نافرمان بیوی ، بچوں کی پرورش او رانہیں عاق کرنے کا شرعی حکم

Darul Ifta mix

نافرمان بیوی ، بچوں کی پرورش او رانہیں عاق کرنے کا شرعی حکم

سوال

 کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام کہ میری پہلی بیوی سے اولاد نہ ہونے کی وجہ سے حصول اولاد کی خاطر دوسری شادی کی (دوسری بیوی کے گھر والوں کو تمام حقائق معلوم ہونے کے بعد بیوی اور اس کے گھر والوں نے میری اولاد کو اور مجھے بلیک میل کرنے کا ذریعہ بنا لیا، دوسری بیوی اکثر لڑتی تھی اور گلی محلہ جمع کر لیتی تھی اور اس کے گھر والے بھی آکر مجھے ہی بُرا بھلا کہتے تھے، نہ میری بیوی سننے کے لیے اور نہ ہی اس کے گھر والے کچھ سمجھنے کو تیار ہوتے تھے، بیٹی کی پیدائش2013ء میں ہوئی دسمبر کے مہینے میں، حیرت انگیز طور پر میری بیوی اور اس کے گھر والوں کے رویوں میں تبدیلی آنا شروع ہوئی اور انہوں نے جارحانہ رویہ اختیار کرنا شروع کر دیا، حتیٰ کہ اکتوبر2014ء کو میری بیوی بیٹی کو ساتھ لے کر اور لڑجھگڑ کر بغیر میری مرضی کے میکے چلی گئی، میری بیوی حاملہ تھی، چھ ماہ تک میری بیوی اور اس کے گھر والوں نے مجھ سے کوئی رابطہ نہ کیا (واضح ہو کہ اس سے پہلے بھی میری بیوی کئی بار لڑ جھگڑ کر میکے جاتی رہی اور میں اور میرے گھر والے ان کی مختلف ڈیمانڈ مان کر اسے واپس لاتے رہے ہیں) بچے کی پیدائش سے کچھ ماہ قبل میں نے اپنے بڑوں کو بھیج کر حالات نارمل کر وائے اور بڑوں کے درمیان طے ہونے والے معاہدے کے تحت میں نے خرچ دینا بھی شروع کیا میکے میں، اور بچے کی ڈلیوری بھی میرے خرچ پر ہوئی،طے یہ ہوا تھا کہ میری بیوی میرے (جیکب لائن) والے مکان میں جائے گی۔ ( ڈلیوری کے بعد)، اس دوران میں اسے میکے میں ہی خرچ دیتار ہا اور بچوں سے ملنے میکے ہی جاتا رہا ، مگر جیسے ہی بچے کی پیدائش ہوئی اور انہوں نے دیکھا کہ بیٹا پیدا ہوا ہے تو انہو ں نے اور میری بیوی نے مجھ سے سخت لڑائی جھگڑا شروع کر دیا، بات بات پر میری بے عزتی کرتے تھے حتی کہ میری بیوی اور اس کے گھر والوں نے مجھ سے یہ مطالبہ کر دیا ( میری سالی، سالے، ساڑھو نے) کہ آپ اپنا جیکب لائن والا مکان بچوں کے نام پر کرو اور20000 روپے خرچ (میکے میں) دو توتب تو یہاں آؤ ،ورنہ یہاں نہ آنا اور لڑ جھگڑ کر ان سب نے مجھے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا، بعد میں میں اپنے بڑوں کو لے کر گیا تو انہوں نے وہی مطالبات دھرائے اور ہم سے لڑائی جھگڑا کیا جس سے ہمیں جسمانی چوٹیں آئیں۔

جناب مفتی صاحب!
1-میرے بچوں کا نفقہ مجھ پر لازم ہے مگر ایسی صورت حال میں نفقہ کس طرح سے دیا جاسکتا ہے (بغیر کورٹ کے) کہ جب کہ بیوی اور سسرال والوں سے مجھے جان کا خطرہ ہو اور وہ مجھے خود کہہ چکے ہیں کہ آئندہ ادھر کا رخ نہ کرنا اور نہ بچوں سے ملنے آنا، یعنی مکان نام پر کرو اور 20000 ہزار خرچ میکے میں دوتب تو آؤ ،ورنہ نہیں؟
2-میں نے حصولِ اولاد کے لیے شادی کی، بچے ہونے کے بعد اس طرح سے مطالبات میاں سے کرنا اور سسرالیوں کا بلیک میلنگ کرنا۔ کیا احکامات ہیں ہمارے دین میں اس طرح کے معاملات کے بارے میں جب کہ عورت گھر آباد کر رہی ہونہ بسا رہی ہو، مگر بے جا مطالبات بلیک میلنگ کسی کے کہنے میں آکر کر رہی ہواور اپنے ہی میاں کو لوٹنے اور نقصان جانی مالی پہنچانے/پہنچوانے کے درپے ہو او ربچو ں کو بھی باپ کے سائے سے محروم کر رکھا ہو، محض روپے پیسہ کی خاطر بلیک میلنگ اپنے میکے والوں (بہنوں، بہنوئیوں،بھائی) کو فائدہ پہنچانے کے لیے یا ان ہی کے اشاروں پر، اپنے گھر کو داؤ پر لگانے والی عورت کے بارے میں دین اسلام کیا کہتا ہے؟ کیا ایسے ظالم لوگوں کے مطالبات مان لینے چاہئیں جب کہ وہ خود کہہ چکے ہوں کہ جانا ہم نے نہیں، مکان نام پر پہلے کردو پھر سوچیں گے۔ ساتھ دینِ اسلام کی روشنی میں بتائیں کہ ایسی عورت کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے؟
3-جناب مفتی صاحب! دین اسلام کی روشنی میں اولاد نرینہ سات سال بعد اور بیٹی نو سال بعد والد کی پرورش میں آجاتے ہیں اور والد نے نفقہ دینا ہوتا ہے، لیکن ہمارے عدالتی نظام میں تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچوں سے پوچھا جاتا ہے کہ کس کے پاس رہو گے؟ عدالتی نظام دینی شرعی نظام سے متصادم ہے۔ اگر میں نفقہ دوں او رپھر بھی حکومت بچے میرے حوالے نہ کرے تو پھر کیا ہو گا؟ یا نفقہ دینے پر سو فیصد بچے والد کو مل جاتے ہیں عدالتی نظام سے؟
4-کیا اس طرح سے شرعی طو رپر کیا جاسکتا ہے کہ ایک ایگریمنٹ اسٹامپ پیپر پرباہمی رضا مندی سے بنوا دیا جائے جس میں باپ یہ لکھ دیتا ہے کہ میرا میرے بچوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ میری جائیداد میں بھی میری مرضی کے بغیر حصے دار نہ ہوں گے، میں بچوں کو عاق کرتا ہوں اور مہر کے بدلے میں بچے بیوی کو چھوڑتا ہوں، کیا شرع میں کہیں اس طریقے کی اجازت ہے؟ دین اسلام کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیے گا۔

جواب

واضح رہے کہ نکاح انسان کی عزت، نسب اور نسل کا محافظ ہے، اسی لیے اسی کی ترغیب بھی ہے اور تاکید بھی، نکاح کے بڑے فوائد ہیں: نظروں کی حفاظت ہوتی ہے ،شرم گاہ کی حفاظت ہوتی ہے، الله تعالیٰ نے میاں بیوی میں ایک عجیب محبت اور پیا رکی کیفیت رکھ دی ہے اسی بناء پر گھر آباد ہوتا ہے اور اولاد کی صحیح تربیت ہوتی ہے، جتنا ہو سکے اس رشتے کو نہیں توڑنا چاہیے، لیکن بعض اوقات میاں بیوی کی آپس میں ناراضگی اور عدم مناسبت بڑھ جاتی ہے کہ اب ان کا اکھٹے رہنا ان کے لیے اور اولاد کے لیے، اسی طرح دونوں خاندانوں کے لیے خطرہ اور نقصان کا سبب ہوتا ہے، اس لیے طلاق جیسی ناپسندیدہ چیز کو بھی حلال کیا گیا ہے، اب سوالات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں:
1-شرعی اعتبار سے آپ کی حیثیت کے مطابق بچوں کا خرچہ آپ پر لازم ہے، البتہ میکے والوں کو 20000 دینا نہ آپ کے ذمے ہے نہ وہ مطالبہ کرسکتے ہیں۔
2-اگر واقعی صورتِ حال اسی طرح ہے تو پھر ایک مرتبہ آپ اپنے خاندان کے چند معزز لوگوں کے ساتھ مل کر بیوی اور اس کے گھر والوں کو، جوان کو نامناسب مطالبوں پر، ابھار رہے ہیں، سمجھائیں کہ دین اسلام میں اس طرح کسی کا مال لینا ظلم ہے جس پر بڑی وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اس کے بعد بھی اگر بیوی آپ کے ساتھ رہنے پر راضی نہ ہو اور خواہ مخواہ نقصان ہی کے درپے ہو تو طلاق دے کر اس کو علیحدہ کرسکتے ہیں۔
3-واضح رہے کہ بچوں سے پوچھ کر ان کی مرضی کے مطابق والدین میں سے کسی ایک کے لیے فیصلہ کرنا درست نہیں، البتہ اگر بیوی کو طلاق ہو جائے تو لڑکا سات سال اور لڑکی نو سال تک والدہ کی پرورش میں رہیں گے، اس کے بعد والد لے سکتا ہے، بچوں کا خرچہ بہرصورت والد کے ذمے ہے۔
4-بلاوجہ اپنے بچوں کو عاق کرنا، یا مہر کے بدلے میں بیوی کو دینا، شریعت میں اس طرح کے اسٹامپ پیپر وغیرہ کا کوئی اعتبار نہیں اور نہ ہی اس کی گنجائش ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی