میراث میں بہنوں کو حصہ نہ دینا

Darul Ifta mix

میراث میں بہنوں کو حصہ نہ دینا

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقوں میں ایک رواج چلا آرہا ہے کہ جب والد کا انتقال ہو تا ہے تو میراث کی تقسیم اکثریوں ہوتی ہے کہ بہنیں اپنا حصہ بھائیوں کو ہبہ (تحفہ) کرتی ہیں، وہ بھائی یا تو ان کی دیکھ بھال کا وعدہ کرتے ہیں، یا کہتے ہیں کہ میں آپ کو حج پر لے جاؤں گا، اس پر وہ ان بہنوں سے دستاویز کے طور پر خط لکھواتے ہیں، دستخط لیے جاتے ہیں، یا انگوٹھا لگوایا جاتا ہے۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس طرح کرنے سے ان بہنوں کی میراث کا حق ساقط ہو جاتا ہے یا نہیں؟ اگر کسی بھائی نے کسی بہن کو حج کرایا ہو یا اس بہن کو یا اس بہن کی وفات کے بعد اس کے بعض وارثوں کو کچھ پیسے دیے ہوں، تو کیا ایسا کرنے سے بہن کا حق میراث ختم ہوجاتا ہے یا نہیں؟حق ساقط نہ ہونے کی صورت میں اگر وہ بہنیں فوت ہو گئی ہوں تو کیا ان کے ورثاء(اولاد) اپنی ماں کے حق کا مطالبہ کرسکتے ہیں یا نہیں؟
مندرجہ بالا مسائل میں چوں کہ دین دار لوگ بھی مبتلا ہیں ،اس لیے درخواست یہ ہے کہ مذکورہ مسئلہ کا جواب مدلل ومفصل ہونے کے ساتھ ساتھ ترہیب وترغیب پر بھی مشتمل ہوتاکہ ان پر عمل آسان ہو جائے اور ہم سب مسلمانوں کے جہنم سے بچنے کا ذریعہ بن جائے۔

جواب

واضح رہے کہ والد کے انتقال کے بعد بیٹوں پر لازم ہے کہ والد کی بیٹیوں (اپنی بہنوں) کو وراثت کا پورا پورا حق ان کے حوالے کریں، تقسیم سے قبل بہنوں کااپنا حصہ بھائیوں کو ہبہ کرنا درست نہیں، اسی طرح بھائیوں کا بہن کو ان کا حق اس وجہ سے نہ دینا کہ ہم آپ کے حصے کی دیکھ بھال کریں گے، یا آپ کو حج کرائیں گے ، یہ بھی درست نہیں، اس طرح ہبہ کرنے، دیکھ بھال یا حج کے وعدے سے بہنوں کا حقِ میراث ساقط نہ ہو گا، بلکہ زندگی میں بہنوں کو بذاتِ خود اور ان کے انتقال کے بعد ان کے ورثاء کو اپنی والدہ کے حصے کے مطالبہ کا حق حاصل ہو گا، نیز بھائیوں نے بہنوں کے حقِ میراث کے بدلے جو ان کو حج کرایا یا نقدی وغیرہ دی اس کی مالیت مجہول ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ بھی درست نہیں، لہٰذا بھائیوں کو بہنوں کا حق میراث دینے پر اس مالیت کے واپس لینے کا حق حاصل ہے۔

البتہ میراث تقسیم ہوجانے کے بعد اگر کوئی بہن اپنے حصے پر مکمل قبضہ کرکے اپنی خوشی ورضا مندی سے (نہ کہ علاقے کے رسم ورواج یا دباؤ سے) اپنا حق اپنے بھائیوں کوہبہ کر دے یا دیکھ بھال کے لیے دے دے تو یہ جائز ہے۔
الله تعالیٰ نے واضح اور صاف طور پر اپنے کلام میں میراث کے احکام کو بیان فرمادیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان احکامات پر عمل کرنے والوں کے لیے بشارت اورابدی سعادت اور ان احکام پر عملنہ کرنے والوں کے لیے عذاب کو بھی بیان فرما دیا، اب جس مسلمان کے دل میں الله تعالیٰ کے احکامات کی عظمت، آخرت کی جواب دہی اور دوسروں کا حق دبانے پر ملنے والے دنیا وآخرت کے عذاب کا یقین ہو گا وہ تو ہر گز ان احکام سے روگردانی نہیں کرے گا، بلکہ وہ ہر صاحبِ حق کو اس کا حق پورا پورا دے گا۔
باقی جن مسلمانوں نے غفلت کی چادر اوڑھ کر حرص وہوس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے اور آخرت کی ابدی وحقیقی زندگی ان کے سامنے نہیں، یہی لوگ ہیں جو ماں بہن کے حقِ میراث میں غبن کرتے ہیں او راپنی حلال کمائی کو بھی حرام بناتے ہیں۔
وراثت میں ملا ہوا مال اطیب الاموال (پاکیزہ اموال میں سے سب سے پاکیزہ مال) کہلاتا ہے، کیوں کہ اس میں انسان کے کسب وعمل کو دخل نہیں، جو شخص اس تقسیم میں قانونِ الہی کی مخالفت کرتاہے وہ کئی وجہ سے الله تعالیٰ کے غضب وقہر کا مورد ہوتا ہے، اول: یہ کہ شاہی انعام جس کا حق دار کو پہنچانا اس کے ذمے تھا اس میں خیانت کی، دوسرے: حق دار کو اس کے حق سے محروم کرکے ظلم کیا، تیسرے ،یہ ظلم جو وراثت میں ہوتا ہے نسلوں تک چلتا ہے، اور اس کا وبال اس شخص پر ہوتا ہے جس نے اول اس میں خیانت کی۔
خلاصہ یہ کہ بھائیوں کا مظلوم بہنوں کو ان کا حقِ میراث نہ دینا ظلم عظیم ہے، اور صرف زبانی کلامی معاف کرالینا بھی شرعاً معتبر نہیں او راسی طرح بہنوں کا بھائیوں کے قطع تعلق اور طعن وتشنیع کے ڈر سے بادل ناخواستہ محض زبانی اپنا حصہ معاف کرنے کا بھی کوئی اعتبار نہیں، غرضیکہ حرام کو حلال بنانے اور بے زبان مظلوم بہنوں کا حصہٴ میراث دبانے کے لیے جو بھی چالیں چلی جاتی ہیں وہ سب شرعاً مردود اور باطل ہیں۔
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب مسلمانوں کو قرآن وسنت کے مطابق ہر صاحب حق کا حق ادا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین! فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی