نقدی اور ڈھائی تولہ سونا پر زکوٰۃ کا حکم

Darul Ifta

نقدی اور ڈھائی تولہ سونا پر زکوٰۃ کا حکم

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک عورت کے پاس ایک ہزار کا غذی نوٹ اور ڈھائی تولہ سونا زیورات موجود ہیں، کیا اس میں زکوٰۃ فرض ہو گی یا نہیں؟ کیوں کہ کاغذی روپیہ پر زکوٰۃ کا ثبوت نہیں اور سونا بھی نصاب سے کم ہے۔

جواب

صورت مسؤلہ میں سونے کے وزن کی قیمت لگا کر اس میں نقدی جمع کریں اور کل رقم کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ دیں، کیوں کہ مجموعہ نصاب سے زائد ہے، کاغذی نوٹ ثمن عرفی ہےاور ثمن خلقی(سونا چاندی) کی طرح اس میں بھی زکوٰۃ واجب ہے اور سونا تنہا تو نصاب سے کم ہے، لیکن جب دوسری قابلِ زکوٰۃ چیزیں (قابل زکوٰۃ چیزیں چار ہیں:سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت) موجود ہوں تو تمام کا مجموعہ لگا کر دیکھا جاتا ہے کہ سونا اور چاندی میں سے جو بھی سستا ہو، اس کے نصاب کے برابر ہے یا نہیں، چاندی چونکہ ہمیشہ سے سستی رہی ہے اس لیے اگر چاروں اشیاء کا مجموعہ چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے بقدر ہو تو زکوٰۃ فرض ہو جائے گی۔
الأوراق المالیۃ الیوم عملۃ قابلۃ لدفع قیمتھا عینا لدی الأطلاع لعاملھا، والناس یتعاملون بھا کما یتعاملون بالذھب والفضۃ فیجري فیھا ما یجري في الذھب والفضۃ،فمن ملک ثمن سبعۃ وثمانین غراماً ذھبا من أي أوراق مالیۃ تابعۃ لأي دولۃ من الدول، ملکا تاما فاضلا عن حاجتہ الأصلیۃ وعن دین لہ مطالب من جھۃ العباد وحال علیھا الحول،وجب علیہ إخراج زکاتھا ربع العشر.(الفقہ الحنفي وأدلتہ،کتاب الزکاۃ، زکاۃ الأوراق المالیۃ: ١/٣٣٢، إدارۃ القرآن)
إن ھذہ الأوراق یطلق علیھا کلمۃ''النقود''والأثمان، والعملۃ في کل من العرف والقانون في جمیع البلاد والأقطار، في حین أن ھذہ الکلمات لا تطلق علی شيء من الوثاق الأخری۔۔۔۔۔۔ تجب الزکاۃ علی الأوراق النقدیۃ بالإجماع، ولیس علی قول من یقول بوجوب الزکاۃ علی الدین فقط؛ لأنھا لیست مسندات دین، وإنما ھي في حکم الفلوس النافقۃ، والفلوس النافقۃ في حق الزکاۃ کعروض التجارۃ،تجب علیھا الزکاۃ إذا بلغت قیمتھا نصاب الفضۃ.''(بحوث في قضایا فقھیۃ معاصرۃ، أحکام الأوراق النقدیۃ: ١/١٥٧،١٥٩، مکتبہ دارالعلوم،کراتشي)
''وفي الشر نبلالیۃ: الفلوس إن کانت أثمانا رائجۃ أو سلعا للتجارۃ، تجب الزکاۃ في قیمتھا، وإلا فلا ١ھ'' (الدر المختار، باب زکاۃ المال: ٢/٣٠٠، سعید)
قولہ: وتضم قیمۃ العروض إلی الثمنین والذہب إلی الفضۃ قیمۃ۔۔۔۔۔۔ وضم إحدی النقدین إلی الآخر قیمۃ مذہب الإمام وعندہما الضم بالأجزاء، وہو روایۃ عنہ حتی أن من کان لہ مائۃ درہم وخمسۃ مثاقیل ذہب تبلغ قیمتہا مائۃ درہم فعلیہ الزکاۃ عندہ خلافا لہما. (البحرالرائق، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال: ٢/٤٠٠، ٤٠١، رشیدیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer