأن يكون لأحدهما ألف وللآخر ألفان مثلاواشترطاالتساوي في الربح،وقوله:عكسه أي:بأن يتساوى المالان ويتفاضلافي الربح،لكن هذامقيدبأن يشترط الأكثرللعامل منهماأو لأكثرهما عملا،أما لوشرطاه للقاعدأولأقلهما عملا،فلا يجوز كما في البحر عن الزيلعي والكمال.قلت:والظاهر أن هذا محمول على ما إذا كان العمل مشروطاعلى أحدهما،وفي النهر:اعلم أنهما إذا شرطا العمل عليهما إن تساويامالاوتفاوتاربحاجازعندعلمائناالثلاثة خلافا لزفر…..قلت :وحاصل ذلك كله:أنه إذا تفاضلا في الربح،فإن شرطا العمل عليهما سوية جاز:ولو تبرع أحدهما بالعمل وكذا لو شرطا العمل على أحدهما وكان الربح للعامل بقدررأس ماله أو أكثر ولو كان الأكثر لغير العامل أو لأقلهما عملا لا يصح،وله ربح ماله فقط،وهذا إذا كان العمل مشروطا كما يفيده”.(كتاب الشركة،مطلب:في توقيت الشركة روايتان،6/478ـ479،ط:رشيدية)

وفي البحرالرائق:

                "قوله:(وتصح مع التساوي في المال دون الربح وعكسه) وهوالتفاضل في المال والتساوي في الربح…..وقيده في التبيين وفتح القدير بأن يشترطا الأكثر للعامل منهما أو لأكثرهما عملا،أما إن شرطاه للقاعدأو لأقلهما عملا فلا يجوز….. فإن عمل أحدهما دون الآخر فالربح بينهما على ما شرطا،وإن شرطا العمل على أحدهما ينظر؛إن شرطا العمل على أكثرهماربحاجاز،وإن شرطاه على أقلهما ربحا خاصة لا يجوز والربح بينهما على قدر رأس مالهما”.(كتاب الشركة،5/291ـ293،ط:رشيدية)

وفي بدائع الصنائع:

"وأما شركة العنان..... إذا عرف هذا فنقول:إذا شرطا الربح على قدر المالين؛متساويا أو متفاضلا،فلاشك أنه يجوزويكون الربح بينهماعلى الشرط،سواءشرطاالعمل عليهماأو على أحدهما،والوضيعة على قدر المالين متساويا ومتفاضلا؛لأن الوضيعة اسم لجزء هالك من المال فيتقدر بقدر المال،وإن كان المالان متساويين فشرطالأحدهمافضلاعلى ربح،ينظر:إن شرطا العمل عليهما جميعا،جازوالربح بينهما على الشرط في قول أصحابنا الثلاثة،وعند زفر:لايجوزأن يشترط لأحدهما أكثر من ربح ماله..... وإن شرطا العمل على أحدهما؛فإن شرطاه على الذي شرطا له فضل الربح،جاز والربح بينهما على الشرط،فيستحق ربح رأس ماله بماله والفضل بعمله؛وإن شرطاه على أقلهما ربحا لم يجز،لأن الذي شرطا له الزيادة ليس له في الزيادة مال ولا عمل ولا ضمان".(كتاب الشركة،7/513،514،ط:رشيدية). فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 174/218،219