نشے کی حالت میں دی جانے والی تین طلاقوں کا حکم

Darul Ifta mix

نشے کی حالت میں دی جانے والی تین طلاقوں کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ میرے شوہر نے 6  مہینے پہلے دو دفعہ یہ الفاظ بولے تھے کہ جا میں نے تجھے طلاق دی ، میں تجھے آزاد کرتا ہوں ، لیکن میں بچوں کی خاطر رہتی رہی ، اور یہ بات میں اپنی ساس اور جیٹھانی کو بتائی ، لیکن انہوں نے میری بات کا  یقین ہی نہیں کیا ، پھر ایک دن نشے کی حالت میں رات 12بجے کے وقت پہلے اس نے مجھے مارا جبکہ میں حاملہ تھی ، اور پھر وہی الفاظ بولے کہ  ”جا میں نے تجھے آزاد  کیا  ، اور طلاق دی  تواپنی زندگی میں خوش میں اپنی زندگی میں خوش “اور یہ کہہ رہا تھا کہ بیٹے مجھے دے اور بیٹی تو رکھ لے ، اور اب کچھ دن پہلے نشے کی حالت میں پہلے مجھے مارا اور پھر رات کو ایک 1 بجے  چار  دفعہ یہ الفاظ بولے  کہ” جا میں نے تجھے آزاد کیا ، میں نے تجھے طلاق دی“  میں نے یہ  بات جب اپنی ساس اور جیٹھانی کو بتائی تو وہ ماننے کے بجائے کہنے لگیں کہ چپ رہوشور نہ مچاؤ پھر میں بچے لیکر اپنے گھر آگئی  جبکہ میرا سارا سامان وہیں ہے ، پھر جب میرے گھر والوں نے اس کے خلاف قانونی کاروائی کی  تو وہ منکر ہو گیا ، کہ میں نے تجھے نشے کی حالت میں طلاق نہیں دی  تو جب میری امی پولیس لے کر ا ن کے گھر گئی  تو میری ساس اور جیٹھانی نے اس بات کو قبول کر لیا کہ : جی ہاں !اس نے ہمیں بتایا تھا ،برائے کرم قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں ،طلاق ہوئی ہے،یا نہیں ؟ اگر ہوئی ہیں تو کتنی طلاقیں ہوئی ہیں۔

جواب

صورت مسئلہ میں بیان کردہ صورتحال اگر حقیقت پر مبنی ہے اور اس میں کسی قسم کی غلط بیانی سے کام نہیں لیا گیا ، تو چونکہ مذکورہ شوہر نے اپنی بیوی کو کئی مرتبہ وقتا فوقتا  طلاقیں دی ہیں  ( اگرچہ بعض  طلاقیں نشے کی حالت میں دی ہیں )جس  سے تین طلاق مغلظہ واقع ہوچکی ہیں ، لہذا اب حلالہ شرعیہ کے بغیر نہ رجوع ممکن ہے اور نہ ہی تجدید نکاح ۔

لما فی الدر المختار مع حاشية ابن عابدين:

’’ (ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع، ليدخل السكران.(قوله: ليدخل السكران) أي فإنه في حكم العاقل زجرًا له، فلا منافاة بين قوله عاقل وقوله الآتي أو السكران.‘‘(كتاب الطلاق، مطلب: في الحشيشة والافيون والبنج،4/427،433،رشيدية)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين :

’’ وبين في التحرير حكمه أنه إن كان سكره بطريق محرم لايبطل تكليفه فتلزمه الأحكام وتصح عبارته من الطلاق والعتاق، والبيع والإقرار، وتزويج الصغار من كفء، والإقراض والاستقراض لأن العقل قائم، وإنما عرض فوات فهم الخطاب بمعصيته، فبقي في حق الإثم ووجوب القضاء. .‘‘(كتاب الطلاق، مطلب: في تعريف السكران وحكمه،4/432،رشيدية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 174/266